کراچی کے ساتوں صنعتی علاقوں کی نمائندہ ایسوسی ایشنز کا اجلاس
کورونا اور محکموں کے نوٹسز سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے کیلیے ایکشن پلان مرتب
کراچی کے ساتوں صنعتی علاقوں کی نمائندہ ایسوسی ایشنز کورونا وبا کی دوسری لہر اور صنعتی شعبے کو درپیش نامساعد حالات میں وفاقی و صوبائی محکموں کے نوٹسز سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس سے نمٹنے کا ایکشن پلان ترتیب دیدیاہے۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ پیر کو کراچی کی ساتوں صنعتی علاقوں جن میں لانڈھی، بن قاسم، نارتھ کراچی، سائیٹ، سائیٹ سپر ہائی وے، فیڈرل بی ایریا اور کورنگی صنعتی علاقوں کی ایسوسی ایشنز شامل ہیں پر مشتمل کراچی انڈسٹریل فورم کا اجلاس میں منعقد ہوا ہے جس میں ایمپلائزاولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹوشن اور سندھ سوشل سیکورٹی کے جاری کردہ آڈٹ نوٹسز، موسم سرما میں گیس لوڈ مینجمنٹ اور گیس انفرااسٹرکچر سیس(جی آئی ڈی سی) واجبات کی ادائیگیوں سے متعلق اہم فیصلے کیے گئے۔
2گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اس اجلاس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صنعتوں پر جی آئی ڈی سی پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عائد کیا گیا تھا لیکن جب حکومت کی جانب سے اس منصوبے کو ختم کردیا گیاہے تو صنعتوں پر جی آئی ڈی سی کی مد میں 437 ارب روپے کے واجبات عائد نہیں کیے جاسکتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں 12نومبر کو گورنر ہاؤس میں وزیراعظم کے مشیر برائے افرادی قوت و سمندر پار پاکستانی ذلفی بخاری کے ساتھ ساتوں صنعتی علاقوں کی ایسوسی ایشنز کے ساتھ منعقد ہونے والے اجلاس اور گورنر سندھ کی سربراہی میں قائم ہونے والے سندھ انڈسٹریل لائڑن کمیٹی کے اجلاس کو نتیجہ خیز بنانے کی بھی حکمت عملی وضع کی گئی۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ پیر کو کراچی کی ساتوں صنعتی علاقوں جن میں لانڈھی، بن قاسم، نارتھ کراچی، سائیٹ، سائیٹ سپر ہائی وے، فیڈرل بی ایریا اور کورنگی صنعتی علاقوں کی ایسوسی ایشنز شامل ہیں پر مشتمل کراچی انڈسٹریل فورم کا اجلاس میں منعقد ہوا ہے جس میں ایمپلائزاولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹوشن اور سندھ سوشل سیکورٹی کے جاری کردہ آڈٹ نوٹسز، موسم سرما میں گیس لوڈ مینجمنٹ اور گیس انفرااسٹرکچر سیس(جی آئی ڈی سی) واجبات کی ادائیگیوں سے متعلق اہم فیصلے کیے گئے۔
2گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اس اجلاس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صنعتوں پر جی آئی ڈی سی پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عائد کیا گیا تھا لیکن جب حکومت کی جانب سے اس منصوبے کو ختم کردیا گیاہے تو صنعتوں پر جی آئی ڈی سی کی مد میں 437 ارب روپے کے واجبات عائد نہیں کیے جاسکتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں 12نومبر کو گورنر ہاؤس میں وزیراعظم کے مشیر برائے افرادی قوت و سمندر پار پاکستانی ذلفی بخاری کے ساتھ ساتوں صنعتی علاقوں کی ایسوسی ایشنز کے ساتھ منعقد ہونے والے اجلاس اور گورنر سندھ کی سربراہی میں قائم ہونے والے سندھ انڈسٹریل لائڑن کمیٹی کے اجلاس کو نتیجہ خیز بنانے کی بھی حکمت عملی وضع کی گئی۔