مسعود مفتی
مسعود مفتی صاحب کا ادبی سفر تقریباً چھ دہائیوں پر محیط ہے۔
بے شک اَزلی حقیقت یہی ہے کہ جو بھی اس دارِ فانی میں آئے گا اُسے اپنے مقررہ وقت پر واپس جانا ہے ایسے میں جولوگ اسّی برس کی عمر سے تجاوز کر جائیں اُن کے جانے کی خبر عام طور سے خبر بھی نہیں بن پاتی کہ ایشیاء اور افریقہ میں بہت کم لوگ ستّر برس سے زیادہ جی پاتے ہیں مگر یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ بعض زندگیاں اتنی خوبصورت بھرپور اور قیمتی ہوتی ہیں کہ اُن کی درازی عمر کے لیے ہمہ وقت دعا کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اُردو ادب کے لیے بالعموم اور میرے لیے بالخصوص مسعود مفتی ایک ایسے ہی منفرد انسان تھے ابھی چند روز قبل اسلام آباد میں ایک ٹی وی پروگرام''یہ عالم شوق کا''کے حوالے سے اُن سے آخری بالمشافہ ملاقات ہوئی تو اُن کے چہرے کی روشنی اور مسکراہٹ کی دلکشی ویسی کی ویسی تھی انھوں نے بتایا کہ کورونا سے پہلے بھی وہ گھر سے کم ہی نکلتے تھے لیکن اب تو ایک طرح کی نظر بندی کا سا سماں ہے سو زیادہ تر وقت کتابوں کی صحبت میں ہی کٹتا ہے۔
میں نے انھیں بتایا کہ میں بھی آج کل اُن کی عطا کردہ کتاب ''دو مینار'' کے حصار میں ہوں اور عنقریب اس پر کالم بھی لکھوں گا کہ ایسی بصیرت افروز، سچی اور مستقبل گیر کتابیں اُردو ادب میں ایک نعمت سے کم نہیں کہ تاریخ سے سچ بولنا اور تاریخ کے سچ کو سمجھنا اور تسلیم کرنا اب ہمارے عمومی مزاج کا حصہ ہی نہیں رہے جس خوبصورتی ، تفصیل اور دردمندی سے انھوں نے اپنی ذاتی زندگی کے مینار سے قومی زندگی کے مینار کی مختلف منازل کا جائزہ لیا ہے اُسے نئی اور بالخصوص تعلیم یافتہ نسل تک پہنچانا بے حد ضروری ہے کہ اُس تک یہ منظر نامہ یا تو پہنچا ہی نہیں یا اسے اس قدر دھندلا دیا گیا ہے کہ اب فرسٹریشن اور بے یقینی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
کوئی پندرہ دن قبل میں نے اپنے اسی کالم ''چشمِ تماشا'' میں اس کتاب پر دو کالم لکھے ہیں اور دونوں کی رسید پر مشتمل فون کالز ہی اُن سے ہونے والا آخری رابطہ ٹھہریں اُن کو جاننے والے اس بات سے بخوبی با خبر ہیں کہ سقوطِ ڈھاکہ کے دنوںمیں بطور سول سرونٹ وہاں تعیناتی اور پھر دو سالہ جنگی قید کے بعد سے اُن کے مزاج میں ایک ایسی تلخی آمیز کم گفتاری نے گھر بنا لیا تھا جو اُس خوش گفتار اور اُمید پرست مسعود مفتی سے بے حد مختلف تھی جس کے ساتھ انھوں نے اپنی عمر کے اولّین چالیس برس گزارے تھے۔
وہ 1958 میں پاکستان سول سروس میں شامل ہوئے یہ وہ زمانہ تھا جب مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے بہت کم نوجوان اس منزل تک پہنچ پاتے تھے کہ انگریز نے اپنے زمانے کے آئی سی ایس افسران کے لیے بوجوہ بہت ہی خاص طرح کے معیارات وضع کر رکھے تھے، اپنی آخری مطبوعہ کتاب ''دومینار'' میں انھوں نے پہلے مارشل لاء یعنی جنرل ایوب خان کے برسرِاقتدار آنے سے قبل پاکستان کی سول بیوروکریسی کے افسران کی محنت ، دیانت ، قابلیت اور تعمیرِ وطن میں حصہ داری کا جو خوب صورت نقشہ کھینچا ہے اُس کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔
