کیوں لال چند صاحب
زور دار تالیاں بجائیں۔ واہ واہ کیجیے اور جس قدر تعریفیں ہو سکیں بالکل کیجیے ۔ خادم اعلی پنجاب نے وہ کارنامہ انجام...
زور دار تالیاں بجائیں۔ واہ واہ کیجیے اور جس قدر تعریفیں ہو سکیں بالکل کیجیے ۔ خادم اعلی پنجاب نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ دل خوشی سے جھوم رہا ہے ۔ موسم ایک دم خوشگوار ہو گیا ہے ۔ اور اب دنیا میں اگر کہیں بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے نام دیا جائیگا تو وہ صرف خادم اعلی پنجاب محمد شہباز شریف کا دیا جائیگا ۔ مجھے تو لگ رہا ہے اگلا نوبل انعام برائے امن پر بھی صرف اُن ہی کا حق ہے ۔
کیونکہ رواں سال اب تک پنجاب میں خواتین پر گھریلو تشدد کا ایک واقعہ بھی رونما نہیں ہوا ۔ پورا پنجاب امن کی بانسری بجا رہا ہے۔ کم از کم اب تو اپنے اندر تبدیلیاں لے آئیں اور حکمرانوں کی شان میں گستاخی کی ہمت کر لیا کریں ۔ حیرانی ہے مجھے وزارت قانون و انصاف کے اس جواب پر کہ پنجاب میں اس پورے سال گھریلو تشدد کا کوئی واقعہ رونما نہیںہوا ۔ اتنا بڑا جھوٹ لکھتے اور پڑھتے ہوئے اور تحریری طور پر درج کرتے ہوئے کیوں کسی کو حیرانی نہیں ہوئی ؟
تماشہ کے لفظ پر تو سب نے تماشہ لگا دیا مگر اُسی دن اتنا بڑا تماشہ ہوا کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی لال چند نے وزارت قانون و انصاف سے اتنا پوچھا تھا کہ جناب اعلی یہ تو بتائیے کہ پورے پاکستان میں خواتین ، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے کیا کارنامے انجام دیے گئے ہیں؟ جس کا جواب 18دسمبر کو وزارت نے اسمبلی میں تحریری طور پر پیش کیا ۔ جیسے ہی میری نظر اس جواب پر پڑی تو میں چونک گیا ۔حیرت سے آنکھیں باہر آگئیں اور پھر تعجب سے کئی بار غور سے پڑھتا رہا ۔
جس میں درج تھا کہ اسلام آباد جیسے چھوٹے شہر میں گھریلو تشدد کے سات کیس ہوئے ۔ اور دس کروڑ سے زیادہ آبادی والے پنجاب میں گھریلو تشدد کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ۔ اسے آپ خادم اعلی کی اعلی کارکردگی کہیں گے یا پھر اُن پر عدم اعتماد کا کوئی کیس کسی نے درج ہی نہیں کرایا یا پھر ہمارے وزیر قانون و انصاف کی خادم اعلی سے وفاداری کہ انھوں نے یہ کیس درج ہی نہیں کیے کہ کہیں چھوٹے صاحب ناراض نہ ہو جائیں ۔ اس بات کا اندازہ آپ کو مزید درج معلومات سے ہو جائے گا ۔ جواب میں لکھا ہوا ہے کہ وزارت قانون و انصاف کے زیر اثر ہیومن رائیٹس ونگ ہے جس نے یہ ڈیٹا جمع کیا ہے ۔
صاحب کی شان میں گستاخی نہ ہو جائے اس لیے اس ڈیٹا کے مطابق سب سے زیادہ امن و امان اور انسانی حقوق کا خیال پنجاب میں رکھا جا رہا ہے ۔ اور سب سے برے حالات اُن صوبوں میں ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں ہے ۔ جب کہ آزاد ذرایع اس کی بالکل نفی کرتے ہیں ۔ وزیر صاحب کے مطابق سندھ ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی اور حالت بدستور ابتر ہیں لیکن پنجاب میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں گزشتہ سال انسانی حقوق کے حوالے سے کل 1281 کیسس سامنے آئے لیکن اس سال 15 نومبر تک صرف اور صرف 454 کیسس سامنے آئے ۔ یعنی پنجاب انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے ۔ اخبارات اور میڈیا میں آنے والی خبریں اس سے بالکل مختلف ہیں ۔
شک کا عنصر اس لیے زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ اس دی گئی معلومات کے مطابق پورے پنجاب میں اقلیتوں کے حوالے سے صرف ایک کیس سامنے آیا اور خیبرپختونخواہ میں 81 کیس سامنے آئے ۔ یہ ایک واقعہ بھی لکھنے کی زحمت شاید اس لیے کر دی ہو گی کہ اسی سال لاہور کی جوزف کالونی کا واقعہ بھلایا نہیں جاسکتا ۔ ورنہ یہ واقعہ بھی نہیں لکھا ہوتا ۔ اور پنجاب کی ساری اقلیتیں خوش ہوتیں۔شاید پچھلے مہینے گوجرانوالہ کا واقعہ وزارت کی نظر سے نہیں گزرا ہو گا۔ اور ہاں اکتوبر میں سیالکوٹ میں بھی کچھ نہیں ہوا تھا ۔ دل کو تو بہت سمجھا رہا ہوں کہ وہ مان لے کہ پنجاب میں پورے سال، صرف ایک واقعہ ہوا ہے مگر یہ قلم باز نہیں آتا ۔
