جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی
سب سے بری حالت پنجاب کی ہے جہاں گنجائش سے گیارہ ہزار سے زائد قیدی ہیں۔
وفاقی محتسب نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں یہ اقرار کیا گیا ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں۔ ویسے تو یہ کوئی خبر نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق صرف بلوچستان کی جیلوں میں گنجائش سے کم قیدی قید ہیں۔ باقی تین صوبوں میں جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں۔ سب سے بری حالت پنجاب کی ہے جہاں گنجائش سے گیارہ ہزار سے زائد قیدی ہیں۔ اسی قسم کی حالت سندھ کی بھی ہے۔ البتہ کے پی میں حالات کم خراب ہیں۔
جناب چیف جسٹس کی جانب سے وفاقی محتسب سے یہ رپورٹ منگوانا ایک خوش آیند اقدام ہے۔ کم از کم چیزیں ریکارڈ پر تو آئی ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جناب چیف جسٹس پاکستان کو اس رپورٹ کے بعد مزید ایکشن لینے چاہیے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے وفاقی محتسب کی یہ رپورٹ چاروں صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہیں۔
وفاقی محتسب نے پیرول اور پروبیشن کے قوانین میں تبدیلی کی سفارش کی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سفارشات کافی نہیں ہیں۔ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی نظام انصاف کی کارکردگی پر بھی ایک سوال ہے۔ جناب چیف جسٹس کو اس معاملے کو نظام انصاف کی کارکردگی کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ یہ کوئی انتظامی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ انصاف کے نظام کے درست کام نہ کرنے کا معاملہ ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ملزم کی ضمانت کے حوالے سے قواعد میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اس ضمن میں قانون سازی کی ضرورت بھی نہیں ہے بلکہ یہ کام عدلیہ نے خود کرنا ہے۔ اس وقت عدلیہ پر ضمانت قبل از گرفتاری اور ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستوں کا بہت بوجھ ہے۔ یہی بوجھ جیلوں پر بھی ہے۔ جونہی کوئی ایف آئی آر درج ہوتی ہے، ساتھ ہی ملزمان کی گرفتاری شروع ہو جاتی ہے۔ نظام انصاف کے تحت پولیس کی جانب سے بلاوجہ وثبوت ملزمان کی گرفتاری کی حو صلہ شکنی ہونی چاہیے۔
جب پولیس کسی ملزم کو گرفتار کرے تو نظام انصاف کو سب سے پہلے تفتیشی افسر سے پوچھنا چاہیے کہ اس کے پاس ملزم کی گرفتاری کا کیا جواز ہے؟ یہ توکوئی جواز نہیں کہ تفتیش کرنے کے لیے ملزم کوگرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کو اس اختیار اور سوچ سے باہر لانا ہو گا کہ تفتیش کے لیے گرفتاری لازمی ہے۔ اب تو تفتیش کا طریقہ کار مکمل تبدیل ہو گیا ہے۔ اس میں گرفتاری اور ریمانڈ فضول بن چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نوے فیصد مقدمات میں نہ تو پولیس کو ملزم کے ریمانڈ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ملزم کی گرفتاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
تفتیش اور تمام قانونی تقاضے اس کے بغیر بھی پورے ہو سکتے ہیں۔ ضمانت کے نوے فیصد مقدمات عدلیہ پر بوجھ ہیں۔ ان سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔ اس سے جیلوں پر بھی بوجھ کم ہو گا۔ جب ملزم تفتیش میں پیش ہونے کو تیار ہو تو اس کی گرفتاری کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی تفتیش میں تعاون اور ضمانت جیوڈیشل معاملے کے بجائے انتظامی معاملہ ہونا چاہیے۔ اگر عدلیہ پولیس کی جانب سے بلاوجہ گرفتاریوں کی حوصلہ شکنی شروع کر دے گی تو نہ صرف نظام انصاف کی کارکردگی بہتر ہو جائے گی بلکہ بے گناہ لوگوں کی گرفتاریاں بھی بند ہو جائیں گی ۔ جب کسی شخص کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہ ہوں تب تک کسی بھی تفتیشی افسر کو اسے گرفتار کرنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے۔
