مرد بھی مظلوم ہوتے ہیں
اغوا برائے زیادتی پر مبنی کچھ دن قبل میرا ایک کالم شایع ہوا۔ راقم کی جانب سے ارباب اختیار اورعدلیہ کی توجہ 365/B کے...
اغوا برائے زیادتی پر مبنی کچھ دن قبل میرا ایک کالم شایع ہوا۔ راقم کی جانب سے ارباب اختیار اور عدلیہ کی توجہ 365/B کے غلط استعمال سے متعلق توجہ دلائی گئی تھی۔ روزنامہ ایکسپریس میں راقم کے کالم کی اشاعت کے بعد لانڈھی جیل کی دو بیرکوں میں موجود متعدد ملزمان نے رابطہ کیا۔ اس میں محمود آباد تھانے سے گرفتار ملزم عبدالغفار ولد اﷲ ڈیویا، محمد عمر ولد محمد نواز، جیکسن تھانے سے عبدالصادق ولد محمد صالح، ملیر سٹی سے احمد حسن ولد محمد اسحاق، افتخار بھٹی ولد پیر بخش، لیاقت آباد تھانے سے افضل ولد عبدالرحمن، قائد آباد تھانے سے رحمت ولد شاہ زمان، فیروز آباد تھانے سے فیصل ولد عبدالمجیب، سچل تھانے سے مظفر ولد منتظر اور شاہ لطیف تھانے سے جاوید ولد عبدالخالق تھے۔
ڈسٹرکٹ جیل ملیر لانڈھی کی ان دو بیرکوں میں 12ملزمان سیکشن 365/B کے تحت کئی ماہ و سالوں سے قید ہیں۔ 365/B ان ملزمان پر لگائی جاتی ہے جن پر یہ الزام ہوتاہے کہ کسی عورت کو زنا بالجبر کے لیے اغوا کیا۔
اس حوالے سے تفصیلی کالم شایع ہوچکا ہے لیکن گزشتہ کالم کی اشاعت کے بعد جب بالا ملزمان نے مجھ سے رابطہ کیا تو ان کا استدلال یہ تھا کہ حقوق نسواں کے قانون نے ان کا استحصال کیا ہے اور عورت کو فوقیت دینے کی روش نے ان کے حقوق پامال کردیے ہیں۔
میرے لیے اہم امر یہ تھا کہ روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والے کالموں کو بڑی توجہ کے ساتھ پڑھا جاتاہے اور بڑی تعداد مجھ سے اپنے مسائل کے حوالے سے رابطہ کرتی ہے۔ مردوں کے استحصال کے حوالے سے تفصیلاً کچھ لکھنے سے پیشتر دو اہم مقدمات کے مدعا علیہان کی گرفتاری اور 365/B کے قانون کے نفاذ کا ذکر مناسب ہوگا۔
احمد حسن ولد محمد اسحاق کی عمر16 سال ہے قائد آباد کا رہائشی ہے اور فرسٹ ایئر کا طالب علم ہے، سرائیکی قوم سے تعلق رکھتاہے۔ احمد حسن نے بڑے دلچسپ حقائق بتائے۔ ان کے مطابق اس کی (ع) نامی 16 سالہ لڑکی سے موبائل فون پر دوستی ہوگئی جو بڑھتے بڑھتے فیس بک اور ملاقاتوں پر جاری رہی۔ (ع) نے احمد حسن کو مجبور کیا کہ وہ اس سے شادی کرے اور اسے بھگا کر لے جائے۔ احمد حسن نے بتایاکہ اس نے اس سے انکار کیا کہ اس کے پاس مالی استطاعت نہیں ہے، اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ بھاگ کر اس سے شادی کرے۔ جس پر (ع) نے خود کو زخمی کرلیا کہ اگر وہ نہیں بھاگے گا تو وہ خود کو جان سے ماردے گی۔ احمد حسن خوف زدہ ہوگیا اور (ع) نے اپنے گھر سے رقم و ضروری سامان کا بندوبست خود کیا اور وہاں سے دونوں لاہور اور اسلام آباد بھاگ گئے۔ لڑکی کے بھائی نے احمد حسن سے رابطہ کیا اور اسے واپس آنے کو کہا۔ اسلام آباد میں انھیں گرفتار کرلیاگیا اور واپس جب کراچی آئے تو پتہ چلا کہ اس پر اغوا برائے زیادتی کا مقدمہ بنادیاگیا ہے اور اس کے گھر والوں کو بھی ملوث کردیا گیاہے۔
میڈیکل رپورٹ میں ثابت ہوا کہ لڑکی کے ساتھ جنسی اختلاط نہیں ہوا اور نہ ہی جسم پر کوئی تشدد کے نشانات ہیں۔ لڑکے کی کم عمری کے باوجود ضمانت مسترد کردی گئی اور لڑکی نے گھر والوں کے دباؤ پر بیان بدل دیا کہ احمد حسن نے اسے کراچی سے اغوا کیا۔ اسلام آباد کے جنگلوں میں لے گیا جہاں اس سے زیادتی کی جاتی رہی اور جب بھی اس نے جنگل سے بھاگنے کی کوشش کی تو اس پر تشدد کیا گیا۔
میڈیکل رپورٹ میں زیادتی اور تشدد ثابت نہ ہونے کے باوجود پولیس کے با اثر آفیسر نے ضمانت مسترد کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور ان سے آٹھ لاکھ روپے طلب کیے۔ احمد حسن جیسے ہزاروں نوجوان موبائل فون اور فیس بک پر عشق و معاشقے کررہے ہیں اس کی داستان ان سب کے لیے عبرت ہے۔
