امریکیوں کو پرانا امریکا مبارک ہو
ٹرمپ نے نیا امریکا بنانے کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں یہ عظیم ملک شدید بحرانوں سے دوچار ہو گیا۔
آج ہمیں ان لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو یاد کرنا چاہیے جنھوں نے اپنی محنت، مشقت اور اپنے پیاروں کی جدائی کے آنسوئوں سے امریکا کی سرزمین کو سینچا اور اسے جنت ارضی بنا دیا۔ یہ لوگ جو صدیوں کے دوران افریقا سے کھدیڑ کر، غلام بناکر لائے گئے۔
اب زمین کی گہرائیوں میں اتر چکے ہیں لیکن ان کی نسلوں میں آج بھی تفریق کی جاتی ہے۔ آج بھی انھیں ہمسر نہیں سمجھا جاتا۔ آئین اور قانون کی نظروں میں وہ برابر ہیں لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ ابھی چند دنوں پہلے وہ چار برس گزرے ہیں جو سیاہ بادلوں کی طرح امریکا پر چھائے ہوئے تھے اور ان بادلوں کا مہیب سایہ کسی نہ کسی طور پر پوری دنیا کو گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔
کہنے کو امریکی انتخابات کا ہم سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن یہ بہت گہرا تعلق تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہائٹ ہائوس میں بیٹھے ہوئے شخص جیسے حکمران تیسری دنیا کے کئی ملکوں میں آج بھی بڑے طمطراق سے حکمرانی کے مزے لوٹتے نظر آتے ہیں۔
ان کی زبانیں زہر اگلتی ہیں، انتقام کی آگ ان کے چہروں پر بھڑکتی ہے، وہ بھی اپنے مخالفین کا مضحکہ اڑاتے ہیں، عورتوں کی توہین کرتے ہیں اور پریس پر دبائو ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کے بہت سے ملکوں کو ان انتخابات کے نتائج کا انتظار تھا۔ یہ ان ہی سے پوچھیے کہ انتظار کی یہ کٹھن گھڑیاں کیسے گزری ہیں۔
جوبائیڈن نے اپنی پہلی تقریر میں خوب کہا کہ ان انتخابات میں ہم نے امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سات کروڑ چالیس لاکھ ووٹ لیے ہیں۔ وہ اعتماد جو مجھ پر کیا گیا اس نے میرا سر خم کر دیا ہے۔ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ میں ایک ایسا صدر بنوں گا جو قوم کو حصوں میں نہیں بانٹے گا بلکہ اسے جوڑ کر رکھے گا۔ میں امریکی ریاستوں کو سرخ اور نیلی ریاستوں میں نہیں بلکہ ایک متحد ریاست کے طور پر دیکھوں گا۔ میں اس عہدے پر امریکی روح کے زخم مندمل کرنے کے لیے کام کروں گا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ متوسط طبقہ جو امریکا کی ریڑھ کی ہڈی ہے، وہ اسے طاقتور کریں گے۔ ملک کے اندر لوگوں کو متحد کرنے کے لیے کام کریں گے اور دنیا بھر میں امریکا کے لیے احترام کے جذبات پیدا کرنے کی سعی کریں گے۔ انھوں نے اپنی شریک حیات جل، اپنے بچوں اور اپنے خاندان کا خصوصی ذکر کیا۔ یہ کہا کہ آج وہ جہاں پہنچے ہیں، اس میں ان کے خاندان کا ہاتھ ہے۔ جل کا وہائٹ ہائوس میں ہونا تمام امریکی استادوں کے لیے بہت اہم بات ہے۔ اس لیے کہ جل زندگی بھر ایک استاد رہی ہیں اور اساتذہ میں جو خوبیاں ہونا چاہئیں وہ اس میں موجود ہیں۔
انھوں نے اپنی نائب صدر کملا ہیرس کا بھی نہایت گرم جوشی سے ذکر کیا اور کہا کہ وہ پہلی امریکی خاتون ہیں جو نائب صدر کے عہدے کے لیے منتخب ہوئیں۔ وہ پہلی سیاہ فام، جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون اور کسی تارک وطن کی بیٹی ہیں جو اس عہدے تک پہنچیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے کے باوجود انھیں ری پبلکن پارٹی، آزاد، ترقی پسند، اعتدال پسند، قدامت پرست، نوجوانوں، بوڑھوں، شہری، دیہی، ہم جنس پرست، تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں، سفید فام، لٹینو، ایشیائی، نیٹو امریکی، افریقی امریکی سب ہی حمایت حاصل تھی۔
