مشرف نے درخواست میں آئین کی حیثیت کو متنازع بنادیا

آئین قانون شکنوں کا شکار ہے،توڑنے پر غداری کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا، موقف

سابق صدرکے وکلا آج خصوصی عدالت میں دلائل تعصب پر مرکوز رکھیں گے فوٹو: فائل

سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے1973کے آئین کی حیثیت ماننے سے انکارکرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ چونکہ آئین کی تشریح کی رو سے یہ آئین نہیں اس لیے اس کو توڑنے پر سنگین غداری کے ارتکاب کا اطلاق نہیں ہوتا۔

آئین کی حیثیت کو متنازعہ بناتے ہوئے پی سی اوکوغیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کوکالعدم کرنے کیلیے دائر اپنی نظرثانی درخواست میں سابق آرمی چیف نے موقف اپنایا کہ ملک کے موجودہ دستورکو منتخب اسمبلی کا ایک قانون توکہاجاسکتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں یہ آئین نہیںکہلایا جا سکتا، جب آئین خود خامیوں اور قانون شکنیوںکا شکار ہے تو پھر اس ک توڑنے پر غداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اپنی درخواست کے صفحہ نمبر29 پر انھوں نے موقف اپنایا کہ موجودہ آئین کی منظوری کسی آئین ساز اسمبلی نے نہیں دی، یحییٰ خان جنہیں غاصب قرار دیا گیا نے جس آئین ساز اسمبلی کیلیے انتخابات کا انعقاد کیا تھا اس کے منتخب ارکین کی تعداد 313 تھی جن میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے ارکان شامل تھے۔آئین کی منظوری اقلیتی ارکان نے دی تھی جنہوں نے اپنے آپ خودکو قومی اسمبلی ڈکلیئرکیا ،اقلیتی ارکان آئین بنانے کے مجاز نہیں تھے۔ صفحہ نمبر تیس پر انھوں نے موقف اپنایا ہے کہ جب یہ آئین ہی نہیں تو اس کو توڑنے سے غداری کا ارتکاب نہیں ہوتا۔




اس ضمن میں انھوں نے ضیا الرحمن کیس پی ایل ڈی 1973سپریم کورٹ صفحہ49کا حوالہ دیا ہے اور موقف اپنایا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نظریہ ضرورت کے نام پر آئین کی ان خامیوںکو قبول کیا ہے۔جب آئین خود لاقانونیت کا شکار ہو تو اس کی خلاف ورزی پر سنگین غداری کے الزام کا ارتکاب کیسے ہوسکتاہے۔واضح رہے نظر ثانی درخواست کے وکلا پینل میں شریف الدین پیرزادہ کانام شامل ہے لیکن درخواست پر ان کے دستخط نہیں ۔ درخواست میں ایک سابق جج جسٹس راجہ فیاض احمدکا نام بھی غلط لکھا گیا ہے، فیاض کی جگہ ایاز لکھا گیا ہے۔ سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف ملک کے نامور وکلا کی خدمات لینے کے باوجود غداری مقدمے کی سماعت کیلیے قائم خصوصی عدالت کو باقاعدہ سماعت سے رکوانے میں ناکام ہوگئے ہیں، سابق صدرکی وکلا ٹیم میں شریف الدین پیرزادہ سمیت کئی ایک سینئر وکل شامل ہیں۔احمد رضا قصوری، ڈاکٹر خالد رانجھا کے ساتھ ابراہیم ستی اور بیرسٹر سیف بھی جنرل (ر) پرویز مشرف کا دفاع کریںگے۔سابق صدرکے وکلاکی جانب سے جج صاحبان کے متعصب ہونے کے نکتے پر دلائل مرکوز رکھنے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے ۔

Recommended Stories

Load Next Story