تفتیشی پولیس افسر کو ڈر ہونا چاہیے کہ عدلیہ مجھ سے پوچھے گی کہ میں نے ملزم کوکیوں گرفتار کیا ہے۔ میرے پاس کیا ثبوت ہیں۔ لیکن ابھی ایسا نہیں ہے۔ عدلیہ تفتیشی سے ثبوت مانگنے کے بجائے ملزم سے ہی اس کی بے گناہی کے ثبوت مانگنے لگ جاتی ہے۔ ملزم سے تو دوران ٹرائل بھی اس کی بے گناہی کا ثبوت نہیں مانگا جاتا۔ پھر ضمانت کی سماعت کے دوران کیوں مانگا جاتا ہے۔ جب ٹرائل میں بھی مدعی نے ثبوت دینے ہیں تو ضمانت کے موقع پر ملزم سے مانگنے کا کیا جواز ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ملزمان کو جیوڈیشل کرنے کا سلسلہ بھی فوری ختم ہونا چاہیے۔ ملزمان کو جیوڈیشل کرنا بھی جیلوں پر بوجھ ہے۔ تفتیش مکمل ہو گئی ہے۔ اس کے بعد جب تک ٹرائل مکمل نہ ہو جائے ضمانت ملزم کا حق ہونا چاہیے۔ جیل کے اندر رکھ کر ٹرائل کرنا انصاف کے بنیادی نظریہ کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح تو آپ نے ملزم کو مجرم قرار دینے سے پہلے ہی سزا دینی شروع کر دی ہے۔ جب تک کوئی مجرم قرار نہ دے دیا جائے تب تک اس کو ایک دن بھی جیل میں رکھنا ناانصافی ہے۔ ماتحت عدلیہ میں تو ٹرائل کا نظام بہت ناقص ہے۔ ٹرائل کئی کئی سال چلتا ہے۔
ملزم اور مدعی دونوں عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں۔جب ماتحت عدالت ملزم کو چودہ دن کے لیے جیوڈیشل کرتی ہے تو اس کا نہ تو نظام انصاف کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی معاشرے کو ۔ جیوڈیشل کرنا جیلوں کی آبادی بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔ تفتیش مکمل ہے، ٹرائل میں تاخیر ہے اور ملزم کو جیل میں بے وجہ رکھنے کے لیے جیوڈیشل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ عدلیہ کو خود ہی اس سلسلہ کو ختم کرنا ہے۔ جیسے تفتیش مکمل ہو جائے ضمانت دے دی جائے ۔ جیل بھیجنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان میں ضمانت کے مقدمات سپریم کورٹ تک چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی نظام کا ایک نقص ہے۔ ضمانت ملزم کا حق سمجھنا چاہیے۔ جب تک کوئی ملزم سے مجرم نہ بن جائے اسے جیل میں رکھنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ ملزم بھاگ نہ جائے، ٹرائل میں شامل رہے، شریف شہری بن کر رہے اس کے لیے جیل میں رکھنے کے بجائے ایسے ضمانت نامے بنانے چاہیے کہ کوئی فرار کا سوچے ہی نہیں۔ ضمانت نامہ کے قواعد کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں فرسودہ قواعد ہی چل رہے ہیں۔
پچاس پچاس ہزار روپے کے مچلکوں پر ضمانت لی جاتی ہے۔ اس ضمن میں سائنسی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ دنیا نے اس ضمن میں بہت جدت پیدا کی ہے۔ ہمیں دنیا سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق صرف بلوچستان کی جیلوں میں گنجائش سے کم قیدی قید ہیں۔ باقی تین صوبوں میں جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں۔ سب سے بری حالت پنجاب کی ہے جہاں گنجائش سے گیارہ ہزار سے زائد قیدی ہیں۔ اسی قسم کی حالت سندھ کی بھی ہے۔ البتہ کے پی میں حالات کم خراب ہیں۔
جناب چیف جسٹس کی جانب سے وفاقی محتسب سے یہ رپورٹ منگوانا ایک خوش آیند اقدام ہے۔ کم از کم چیزیں ریکارڈ پر تو آئی ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جناب چیف جسٹس پاکستان کو اس رپورٹ کے بعد مزید ایکشن لینے چاہیے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے وفاقی محتسب کی یہ رپورٹ چاروں صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہیں۔
وفاقی محتسب نے پیرول اور پروبیشن کے قوانین میں تبدیلی کی سفارش کی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سفارشات کافی نہیں ہیں۔ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی نظام انصاف کی کارکردگی پر بھی ایک سوال ہے۔ جناب چیف جسٹس کو اس معاملے کو نظام انصاف کی کارکردگی کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ یہ کوئی انتظامی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ انصاف کے نظام کے درست کام نہ کرنے کا معاملہ ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ملزم کی ضمانت کے حوالے سے قواعد میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اس ضمن میں قانون سازی کی ضرورت بھی نہیں ہے بلکہ یہ کام عدلیہ نے خود کرنا ہے۔ اس وقت عدلیہ پر ضمانت قبل از گرفتاری اور ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستوں کا بہت بوجھ ہے۔ یہی بوجھ جیلوں پر بھی ہے۔ جونہی کوئی ایف آئی آر درج ہوتی ہے، ساتھ ہی ملزمان کی گرفتاری شروع ہو جاتی ہے۔ نظام انصاف کے تحت پولیس کی جانب سے بلاوجہ وثبوت ملزمان کی گرفتاری کی حو صلہ شکنی ہونی چاہیے۔