انھوں نے اپنی تقریر میں ان لوگوں کا بہ طور خاص ذکر کیا جو سابق صدر ٹرمپ کے حامی تھے اور انھیں یقین دلایا کہ وہ بہ ذات خود کئی انتخابات ہارے ہیں اس لیے شکست کا تلخ ذائقہ چکھ چکے ہیں لیکن ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ ہمیں اپنے جذبات کے اشتعال کو کم کرنا ہے، ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں، ہم امریکی ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔
انھوں نے کورونا وائرس کے خلاف لڑنے، خوش حالی کی طرف بڑھنے، ماحولیات کے مسائل کو حل کرنے، تہذیب نفس کو بڑھاوا دینے، جمہوریت کا دفاع کرنے کی بات کی لیکن ان کا اصرار کورونا وائرس سے لڑنے پر تھا۔ انھوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ میں نے ایک ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر انتخابات لڑے لیکن اب میں ہر امریکی کا صدر ہوں۔ انھوں نے رنگ، نسل، مذہب، مسلک اور ذاتی اعتقادات سے ہٹ کر سب کو جوڑنے اور سب کے ساتھ انصاف کرنے کی بات کی۔
وہ ایشیائی جو سالہاسال پہلی امریکا گئے اور اب امریکی ہیں، انھوں نے سکون کا سانس لیا۔ ان کے دلوں میں مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر جو خوف پنجے گاڑکر بیٹھ گیا تھا، اس میں آہستہ آہستہ کمی آئے گی۔ سرحدوں پر بچے جس طرح ماؤں کی گود سے نوچ لیے گئے ان کی اذیت ان لوگوں کے دلوں میں بھی ہے جو اس اذیت سے نہیں گزرے۔ لیکن جانتے ہیں کہ گوشت کا ناخن سے جدا ہونا کیا مفہوم رکھتا ہے، انھیں بھی نئی امریکی انتظامیہ سے یہ امید ہے کہ وہ ان ماؤں اور بچوں سے انصاف کرے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ بارک اوباما کے بعد تارکین وطن، مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں اور خود امریکی پچھڑے ہوئے طبقات کے دلوں میں بہت کام رفو کا ہے۔
باخبر ذرایع کے مطابق پیرس ماحولیاتی سمجھوتہ جس سے امریکا نے چند دنوں پہلے کنارہ کشی کر لی تھی، مسٹر بائیڈن کی ہدایت پر امریکا اس میں پھر شمولیت اختیار کر لے گا۔ وہ سات ملک جس میں بیشتر مسلمان ملک ہیں اور جن کے شہریوں کی سفری سہولتوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، وہ پابندیاں ہٹا لی جائیں گی۔ بارک اوباما نے جن تارکین وطن کو امیگریشن کی سہولت دی تھی، جو دستاویزات نہیں رکھتے تھے اور وہ بچے تھے، وہی سہولیت دوبارہ بحال کر دی جائے گی۔
جو بائیڈن صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد کیا کچھ کرتے ہیں اور اپنے وعدوں کی کس حد تک پاسداری کرتے ہیں، اس کا اندازہ جنوری 2010 میں اور اس کے بعد آنے والے دنوں میں کیا جا سکے گا۔ لیکن اس سے پہلے ہم یہ کیسے نہ مانیں کہ دنیا آج ایک ایسی غیر محفوظ جگہ ہو چکی ہے جس کے خیال سے ہی کپکپی چڑھتی ہے۔
اسے پھر سے محفوظ و مامون بنانے کی خاطر امریکا کو ایک مہذب ملک کا طرز حیات اختیار کرنا ہو گا۔ ورنہ ایک دوسرے کے مخالف درجنوں ملک اپنی پناہ ایٹمی ہتھیاروں میں ڈھونڈیں گے اور شدید خوف کی یہ فضا دنیا کو بارود کا ایک ایسا ڈھیر بنا دے گی جو کسی معمولی سی بات پر بھک سے اڑ جائے گا اور دنیا کے مختلف مذاہب اور قدیم کتابوں میں قیامت کی جس انداز میں پیش گوئی کی گئی ہے وہ درست ثابت ہو گی۔
اوپر کی چند سطریں اب سے کئی برس پہلے لکھی گئی تھیں۔ ان کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور پھر ہم پر سے گزشتہ چار برس کا خوفناک دور گزرا، اب ہم نئے امریکی صدر سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ دنیا کے کمزور ملکوں اور قوموں کے خوف کو محسوس کرتے ہوئے دلوں پر مرہم رکھیں گے اور امریکا کو ایک بار پھر ایسی سرزمین بنا دیں گے جہاں کسی زمانے میں خوب صورت خوابوں کی کاشت ہوتی تھی۔
