دنیا کو ایک اور ویانا کنونشن کی ضرورت

تمام انبیا کرام اور الہامی کتب کی توہین کو آزادی اظہار سے نہ جوڑا جائے اور ایسا کرنے والے شخص کو نشان عبرت بنادیا جائے

علمائے کرام روایتی احتجاج سے ایک قدم آگے بڑھیں۔ (فوٹو: فائل)

ویانا کنونشن 1961، جس پر تمام اقوام عالم نے دستخط کر رکھے ہیں، کسی بھی ملک میں غیر ملکی سفیروں کے جان و مال اور عزت و تکریم کے تحفظ کی ذمے داری میزبان ملک پر عائد کرتا ہے۔ ویانا کنونشن کا آرٹیکل 24،22،30،37 غیر ملکی سفیروں کی رہائشگاہوں، ان کے اہل خانہ، خط و کتابت اور ڈاک کی ترسیل کو بھی وہی تحفظ فراہم کرتا ہے جس کے خود سفارتکار حقدار ہوتے ہیں۔ ڈنمارک، ناروے، فرانس اور دیگر ممالک میں ہونے والے واقعات کے بعد دنیا کو ویانا کنونشن کی طرز کے ایک اور معاہدے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، کیونکہ بائیکاٹ، جلسے، جلوس، ریلیوں، سیمنارز، مذمتی قرارداد، بین الاقوامی رہنماؤں کو خطوط، فرانس کے سفیر کی واپسی جیسے مطالبوں سے یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔

اور اگر ہماری حالت زار ایسی ہی رہی یعنی ہم جلسے جلوسوں تک ہی محدود رہے تو وہ دن دور نہیں جب (نعوذباللہ) ایسے واقعات عام طور پر وقوع پذیر ہوں، اور ہم احتجاج کرکے عشق نبیؐ کا مظاہرہ کرکے مطمئن ہوجائیں۔ اور پھر کچھ عرصے کے بعد کوئی سرپھرا، عقل سے عاری شخص ہمارے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرے، ہم دوبارہ سے یہی مشق دہرا کر مطمئن ہوجائیں۔ اس سے پہلے کہ ایسا ہو، میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جید علمائے کرام کی خدمت میں انتہائی عاجزی اور ادب سے ملتمس ہوں کہ براہِ کرم فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر عشق نبیؐ میں علامہ طاہرالقادری کے ڈنمارک کے ٹی وی 2 کو دیے گئے انٹرویو پر غور کیجئے۔ علامہ صاحب کی بات کتنی پریکٹیکل ہے، اس کا فیصلہ علمائے کرام نے کرنا ہے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری نے آج سے چند سال قبل اس بارے میں کیا فرمایا تھا۔

یہ آج سے چند سال پہلے کی بات ہے ڈنمارک کے نجی ٹی وی ''چینل 2'' پر علامہ طاہرالقادری کا انٹرویو ہورہا تھا۔ دوران گفتگو علامہ صاحب نے یہ تسلیم کیا کہ گستاخانہ کارٹونز اگر ڈنمارک میں شائع ہوں تو ان پر کوئی سزا نہیں، کیوں کہ ڈنمارک میں توہین رسالت، توہین قرآن سے متعلق کوئی قانون نہیں ہے۔ اور مسلمان ڈنمارک کی پارلیمنٹ کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ ایسا کوئی قانون بنائیں۔ اور جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر یہی حرکت (نعوذباللہ) پاکستان میں ہو تو پھر؟ اس پر علامہ صاحب نے میزبان کی خواہش کے برعکس فرمایا کہ ڈنمارک والے بھی ہماری پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین میں مداخلت نہیں کرسکتے، البتہ گفت و شنید کی جاسکتی ہے۔


اگر ہم فرانس میں ہونے والے واقعات کو سامنے رکھیں تو علامہ صاحب کا مشورہ اس مسئلے کا واحد حل نظر آتا ہے۔ کیونکہ فرانس ایک غیر مسلم ملک ہے۔ مسلمان ممالک فرانس، ناروے، یا ڈنمارک سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ ایسے قوانین بنائیں جو ہمارے جذبات کی ترجمانی کریں۔ بالکل ایسے ہی جیسے غیر مسلم ممالک ہم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم توہین رسالت کے قانون کو ختم کردیں، مگر ہم اسے ختم نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ یہ ہمارے ایمان کا جزو لازم ہے۔

اس لیے علمائے کرام روایتی احتجاج سے ایک قدم آگے بڑھیں۔ اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان، سعودی عرب، ایران اور ترکی کے حکمرانوں کو اس بات پر قائل کریں کہ دنیا سے ویانا کنونشن 1961 کی طرز کا ایک اور قانون منظور کروایا جائے۔ جس کے تحت تمام انبیا کرام اور الہامی کتب کی توہین کو آزادی اظہار سے نہ جوڑا جائے۔ اور ایسا کرنے والے شخص کو نشان عبرت بنادیا جائے۔ کیونکہ انبیا کرام اور الہامی کتب کی عزت سفیروں کی عزت سے بڑھ کر ہے۔

اور آخر میں عوام سے بھی گزارش ہے کہ روایتی احتجاجی طریقوں کےلیے چندہ دے کر مطمئن ہونے کے بجائے علمائے کرام سے گزارش کی جائے کہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر (اگر آپ کے پاس گفت وشنید کے علاوہ کوئی اور حل ہے) حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ نہ کہ جلسے، جلوس منعقد ہوں، میڈیا کوریج کرے اور آخر میں پرتکلف ضیافتوں کا اہتمام کرکے عشق نبیؐ کا حق ادا کردیا جائے۔ واضح رہے کہ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ احتجاج، بائیکاٹ، جلسے جلوس نہ کریں۔ لیکن گزارش صرف اتنی ہے کہ روایتی طریقوں کے ساتھ مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے، اس پہلے کہ یہ لاینحل ہوجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story