انکشافات سے بھرپور اس معلومات کے مطابق عورتوں کے لیے سب سے غیر محفوظ جگہ اسلام آباد ہے۔ چھوٹی سے آبادی کے اسلام آباد میں خواتین سے زیادتی یا اجتماعی زیادتی کے 25 واقعات ہوئے ۔ جب کہ دس کروڑ کی آبادی والے پنجاب میں 72 واقعات ہوئے جو کہ پچھلے سال 203 تھے ۔لگتا ہے سب لوگ سدُھر گئے ہیں ۔ حکومت کی اتنی اچھی کارکردگی کا ثبوت تو لاہور میں ہونے والے زیادتی کیس سے سامنے آگیا ہے ۔100 دن سے زیادہ ہو گئے لیکن ابھی تک ایک معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کے ملزم گرفتار تو دور کی بات ہے پولیس اب تک انھیں پہچان نہیں سکی ۔
لیکن وفاقی حکومت کے وفاقی وزیر نے ہر صورت میں پنجاب میں امن د کھانا تھا اور یہ بتانا تھا کہ اُن کی حکومت انسانی حقوق میں سب سے بہتر ہے، اسی لیے لکھا گیا کہ بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے سب سے زیادہ بدنام خیبر پختونخواہ ہے ۔ بچوں پر تشدد میں تو تحریک انصاف کی حکومت نے وفاقی حکومت کے مطابق معرکہ سر کر لیا ہے ۔ جہاں 15 نومبر تک 101 کیسس سامنے آچکے ہیں ۔ اور آپ کو ہر گز حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ پنجاب حکومت کے اعلی اقدامات کی وجہ سے پنجاب میںصرف اور صرف سات کیسس ہوئے ہیں جو دنیا بھر کے نام نہاد مغربی معزز ممالک سے بھی اچھا ہے ۔ اب اس رپورٹ پر میں پنجاب کی تعریف کروں یا وفاقی وزارت قانون و انصاف کی ۔
کیونکہ یہ سوال قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رکن نے کیا تھا اس لیے انھیں یہ سب پڑھ کر مایوسی ہوئی ہو گی ۔لال چند صاحب کا تعلق سندھ سے ہے ۔ اور وہ اقلیتوں کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئے ہیں اس لیے انھیں اب اپنی پارٹی میں یہ بات کرنی چاہیے کہ جناب یہ وفاقی وزارت قانون و انصاف کس قدر سچی ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ پنجاب میں اقلیتوں کو تکلیف دینے کے حوالے سے صرف ایک واقعہ پیش آیا جب کہ ان کی جماعت جہاں حکومت کر رہی ہے وہاں 81 واقعات ہوئے ۔
واہ جی واہ کیا بات ہے پنجاب حکومت اور وفاقی وزارت قانون و انصاف کی ۔ دونوں برابر تعریف کے مستحق ہیں ۔ اس سلسلے میں سندھ کے وزیر اعلی قائم علی شاہ اور خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی پرویز خٹک صاحب کو دل کی گہرائیوں سے یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ کسی نہ کسی طرح وہ وفاقی وزیر سے بہتر تعلقات کر کے یہ فن ضرور سیکھ لیں کہ معلومات کو کس طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ صوبے میں امن ہو یا نہ ہو لیکن رپورٹ '' سب اچھا ہے '' کی بننی چاہیے ۔
اس رپورٹ کے بعد مسلم لیگ (ن) کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ انھوں نے ایک اعلی شخص کو منتخب کر کے ہم سب کے لیے رول ماڈل بنا دیا ۔ جن کی وجہ سے اب پورے پنجاب میں ایک بھی خاتون کے ساتھ گھریلو تشدد کا واقعہ نہیں ہوا ۔ جہا ں ایک سال میں انسانی حقوق کی صورتحال 100 فیصد تبدیل ہو گئی ۔بس اب مجھے انتظار ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں کب بہنا شروع کریں گی ۔ ویسے اگر اتنا امن تھا تو یہ آج چہلم کے موقعہ پر رینجرز اور فوج کیوں الرٹ کھڑی ہے ؟ یہ تحریک انصاف کا پروپیگینڈہ ہو گا یا پھر میڈیا کے سر پھروں نے سازش کی ہو گی ۔ ورنہ پاکستان میں تو امن ہی امن ہے...کیوں لال چند صاحب۔