ٹرمپ نے نیا امریکا بنانے کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں یہ عظیم ملک شدید بحرانوں سے دوچار ہو گیا۔ موجودہ صدارتی انتخابات میں امریکی عوام نے پرانا امریکا دوبارہ بحال کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ بلاشبہ بارک اوباما کا پرانا امریکا ٹرمپ کے نئے امریکا سے کہیں بہتر تھا۔ امریکیوں کو پرانا امریکا مبارک ہو۔
اب زمین کی گہرائیوں میں اتر چکے ہیں لیکن ان کی نسلوں میں آج بھی تفریق کی جاتی ہے۔ آج بھی انھیں ہمسر نہیں سمجھا جاتا۔ آئین اور قانون کی نظروں میں وہ برابر ہیں لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ ابھی چند دنوں پہلے وہ چار برس گزرے ہیں جو سیاہ بادلوں کی طرح امریکا پر چھائے ہوئے تھے اور ان بادلوں کا مہیب سایہ کسی نہ کسی طور پر پوری دنیا کو گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔
کہنے کو امریکی انتخابات کا ہم سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن یہ بہت گہرا تعلق تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہائٹ ہائوس میں بیٹھے ہوئے شخص جیسے حکمران تیسری دنیا کے کئی ملکوں میں آج بھی بڑے طمطراق سے حکمرانی کے مزے لوٹتے نظر آتے ہیں۔
ان کی زبانیں زہر اگلتی ہیں، انتقام کی آگ ان کے چہروں پر بھڑکتی ہے، وہ بھی اپنے مخالفین کا مضحکہ اڑاتے ہیں، عورتوں کی توہین کرتے ہیں اور پریس پر دبائو ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کے بہت سے ملکوں کو ان انتخابات کے نتائج کا انتظار تھا۔ یہ ان ہی سے پوچھیے کہ انتظار کی یہ کٹھن گھڑیاں کیسے گزری ہیں۔
جوبائیڈن نے اپنی پہلی تقریر میں خوب کہا کہ ان انتخابات میں ہم نے امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سات کروڑ چالیس لاکھ ووٹ لیے ہیں۔ وہ اعتماد جو مجھ پر کیا گیا اس نے میرا سر خم کر دیا ہے۔ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ میں ایک ایسا صدر بنوں گا جو قوم کو حصوں میں نہیں بانٹے گا بلکہ اسے جوڑ کر رکھے گا۔ میں امریکی ریاستوں کو سرخ اور نیلی ریاستوں میں نہیں بلکہ ایک متحد ریاست کے طور پر دیکھوں گا۔ میں اس عہدے پر امریکی روح کے زخم مندمل کرنے کے لیے کام کروں گا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ متوسط طبقہ جو امریکا کی ریڑھ کی ہڈی ہے، وہ اسے طاقتور کریں گے۔ ملک کے اندر لوگوں کو متحد کرنے کے لیے کام کریں گے اور دنیا بھر میں امریکا کے لیے احترام کے جذبات پیدا کرنے کی سعی کریں گے۔ انھوں نے اپنی شریک حیات جل، اپنے بچوں اور اپنے خاندان کا خصوصی ذکر کیا۔ یہ کہا کہ آج وہ جہاں پہنچے ہیں، اس میں ان کے خاندان کا ہاتھ ہے۔ جل کا وہائٹ ہائوس میں ہونا تمام امریکی استادوں کے لیے بہت اہم بات ہے۔ اس لیے کہ جل زندگی بھر ایک استاد رہی ہیں اور اساتذہ میں جو خوبیاں ہونا چاہئیں وہ اس میں موجود ہیں۔
انھوں نے اپنی نائب صدر کملا ہیرس کا بھی نہایت گرم جوشی سے ذکر کیا اور کہا کہ وہ پہلی امریکی خاتون ہیں جو نائب صدر کے عہدے کے لیے منتخب ہوئیں۔ وہ پہلی سیاہ فام، جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون اور کسی تارک وطن کی بیٹی ہیں جو اس عہدے تک پہنچیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے کے باوجود انھیں ری پبلکن پارٹی، آزاد، ترقی پسند، اعتدال پسند، قدامت پرست، نوجوانوں، بوڑھوں، شہری، دیہی، ہم جنس پرست، تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں، سفید فام، لٹینو، ایشیائی، نیٹو امریکی، افریقی امریکی سب ہی حمایت حاصل تھی۔
انھوں نے اپنی تقریر میں ان لوگوں کا بہ طور خاص ذکر کیا جو سابق صدر ٹرمپ کے حامی تھے اور انھیں یقین دلایا کہ وہ بہ ذات خود کئی انتخابات ہارے ہیں اس لیے شکست کا تلخ ذائقہ چکھ چکے ہیں لیکن ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ ہمیں اپنے جذبات کے اشتعال کو کم کرنا ہے، ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں، ہم امریکی ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔
انھوں نے کورونا وائرس کے خلاف لڑنے، خوش حالی کی طرف بڑھنے، ماحولیات کے مسائل کو حل کرنے، تہذیب نفس کو بڑھاوا دینے، جمہوریت کا دفاع کرنے کی بات کی لیکن ان کا اصرار کورونا وائرس سے لڑنے پر تھا۔ انھوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ میں نے ایک ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر انتخابات لڑے لیکن اب میں ہر امریکی کا صدر ہوں۔ انھوں نے رنگ، نسل، مذہب، مسلک اور ذاتی اعتقادات سے ہٹ کر سب کو جوڑنے اور سب کے ساتھ انصاف کرنے کی بات کی۔
وہ ایشیائی جو سالہاسال پہلی امریکا گئے اور اب امریکی ہیں، انھوں نے سکون کا سانس لیا۔ ان کے دلوں میں مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر جو خوف پنجے گاڑکر بیٹھ گیا تھا، اس میں آہستہ آہستہ کمی آئے گی۔ سرحدوں پر بچے جس طرح ماؤں کی گود سے نوچ لیے گئے ان کی اذیت ان لوگوں کے دلوں میں بھی ہے جو اس اذیت سے نہیں گزرے۔ لیکن جانتے ہیں کہ گوشت کا ناخن سے جدا ہونا کیا مفہوم رکھتا ہے، انھیں بھی نئی امریکی انتظامیہ سے یہ امید ہے کہ وہ ان ماؤں اور بچوں سے انصاف کرے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ بارک اوباما کے بعد تارکین وطن، مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں اور خود امریکی پچھڑے ہوئے طبقات کے دلوں میں بہت کام رفو کا ہے۔
باخبر ذرایع کے مطابق پیرس ماحولیاتی سمجھوتہ جس سے امریکا نے چند دنوں پہلے کنارہ کشی کر لی تھی، مسٹر بائیڈن کی ہدایت پر امریکا اس میں پھر شمولیت اختیار کر لے گا۔ وہ سات ملک جس میں بیشتر مسلمان ملک ہیں اور جن کے شہریوں کی سفری سہولتوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، وہ پابندیاں ہٹا لی جائیں گی۔ بارک اوباما نے جن تارکین وطن کو امیگریشن کی سہولت دی تھی، جو دستاویزات نہیں رکھتے تھے اور وہ بچے تھے، وہی سہولیت دوبارہ بحال کر دی جائے گی۔
جو بائیڈن صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد کیا کچھ کرتے ہیں اور اپنے وعدوں کی کس حد تک پاسداری کرتے ہیں، اس کا اندازہ جنوری 2010 میں اور اس کے بعد آنے والے دنوں میں کیا جا سکے گا۔ لیکن اس سے پہلے ہم یہ کیسے نہ مانیں کہ دنیا آج ایک ایسی غیر محفوظ جگہ ہو چکی ہے جس کے خیال سے ہی کپکپی چڑھتی ہے۔
اسے پھر سے محفوظ و مامون بنانے کی خاطر امریکا کو ایک مہذب ملک کا طرز حیات اختیار کرنا ہو گا۔ ورنہ ایک دوسرے کے مخالف درجنوں ملک اپنی پناہ ایٹمی ہتھیاروں میں ڈھونڈیں گے اور شدید خوف کی یہ فضا دنیا کو بارود کا ایک ایسا ڈھیر بنا دے گی جو کسی معمولی سی بات پر بھک سے اڑ جائے گا اور دنیا کے مختلف مذاہب اور قدیم کتابوں میں قیامت کی جس انداز میں پیش گوئی کی گئی ہے وہ درست ثابت ہو گی۔
اوپر کی چند سطریں اب سے کئی برس پہلے لکھی گئی تھیں۔ ان کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور پھر ہم پر سے گزشتہ چار برس کا خوفناک دور گزرا، اب ہم نئے امریکی صدر سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ دنیا کے کمزور ملکوں اور قوموں کے خوف کو محسوس کرتے ہوئے دلوں پر مرہم رکھیں گے اور امریکا کو ایک بار پھر ایسی سرزمین بنا دیں گے جہاں کسی زمانے میں خوب صورت خوابوں کی کاشت ہوتی تھی۔
ٹرمپ نے نیا امریکا بنانے کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں یہ عظیم ملک شدید بحرانوں سے دوچار ہو گیا۔ موجودہ صدارتی انتخابات میں امریکی عوام نے پرانا امریکا دوبارہ بحال کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ بلاشبہ بارک اوباما کا پرانا امریکا ٹرمپ کے نئے امریکا سے کہیں بہتر تھا۔ امریکیوں کو پرانا امریکا مبارک ہو۔