پی ایس او کا ایم ڈی بننے کیلیے مقتدر طبقے کے منظورنظر افراد میں دوڑ

ایک سابق وزیر خزانہ طارق کرمانی جبکہ ایک موجودہ وزیر جو پی آئی اے کے چیئرمین بھی رہے شاہد اسلام کی حمایت کررہے ہیں

پی ایس اوکے بقایاجات139ارب تک بڑھ گئے،سیاسی بنیادوں پر ادارے کے سربراہ کی تقرری سے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے،ذرائع فوٹو: فائل

اہم سرکاری ادارے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کا منیجنگ ڈائریکٹر بننے کیلیے 2مضبوط اور منظور نظر افراد دوڑ میں شامل ہیں۔

ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ سابق ایم ڈی پی ایس او طارق کرمانی اور پی آئی اے کے سابق ملازم شاہد اسلام اس دوڑ میں لگے ہیں۔ ایک سابق وزیر خزانہ طارق کرمانی کی حمایت کررہے ہیں۔ حکومت نے اس عہدے کیلئے عمر کی بالائی حد میں بھی نرمی کردی ہے تاکہ طارق کرمانی جیسے ریٹائر افسروں کو بطور امیدوار زیرغور لایا جاسکے۔ دوسری طرف ایک موجودہ وزیر جنہوں نے پی آئی اے کے چیئرمین اور سی ای او کے طور پر بھی کام کیا وہ شاہد اسلام کی حمایت کررہے ہیں۔

 


پی آئی اے میں ملازمت کے دوران یہ وزیر اور شاہد اسلام ایک دوسرے کے کافی قریب رہے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ اگر شاہد اسلام پی ایس او کے ایم ڈی بنے تو طارق کرمانی کو پی ایس او کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا نیا چیئرمین بنایا جاسکتا ہے۔ قائم مقام ایم ڈی پی ایس او امجد پرویز جنجوعہ نے بھی اس اسامی پر اپنے انتخاب کی درخواست دے رکھی ہے۔



وہ اگر مستقل ایم ڈی نہ بنے تو امکان ہے کہ انہیں ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر بنایا جائے گا۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پی ایس او نے ایس تمام ملازمین کی انکریمنٹ روک لی ہے جو ادارے کے خلاف عدالت گئے ہیں۔ موجودہ ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر جہانگیر علی شاہ بھی ایسے ملازمین میں شامل ہیں جنہوں نے مستقل ڈی ایم ڈی بننے کیلئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔

وہ دوسال کیلیے نامزد ہوئے تھے اور ان کی مدت ملازمت 2ماہ بعد ختم ہونے والی ہے۔ اگر جہانگیر شاہ کو مستقل ڈی ایم ڈی نہ بنایا گیا تو امجد جنجوعہ ان کی جگہ لے لیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایس او کو بڑھتے گردشی قرضے کے باعث پہلے ہی مالیاتی بحران کا سامنا ہے اور نئے ایم ڈی کیلیے اس معاملے سے نمٹنا ایک مشکل کام ہوگا اور سیاسی بنیادوں پر ادارے کے سربراہ کی تقرری سے مالیاتی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے گردشی قرضہ گھٹانے کی کوشش کی لیکن یہ مسئلہ بدستور برقرار ہے اور پی ایس او بالخصوص اس کا شکار ہے۔ پاور سیکٹر بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باوجود پی ایس او کو بروقت ادائیگی نہیں کررہا اور نقصانات روکنے میں بھی بری طرح ناکام ہے جس کے نتیجے میں گردشی قرضہ 225 ارب تک دوبارہ بڑھ گیا ہے، بجلی کے بلوں کی وصولی کا عمل اب بھی سست ہے اور لاسز زیادہ ہیں۔ یہ بھی قرضے میں اضافے کی وجوہات میں شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی ایس او کے دیگر شعبوں بالخصوص پاور سیکٹرکے ذمے بقایاجات 139ارب تک بڑھ گئے ہیں اور اس میں سے واپڈا نے 81.46ارب، حبکو 28.6ارب، پی آئی اے 7.12ارب جبکہ کے ای ایس سی نے 9.9ارب روپے ادا کرنے ہیں۔
Load Next Story