اسلامی تہذیب ہی مغرب کے لیے جائے پناہ ہوگی
ہمیں مغرب کو ناپاک جسارتوں کا جواب اینٹ کے مقابلے میں پتھر سے دینے کی ضرورت نہیں اور نہ ہم دے سکتے ہیں۔
ماہِ ربیع الاول کا آخری عشرہ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، رواں ماہ کے پہلے کالم میں بعثت محمد مصطفیﷺ پر گفتگو ہوئی تھی، ہر مسلمان کے لیے یہ ماہِ مبارک اس لیے انتہائی محترم ہے کہ اس میں امام الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ تشریف لائے۔
اردو ادب کی تاریخ میں ممتاز نام رکھنے والے ممتاز مفتی لکھتے ہیں ''میں نے زندگی میں ایک نام دیکھا ہے، جو ہر لحاظ سے مکمل، جامع اور پرفیکٹ، صوتی، معنوی اور نفسیاتی ہرلحاظ سے اعلیٰ و ارفعٰ ہے۔ اس میں سُر ہے، لے ہے، نغمگی ہے، معنوی اعتبار سے مثبت اثرات سے بھرپور ہے، ماڈرن ناموں کی طرح مختصر ہے، جامع ہے، پیارا ہے۔
مفہوم کے اعتبار سے قابل احترام ہے، قابل ستائش ہے اور وہ نام ہے محمدﷺ... سبحان اﷲ، سبحان اﷲ۔ یہی وہ نامِ نامی اسمِ گرامی ہے جو ہر مسلمان کے دل میں بستا ہے، مسلمان دنیا کے چاہے کسی بھی کونے میں آباد ہو اس کے دل سے یہی صدا آتی ہے۔
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا، ایماں ہو نہیں سکتا
آج ماہ ربیع مسلمان دکھی دل کے ساتھ منا رہے ہیں، ان کے دل زخمی ہیں۔ مغرب اور اہل مغرب کی جانب سے حضور اکرمﷺ کی شان اقدس میں ناپاک جسارتوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، فرانس میں ایک بار پھر توہین آمیز خاکوں کے مقابلے کا اعلان کیا گیالیکن اس بار جب فرانسیسی صدر سے یہ کہا گیا کہ وہ ان ناپاک جسارتوں کی مذمت ہی کردیں تو اس نے مذمت کرنے سے بھی انکار کرکے اپنا مکروہ چہرہ دنیا کو دکھا دیا۔
ہر وہ ذہن جو کم سوچنے کا عادی ہے، وہ بھی یہ ضرور سوچتا ہوگا کہ اسلامی افکار و نظریات اور اسلام کی مقدس شخصیات کے حوالے سے مغرب اور اس کے باسی قعر مذلت میں پڑے ہوئے ہیں، اسلامو فوبیا کے شکار اس '' گروہِ ابلیس'' کے سرغنہ ہوں کی فہرست تو لمبی ہے ہی، لیکن جو نام ڈونلڈٹرمپ نے کمایا اس کا کوئی ثانی نہیں، ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں جس طرح کھل کر اسلام اور مسلمان دشمنی کا مظاہرہ کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے شکار ان گروہوں کے گروگھنٹال تھے۔
آج ان کے اقتدار کا سورج پوری ذلت و رسوائی کے ساتھ غروب ہوگیا اور الحمدللہ اسلام اور مسلمان آج بھی موجود ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے اور جوبائیڈن کے آنے سے دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کی لہر کی شدت میں کمی آئے گی لیکن ہماری نظر میں یہ خام خیالی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تمام عالم کفر متحد ہے، سب کا ایجنڈا ایک ہے، بس ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم مسلمان متحد نہیں حالانکہ ہمیں تو قرآن نے امت واحدہ قرار دیا ہے۔ دو ارب کے لگ بھگ مسلمان بکھرے ہوئے ہیں، اغیار کے رحم وکرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
مسلم امہ کا یہ انتشار بھی مغرب کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے، مغرب اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے سے روکا جائے، ان پر مفادپرست اور مغرب سے متاثرہ حکمران طبقہ حاوی رہے، جو مسلمانوں کو امت واحدہ کے تصور سے بیگانہ رکھے۔ جو لوگ مکرو فریب کے اس آہنی شکنجے کو توڑنے کی کوشش کریں، ان پر انتہا پسندی، دہشت گردی اور دقیانوسی جیسے لیبل لگا دیے جائیں۔
مغربی استعمار اپنی سازشوں سے ہماری راہ طویل اور پرخطر کرنے میں وقتی طور پر کامیاب ہے لیکن منزل مراد تو اس کی دست برد سے محفوظ ہے اور ان شاء اﷲ محفوظ رہے گی۔ اسلام اور اسلامی تہذیب خود مغرب کے لیے بھی جائے پناہ بن کر رہے گی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مغرب کی جانب سے ناپاک جسارتوں کے جواب میں ہر اسلامی ملک کم از کم فرانس کا سوشل بائیکاٹ کردیتا اوریہ فیصلہ امت مسلمہ کے متفقہ پلیٹ فارم او آئی سی سے کیا جاتا اور تمام اسلامی ممالک فرانسیسی سفیروں کو اپنے اپنے ممالک سے نکالتے اور اپنے سفیروں کو واپس بلاتے لیکن اوآئی سی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مردہ گھوڑا ثابت ہوا ، کسی اسلامی ملک نے بھی فرانس کو منہ توڑ جواب نہیں دیا، نام نہاد ریاست مدینہ کے حاکموں سمیت تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا احتجاج زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں، البتہ عوامی سطح پر دنیا بھر کے مسلمان بے چین ہیں۔