جب پولیس کسی ملزم کو گرفتار کرے تو نظام انصاف کو سب سے پہلے تفتیشی افسر سے پوچھنا چاہیے کہ اس کے پاس ملزم کی گرفتاری کا کیا جواز ہے؟ یہ توکوئی جواز نہیں کہ تفتیش کرنے کے لیے ملزم کوگرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کو اس اختیار اور سوچ سے باہر لانا ہو گا کہ تفتیش کے لیے گرفتاری لازمی ہے۔ اب تو تفتیش کا طریقہ کار مکمل تبدیل ہو گیا ہے۔ اس میں گرفتاری اور ریمانڈ فضول بن چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نوے فیصد مقدمات میں نہ تو پولیس کو ملزم کے ریمانڈ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ملزم کی گرفتاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
تفتیش اور تمام قانونی تقاضے اس کے بغیر بھی پورے ہو سکتے ہیں۔ ضمانت کے نوے فیصد مقدمات عدلیہ پر بوجھ ہیں۔ ان سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔ اس سے جیلوں پر بھی بوجھ کم ہو گا۔ جب ملزم تفتیش میں پیش ہونے کو تیار ہو تو اس کی گرفتاری کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی تفتیش میں تعاون اور ضمانت جیوڈیشل معاملے کے بجائے انتظامی معاملہ ہونا چاہیے۔ اگر عدلیہ پولیس کی جانب سے بلاوجہ گرفتاریوں کی حوصلہ شکنی شروع کر دے گی تو نہ صرف نظام انصاف کی کارکردگی بہتر ہو جائے گی بلکہ بے گناہ لوگوں کی گرفتاریاں بھی بند ہو جائیں گی ۔ جب کسی شخص کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہ ہوں تب تک کسی بھی تفتیشی افسر کو اسے گرفتار کرنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے۔
تفتیشی پولیس افسر کو ڈر ہونا چاہیے کہ عدلیہ مجھ سے پوچھے گی کہ میں نے ملزم کوکیوں گرفتار کیا ہے۔ میرے پاس کیا ثبوت ہیں۔ لیکن ابھی ایسا نہیں ہے۔ عدلیہ تفتیشی سے ثبوت مانگنے کے بجائے ملزم سے ہی اس کی بے گناہی کے ثبوت مانگنے لگ جاتی ہے۔ ملزم سے تو دوران ٹرائل بھی اس کی بے گناہی کا ثبوت نہیں مانگا جاتا۔ پھر ضمانت کی سماعت کے دوران کیوں مانگا جاتا ہے۔ جب ٹرائل میں بھی مدعی نے ثبوت دینے ہیں تو ضمانت کے موقع پر ملزم سے مانگنے کا کیا جواز ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ملزمان کو جیوڈیشل کرنے کا سلسلہ بھی فوری ختم ہونا چاہیے۔ ملزمان کو جیوڈیشل کرنا بھی جیلوں پر بوجھ ہے۔ تفتیش مکمل ہو گئی ہے۔ اس کے بعد جب تک ٹرائل مکمل نہ ہو جائے ضمانت ملزم کا حق ہونا چاہیے۔ جیل کے اندر رکھ کر ٹرائل کرنا انصاف کے بنیادی نظریہ کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح تو آپ نے ملزم کو مجرم قرار دینے سے پہلے ہی سزا دینی شروع کر دی ہے۔ جب تک کوئی مجرم قرار نہ دے دیا جائے تب تک اس کو ایک دن بھی جیل میں رکھنا ناانصافی ہے۔ ماتحت عدلیہ میں تو ٹرائل کا نظام بہت ناقص ہے۔ ٹرائل کئی کئی سال چلتا ہے۔
ملزم اور مدعی دونوں عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں۔جب ماتحت عدالت ملزم کو چودہ دن کے لیے جیوڈیشل کرتی ہے تو اس کا نہ تو نظام انصاف کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی معاشرے کو ۔ جیوڈیشل کرنا جیلوں کی آبادی بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔ تفتیش مکمل ہے، ٹرائل میں تاخیر ہے اور ملزم کو جیل میں بے وجہ رکھنے کے لیے جیوڈیشل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ عدلیہ کو خود ہی اس سلسلہ کو ختم کرنا ہے۔ جیسے تفتیش مکمل ہو جائے ضمانت دے دی جائے ۔ جیل بھیجنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان میں ضمانت کے مقدمات سپریم کورٹ تک چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی نظام کا ایک نقص ہے۔ ضمانت ملزم کا حق سمجھنا چاہیے۔ جب تک کوئی ملزم سے مجرم نہ بن جائے اسے جیل میں رکھنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ ملزم بھاگ نہ جائے، ٹرائل میں شامل رہے، شریف شہری بن کر رہے اس کے لیے جیل میں رکھنے کے بجائے ایسے ضمانت نامے بنانے چاہیے کہ کوئی فرار کا سوچے ہی نہیں۔ ضمانت نامہ کے قواعد کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں فرسودہ قواعد ہی چل رہے ہیں۔
پچاس پچاس ہزار روپے کے مچلکوں پر ضمانت لی جاتی ہے۔ اس ضمن میں سائنسی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ دنیا نے اس ضمن میں بہت جدت پیدا کی ہے۔ ہمیں دنیا سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