اسی طرح 365/B کا ایک اور اہم واقعہ فیصل ولد عبدالمجیب نامی قیدی کا ہے۔ جس نے (ن) نامی لڑکی کے ساتھ بھاگ کر شادی کی اور پھر کچھ عرصے بعد اس وقت گرفتار ہوا جب کہ اس کا ایک بچہ بھی ہوچکا ہے۔ لیکن اس کے پاس نکاح کا ثبوت نہیں تھا جس کی وجہ سے کئی ماہ سے وہ قید ہے۔
تیسرا اہم مقدمہ افتخار بھٹی ولد پیر بخش کا ہے۔ بہادر آباد کے اس رہائشی کو جس لڑکی کے مقدمے میں دو سال سے بند کیا گیا ہے اس مقدمے میں لڑکی (خ) نے بیان بھی دیا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی۔ جب کہ اپنے ایک بیان میں اس نے قرار کیا کہ اس کے دس ماہ قبل افتخار کے دوست سے جنسی تعلقات تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ (خ) کے بیان میں افتخار بھٹی بے گناہ ثابت ہے۔ لیکن نہ تو اسے ضمانت مل رہی ہے اور نہ رہا کیا جا رہا ہے۔ جب کہ اہم پہلو یہ ہے کہ لڑکی (خ) کی شادی ہوچکی ہے اور اس کے دو بچے بھی ہیں۔
اس پہلو سے دیکھا جائے تو (خ) کی ازدواجی زندگی پر اس مقدمے کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اس کے دو بچوں کے مستقبل پر اس کے مضمرات کیا ہوںگے۔ وہ انتہائی اہم پہلو اور قابل توجہ معاملہ ہے۔ عدالت میں کیس کی طوالت سے دو خاندان تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑے ہیں اور 365/B میں مردوں پر استحصال کی یہ سب سے بڑی عبرت ناک مثال ہے۔
اسٹیل ٹاؤن کے اسکول ٹیچر افضل شعور اور (ث) نامی لڑکی کے درمیان معاشقے کو بھی لڑکی کے والد نے 365/B میں تبدیل کرادیا۔ متضاد بیانات اور عدم شواہد کو ایک جانب بھی رکھ دیاجائے تو قانون اجازت دیتاہے کہ دو سال سے زائد عرصہ جیل میں قید رہنے والے قاتل کو بھی ضمانت کا حق مل جاتاہے۔ لیکن 365/B کی تلوار سے زخمی افضل شعور دو سال سے زائد قید میں ہونے کے باوجود انصاف کا منتظر ہے۔
365/B میں اہم ترین نقطہ یہی ہے کہ قانون میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ جب یہ ثابت ہوجاتاہے کہ لڑکی اپنی مرضی سے گئی، شادی کی، معاشقہ کیا تو پھر مرد کو ہی اکیلے مورد الزام کیوں قرار دے دیاجاتاہے؟ 365/B کا اطلاق صرف مردوں پر کیوں کیاجاتاہے۔
معاشرتی انحطاط اور جنسی بے راہ روی میں قصور کسی اکیلے مرد کا نہیں ہوتا بلکہ ثابت ہے کہ بے راہ روی میں صنف نازک کا اہم کردار ہوتاہے۔ غلطی یکطرفہ نہیں ہوتی بلکہ شہ ملنے پر ہی مرد کا اقدام قابل اعتراض بن جاتاہے۔
بے راہ روی میں صرف مردوں کو ذمے دار قرار دے کر 365/B کا پھندا ڈالنا حقائق کے برخلاف اور مردوں کے ساتھ استحصال ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ایسے واقعات جس میں مردوں نے عورتوں کے ساتھ زیادتی کی وہ غلط یا جھوٹ ہوںگے۔ لیکن اہم بات یہی ہے کہ لڑکی کے اغوا اور اس کی بے آبروئی کے واقعات کو بڑی باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
قصور صرف مرد کا نہیں عورت کا بھی ہوسکتاہے اور قانون بنانے والے اداروں کو قانون ساز پارلیمنٹ کو اور حقوق نسواں کی تنظیموں کو مردوں پر ہونے والے مظالم کو بھی دیکھنا چاہیے۔ ہمیشہ لڑکی کا بیان درست قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ مرد ہمیشہ سچا ہوگا۔ لیکن انصاف کی فراہمی کا یکساں تصور قائم کیے جانا ضروری ہے کہ اگر قصور وار مرد و زن دونوں ہیں تو سزا بھی دونوں کو دی جائے۔ لیکن صرف مرد کو سزا اور عورت کو معافی کا کوئی قانون رائج ہے تو یہ صرف مردوں کے حقوق پر استحصال و استبداد ہے۔ جسے دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ مرد بھی مظلوم ہوتے ہیں۔