اسی طرح اُس زمانے کے سیاستدانوں کی جو سراسر منفی تصویر ہمیں دکھائی گئی ہے اُس کا صحیح اور نسبتاً بہت بہتر چہرہ بعد میں آنے والی نسلوں کو دکھایا ہی نہیں گیا اور اُن کے خلاف ایسا مسلسل پراپیگنڈہ کیا گیا کہ اب صرف اُن کی برائیاں لوگوں کو یاد رہ گئی ہیں۔ مسعود مفتی مرحوم نے تصویر کے اس دوسرے رُخ کو جس ایمانداری ، تفصیل اور سلیقے سے قلم بند کیا ہے اُس کی داد نہ دینا بہت زیادتی کی بات ہوگی کہ عام طور پر کوئی بھی شخص ہارنے والوں کی طرف داری (اوروہ بھی بِلاکسی ذاتی مقصد کے) کا حوصلہ نہیں کرتا۔
سقوط ڈھاکہ ہماری قومی تاریخ کا ایک تاریک باب تو ہے ہی لیکن اس کی بہت سی وجوہات، اُس دور کی صورتِ حال اور اس کو پیدا کرنے والے عوامل کی طرف بہت کم سنجیدگی اور ذمے داری سے توجہ دی گئی ہے، میری ذاتی رائے میں اس ضمن میں مسعود مفتی صاحب کا کام اور اُن کی تحریریں بے حد توجہ اور قدرو منزلت کی حق دار ہیں کہ وہ صرف تاریخ کے شاہد ہی نہیں ایک بے مثال قلم کار بھی تھے۔
اس حوالے سے اُن کی کتاب ''چہرے اور مہرے'' کے پیش لفظ کی یہ تحریر بہت اہم ہے کہ ''اس سانحے کے پچیس برس بعد 16 دسمبر 996 کو میرا ایک مضمون روزنامہ ''ڈان'' میںشائع ہواجس میں ربع صدی کے غوروفکر کے بعد صحافتی انداز میں اُن تمام سوالات کے منطقی جوابات دینے کی کوشش کی گئی تھی جو مشرقی پاکستان پر میری چار عدد ادبی کتابوں میں سے جھانک رہے تھے اُس وقت تو اس کی اہمیت ایک عینی شاہد کے تجزیئے سے زیادہ کچھ نہ تھی پھر بھی معنوی اعتبار سے یہ اتنا ہی اہم تھا جتنے میری ادبی تحریروں میں کلبلانے والے سوالات تھے۔
اسی موضوع پر میں نے اخبارات میں مزید مضامین بھی لکھے تو میری ادبی اور صحافتی تحریریں ایک ہی سکّے کے دو رُخ بن گئیں، سکے کے ایک طرف ادبی زبان میں سوالات تھے اور دوسری طرف صحافتی زبان میں جوابات تھے مگر رودادِ الم پھر بھی مکمل نہ ہوپائی کیونکہ سوالات تو اُن چیخوں کی گونج تھے جو مشرقی پاکستان کی حالتِ نزع میں حقیقی کرداروں کے منہ سے نکلیں مگر جوابات صرف معروضی قیاس آرائیوں پر مشتمل تھے کیونکہ اصل حقائق کو تب تک قوم سے چھپایا جارہا تھا ''
مسعود مفتی صاحب کا ادبی سفر تقریباً چھ دہائیوں پر محیط ہے لیکن جس شدّت اور کثرت سے انھوں نے قومی تاریخ اور اس کے مختلف ادوار اور مسائل پر لکھا ہے اُس کے حوالے سے وہ ایک فکشن نگار کے بجائے تاریخ دان کے طور پر زیادہ اُبھرے ہیں ''چہرے اور مہرے'' میں جگہ جگہ مفتی صاحب نے برموقع اشعار سے بھی کام لیا ہے جو اُن کے اعلیٰ شعری ذوق کا بھی ترجمان ہے سو آخر میں چند اشعار کے ساتھ اس بے مثال اورقیمتی انسان کے لیے ایک بار پھر دعائے خیر۔