شدید اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہیں، اب ان کے پاس ناپاک جسارتوں کے اس سلسلے کے آگے بند باندھنے کے دوہی راستے موجود ہیں، تعلیم یافتہ مسلمان نوجوان ریسرچ کرکے فرانسیسی مصنوعات کی ایک مستند فہرست تیار کریں اور اسے سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں وائرل کردیا جائے، اس فہرست میں دی گئی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے ہر مسلمان اس بات کا قولی اور عملی اقرار کرے کہ مجھے رسول اکرمﷺ سے محبت ہے، اس لیے میں فرانس سے آنے والی مصنوعات کا بائیکاٹ کررہا ہوں۔ دو میں سے ایک ارب مسلمان بھی اس مہم کا حصہ بن گئے تو فرانس گھٹنوں پر آجائے گااورآئندہ کسی ملک کو ایسی ناپاک جسارت کی جرات نہیں ہوگی۔ دوسرا راستہ ہمیں اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا۔
ہمیں اہل مغرب کو بتانا ہوگا کہ جس نبی رحمتﷺ کی تم توہین کرتے ہو، وہ تو قیامت تک کے انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے ہیں، آئیے ریاست مدینہ کی ایک جھلکی سے دل کو منور کرتے ہیں۔ یہودی کا بیٹاہے، اس کی موت کا وقت ہے، نزع کی کیفیت ہے، حضور اکرمﷺ کو اطلاع ملی آپ ﷺ اس کے پاس پہنچے، اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھ کر تورات کے ورقے پڑھ رہا تھا، حضور اکرمﷺ اس کے قریب جاکر بیٹھ جاتے ہیں، اس کی عیادت کرتے ہیں اور اس کے والد کو متوجہ کرتے ہیں کہ جو کتاب تم پڑھ رہے ہو۔
اس میں کیا میرا تذکرہ ہے؟ یہودی نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ نہیں۔ جب اس نے یہ جملہ کہا تو وہ بچہ جو زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھا، جس پر سکرات کی کیفیت طاری تھی، موت کے جھٹکے اسے لگ رہے تھے، اس بچے نے بے ہوشی کے عالم میں آنکھ کھولی اور کہا، میرا ابا جھوٹ بول رہا ہے، آپﷺ کا تذکرہ ہر صفحہ پر موجود ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا بیٹے! پہچانتے ہو، مانتے نہیں، پڑھ اشہد ان لا الہ الااللہ واشہد ان محمد عبدہ ورسولہ... بچے نے کلمہ پڑھا اور اس کی روح پرواز کرگئی۔
محدثین نے کتابوں میں لکھا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا، اب یہ میرا امتی ہے، اسے غسل دو اور میری چادر میں کفن دو۔ صحابہ کرامؓ کہتے ہیں جس وقت اس کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو حضورﷺ خود نیچے اترے، اپنے ہاتھوں سے اسے قبر میں اتارا۔ صحابہ کرامؓ رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کاش اس کی جگہ ہم ہوتے، یہ نبیﷺ کے ہاتھوں قبر میں نہیں جارہا بلکہ نبیﷺ کے ہاتھوں جنت میں جارہا ہے۔ اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر۔
اسی لیے قرآن کریم نے آپﷺ کی صفت بیان فرمائی اور کہا ''اور ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔''
قیامت تک آنے والے کسی انسان کی تکلیف نبیﷺ کو برداشت نہیں۔ یہ میرے نبیﷺ کی کمال رحمت ہے۔ یہ پاک پیغمبرﷺ قیامت تک آنے والے انسانوں کو خیر پہنچانے میں سب سے آگے ہیں،اﷲ کے نبیﷺ نے ہر بھلائی دوسروں تک پہنچائی۔ اب ہر مسلمان کافرض ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں تک نبی رحمت ﷺ کا پیغام پہنچایا جائے تاکہ ان کی غلط فہمیاں دور ہوں اور وہ جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔ ۔
ہمیں مغرب کو ناپاک جسارتوں کا جواب اینٹ کے مقابلے میں پتھر سے دینے کی ضرورت نہیں اور نہ ہم دے سکتے ہیں کیونکہ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسٰی ابن مریم ؑتک تمام انبیاء و رسول ہمارے لیے محترم ہیں، ان سب پر ایمان لانا ایک مسلمان کے لیے لازم ہے، ہمیں مغرب اور اہل مغرب کے سامنے اپنے پیارے پیغمبر کی سیرت و کردار رکھنا ہے تاکہ ان کی غلط فہمیاں دور ہوسکیں اور وہ بھی حق کی روشنی کی طرف آجائیں۔ اہل مغرب بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ ان کی تہذیب تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں، اس لیے اسلامی تہذیب ہی مغرب کے لیے بھی جائے پناہ ثابت ہوگی۔ ان شاء اﷲ