الم نصیبوں ، جگر فگاروں کی صبح افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں سحر کا روشن اُفق یہیں ہے
ہم سیہ بخت ہیں پھر بھی تو یہ کرتے ہیں کمال
خود اندھیرے میں ہیں اوروں کو دکھاتے ہیں چراغ
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
اُردو ادب کے لیے بالعموم اور میرے لیے بالخصوص مسعود مفتی ایک ایسے ہی منفرد انسان تھے ابھی چند روز قبل اسلام آباد میں ایک ٹی وی پروگرام''یہ عالم شوق کا''کے حوالے سے اُن سے آخری بالمشافہ ملاقات ہوئی تو اُن کے چہرے کی روشنی اور مسکراہٹ کی دلکشی ویسی کی ویسی تھی انھوں نے بتایا کہ کورونا سے پہلے بھی وہ گھر سے کم ہی نکلتے تھے لیکن اب تو ایک طرح کی نظر بندی کا سا سماں ہے سو زیادہ تر وقت کتابوں کی صحبت میں ہی کٹتا ہے۔
میں نے انھیں بتایا کہ میں بھی آج کل اُن کی عطا کردہ کتاب ''دو مینار'' کے حصار میں ہوں اور عنقریب اس پر کالم بھی لکھوں گا کہ ایسی بصیرت افروز، سچی اور مستقبل گیر کتابیں اُردو ادب میں ایک نعمت سے کم نہیں کہ تاریخ سے سچ بولنا اور تاریخ کے سچ کو سمجھنا اور تسلیم کرنا اب ہمارے عمومی مزاج کا حصہ ہی نہیں رہے جس خوبصورتی ، تفصیل اور دردمندی سے انھوں نے اپنی ذاتی زندگی کے مینار سے قومی زندگی کے مینار کی مختلف منازل کا جائزہ لیا ہے اُسے نئی اور بالخصوص تعلیم یافتہ نسل تک پہنچانا بے حد ضروری ہے کہ اُس تک یہ منظر نامہ یا تو پہنچا ہی نہیں یا اسے اس قدر دھندلا دیا گیا ہے کہ اب فرسٹریشن اور بے یقینی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
کوئی پندرہ دن قبل میں نے اپنے اسی کالم ''چشمِ تماشا'' میں اس کتاب پر دو کالم لکھے ہیں اور دونوں کی رسید پر مشتمل فون کالز ہی اُن سے ہونے والا آخری رابطہ ٹھہریں اُن کو جاننے والے اس بات سے بخوبی با خبر ہیں کہ سقوطِ ڈھاکہ کے دنوںمیں بطور سول سرونٹ وہاں تعیناتی اور پھر دو سالہ جنگی قید کے بعد سے اُن کے مزاج میں ایک ایسی تلخی آمیز کم گفتاری نے گھر بنا لیا تھا جو اُس خوش گفتار اور اُمید پرست مسعود مفتی سے بے حد مختلف تھی جس کے ساتھ انھوں نے اپنی عمر کے اولّین چالیس برس گزارے تھے۔
وہ 1958 میں پاکستان سول سروس میں شامل ہوئے یہ وہ زمانہ تھا جب مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے بہت کم نوجوان اس منزل تک پہنچ پاتے تھے کہ انگریز نے اپنے زمانے کے آئی سی ایس افسران کے لیے بوجوہ بہت ہی خاص طرح کے معیارات وضع کر رکھے تھے، اپنی آخری مطبوعہ کتاب ''دومینار'' میں انھوں نے پہلے مارشل لاء یعنی جنرل ایوب خان کے برسرِاقتدار آنے سے قبل پاکستان کی سول بیوروکریسی کے افسران کی محنت ، دیانت ، قابلیت اور تعمیرِ وطن میں حصہ داری کا جو خوب صورت نقشہ کھینچا ہے اُس کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔
اسی طرح اُس زمانے کے سیاستدانوں کی جو سراسر منفی تصویر ہمیں دکھائی گئی ہے اُس کا صحیح اور نسبتاً بہت بہتر چہرہ بعد میں آنے والی نسلوں کو دکھایا ہی نہیں گیا اور اُن کے خلاف ایسا مسلسل پراپیگنڈہ کیا گیا کہ اب صرف اُن کی برائیاں لوگوں کو یاد رہ گئی ہیں۔ مسعود مفتی مرحوم نے تصویر کے اس دوسرے رُخ کو جس ایمانداری ، تفصیل اور سلیقے سے قلم بند کیا ہے اُس کی داد نہ دینا بہت زیادتی کی بات ہوگی کہ عام طور پر کوئی بھی شخص ہارنے والوں کی طرف داری (اوروہ بھی بِلاکسی ذاتی مقصد کے) کا حوصلہ نہیں کرتا۔
سقوط ڈھاکہ ہماری قومی تاریخ کا ایک تاریک باب تو ہے ہی لیکن اس کی بہت سی وجوہات، اُس دور کی صورتِ حال اور اس کو پیدا کرنے والے عوامل کی طرف بہت کم سنجیدگی اور ذمے داری سے توجہ دی گئی ہے، میری ذاتی رائے میں اس ضمن میں مسعود مفتی صاحب کا کام اور اُن کی تحریریں بے حد توجہ اور قدرو منزلت کی حق دار ہیں کہ وہ صرف تاریخ کے شاہد ہی نہیں ایک بے مثال قلم کار بھی تھے۔
اس حوالے سے اُن کی کتاب ''چہرے اور مہرے'' کے پیش لفظ کی یہ تحریر بہت اہم ہے کہ ''اس سانحے کے پچیس برس بعد 16 دسمبر 996 کو میرا ایک مضمون روزنامہ ''ڈان'' میںشائع ہواجس میں ربع صدی کے غوروفکر کے بعد صحافتی انداز میں اُن تمام سوالات کے منطقی جوابات دینے کی کوشش کی گئی تھی جو مشرقی پاکستان پر میری چار عدد ادبی کتابوں میں سے جھانک رہے تھے اُس وقت تو اس کی اہمیت ایک عینی شاہد کے تجزیئے سے زیادہ کچھ نہ تھی پھر بھی معنوی اعتبار سے یہ اتنا ہی اہم تھا جتنے میری ادبی تحریروں میں کلبلانے والے سوالات تھے۔
اسی موضوع پر میں نے اخبارات میں مزید مضامین بھی لکھے تو میری ادبی اور صحافتی تحریریں ایک ہی سکّے کے دو رُخ بن گئیں، سکے کے ایک طرف ادبی زبان میں سوالات تھے اور دوسری طرف صحافتی زبان میں جوابات تھے مگر رودادِ الم پھر بھی مکمل نہ ہوپائی کیونکہ سوالات تو اُن چیخوں کی گونج تھے جو مشرقی پاکستان کی حالتِ نزع میں حقیقی کرداروں کے منہ سے نکلیں مگر جوابات صرف معروضی قیاس آرائیوں پر مشتمل تھے کیونکہ اصل حقائق کو تب تک قوم سے چھپایا جارہا تھا ''
مسعود مفتی صاحب کا ادبی سفر تقریباً چھ دہائیوں پر محیط ہے لیکن جس شدّت اور کثرت سے انھوں نے قومی تاریخ اور اس کے مختلف ادوار اور مسائل پر لکھا ہے اُس کے حوالے سے وہ ایک فکشن نگار کے بجائے تاریخ دان کے طور پر زیادہ اُبھرے ہیں ''چہرے اور مہرے'' میں جگہ جگہ مفتی صاحب نے برموقع اشعار سے بھی کام لیا ہے جو اُن کے اعلیٰ شعری ذوق کا بھی ترجمان ہے سو آخر میں چند اشعار کے ساتھ اس بے مثال اورقیمتی انسان کے لیے ایک بار پھر دعائے خیر۔
الم نصیبوں ، جگر فگاروں کی صبح افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں سحر کا روشن اُفق یہیں ہے
ہم سیہ بخت ہیں پھر بھی تو یہ کرتے ہیں کمال
خود اندھیرے میں ہیں اوروں کو دکھاتے ہیں چراغ
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے