سی پیک نے گلگت بلتستان کو غیر معمولی اہمیت دلائی
گلگت وبلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ علاقے کو قانونی و آئینی طور پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے۔
1نومبر 2020ء کو فلک بوس چوٹیوں کی سحر انگیز سرزمین،گلگت بلتستان کے دلیر باسیوں نے ہندو ڈوگرا حکومت کے پنجہ استبداد سے آزاد ہونے کی تہترویں سالگرہ تزک واحتشام سے منائی۔
اس یادگار موقع پر وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ گلگت بلتستان کو ''عبوری صوبائی حیثیت'' (provisional provincial status)دے دی گئی ہے۔ اس اعلان پر علاقے کے عوام نے خوشی و مسّرت کا اظہار کیا۔ اب یہ تاریخی علاقہ عنقریب پاکستان کا پانچواں صوبہ بن جائے گا۔ یہ مقام حاصل کرنا گلگت بلتستان کے تقریباً سبھی شہریوںکا دیرینہ خواب اور مطالبہ تھا جو اب شرمندہ تعبیر ہونے جا رہا ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے خوش آئند اعلان کو مگر بھارتی حکومت نے تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ ہرزہ سرائی کر ڈالی کہ گلگت بلتستان بھارت کا حصہ ہے... لہٰذا یہ علاقہ پاکستان کا پانچواں صوبہ نہیں کہلا سکتا۔ یہ تنقید کرکے مودی سرکار نے دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنے' بے شرمی اور غرور و تکبر کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔
سچائی جاننے کے لیے ہمیںماضی میں جانا پڑے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے بالائی علاقے بلند و بالا پہاڑوں کا مسکن ہیں ۔ ان پہاڑوں کے درمیان کئی چھوٹی بڑی وادیاں واقع ہیں۔ ہزارہا برس کے عرصے میں ان وادیوں میں انسانی بستیوں اور ریاستوں نے جنم لیا۔ ہر وادی اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت ' بولی' روایات او ررسوم رکھتی ہے۔
انیسویں صدی تک شمال مغربی ہندوستان کے نمایاں پہاڑی علاقے کشمیر' جموں 'لداخ' گلگت' بلتستان،کارگل ،دراس اور اکسائی چن کہلانے لگے تھے۔ اسی صدی میں جموں کے ایک چالاک و ہوشیار ہندو ڈوگرا حکمران' گلاب سنگھ نے درج بالا علاقوں پر طاقت کے بل پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس کی فوج میں جنگجو سکھوں کی اکثریت تھی اور انہی کے سہارے گلاب سنگھ دیگر علاقوں میں قدم جمانے میں کامیاب رہا۔
جموں کے اکثر اضلاع سمیت تمام علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ہندو ڈوگرا حکمرانوں نے ان مسلمانوں پر ہولناک ظلم و ستم ڈھائے اور انہیں اپنا غلام بنا لیا۔ مورخین ڈوگرا شاہی دور (1846ء تا1947ء )کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس دوران ریاستی مسلمانوں کی حالت جانوروں سے بھی بدتر رہی۔ خوفناک مظالم ڈھانے کا نتیجہ ہے کہ جب 1947ء میں بھارت اور پاکستان وجود میںآئے تو ریاست (جموں و کشمیر) میں کئی مقامات پر مسلمانوں نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ وجہ یہی کہ ہندو حکمران ،ہری سنگھ پہلے تو ریاست کو آزاد اور خود مختار بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ جب اس کے آقا انگریزوں نے یہ تجویز رد کر دی تو ہری سنگھ بھارتی حکومت سے جا ملا ۔ اس نے 26 اکتوبر1947ء کو ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا جو ریاستی مسلمانوں کو منظور نہ تھا۔
بدقسمتی سے وادی کشمیر میں بھارتی حکومت کو شیخ عبداللہ جیسا جاہ طلب راہنما گیا۔ اس کی عملی مدد سے بھارت فوجی طاقت کے بل بوتے پر جموں ' کشمیر اور لداخ پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ تاہم کشمیری حریت پسندوں نے کشمیر کے ایک علاقے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ یہ علاقہ اب آزاد کشمیر کہلاتا اور پاکستان کا حصہ ہے۔ گلگت اور بلتستان کے عوام بھی پاکستان میں شمولیت کی خواہش رکھتے اور ڈوگرا شاہی سے شدید نفرت کرتے تھے۔ پاکستان سے علاقے کے لوگوں کی محبت والفت اتنی شدید تھی کہ اس نے مقامی انگریز حکمرانوں کو بھی متاثر کیا۔
1889ء سے گلگت پر انگریز حکومت کر رہے تھے۔ انہوںنے نظم و نسق پر کنٹرول رکھنے کی خاطر گلگت اسکاؤٹس نامی ایک پیرا ملٹری فورس بنا رکھی تھی۔ 1947ء میں اس فورس کا کمانڈر میجر ولیم براؤن تھا۔ اسی سال 3 جون کو برطانوی ہند حکومت نے گلگت کا انتظام واپس ڈوگرا حکمران کے حوالے کر دیا۔ ہری سنگھ نے ایک فوجی افسر' گھنسار ا سنگھ کو گلگت کا گورنر بنایا۔ مگر گلگتی مسلمانوں نے اسے بطور حکمران تسلیم نہیں کیا اور وہ ڈوگرا شاہی سے نجات کی تحریک آزادی چلانے لگے۔
میجر براؤن باضمیر انسان تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جموں کے علاوہ ریاست کے دیگر علاقوں میں مسلم آبادی زیادہ ہے۔ لہٰذا ان علاقوں کو پاکستان ہی میں شامل ہونا چاہیے۔ اس نے بریگیڈیر گھنسارا سنگھ پر زور دیا کہ وہ گلگت کا الحاق پاکستان سے کر دے۔ جب ڈوگرا گورنر نہ مانا تو یکم نومبر 1947ء کو میجر براؤن نے ''آپریشن دتہ خیل'' شروع کر کے گلگت کو ڈوگرا شاہی حکومت سے آزاد کرا لیا۔ولیم براؤن کی زیر قیادت گلگت اسکاؤٹس نے پھر بلتستان پر دھاوا بول دیا۔ڈوگرا حکومت نے بلتستان اور کارگل پہ مشتمل ایک انتظامی یونٹ بنا رکھا تھا۔گلگت اسکاؤٹس نے جلد بلتستان سے ڈوگرا انتظامیہ کو مار بھگایا۔اگر ان کے پاس وسائل ہوتے تو وہ کارگل کا علاقہ بھی فتح کر سکتے تھے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔مگر برف پوش پہاڑ رکاوٹ بن گئے۔اس طرح علاقہ بلتستان بھی ڈوگروں کی قید سے رہا ہو گیا۔
18 نومبر کو یہ علاقے مملکت پاکستان کا حصہ بن گئے۔یوںگلگت و بلتستان عوام کی تمنا نے عملی جامہ پہن لیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی تحریک آزادی کے سرکردہ رہنماؤں مثلاً گاندھی' پنڈت نہرو' سردار پٹیل' ابوالکلام آزاد وغیرہ کو علم تھا کہ گلگت و بلتستان کے علاقوں میں کانگریس کا چراغ نہیں جل سکتا۔ اسی لیے انہوںنے کبھی ان علاقوں کا دورہ نہیں کیا۔
20فروری 1948ء کو بھارتی وزیراعظم نہرو نے برطانیہ میں اپنے سفیر اور سردار پٹیل کے دست راست' وی پی مینن کو خط میں لکھا : ''ماؤنٹ بیٹن (بھارتی گورنر جنرل) چاہتے تھے کہ ریاست تقسیم ہو جائے ۔جموں بھارت کو مل جائے بقیہ علاقے پاکستان میں شامل ہو جائیں... مگر میں اس تقسیم کا مخالف ہوں... لیکن حالات بدترین ہو گئے تو میں پونچھ' میر پور اور گلگت وبلتستان پاکستان کو دینے کے لیے تیار ہوں۔''(یہ خط نہرو دستاویزات کا حصہ ہے۔)
بھارت میں سرکاری سطح پر شروع سے یہ ذہنی رویّہ چلا آ رہا ہے کہ گلگت و بلتستان کبھی بھارتی مملکت میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسی واسطے بھارتی حکومت'' آزاد کشمیر'' کی واپسی پر زور دیتی رہی۔ 1947ء سے بھارتی سرکاری کاغذات میں آزاد کشمیر کو ''پاکستان مقبوضہ کشمیر'' لکھا جا رہا ہے۔بھارتی دستاویز میں ہمیں کہیں ''پاکستان مقبوضہ کشمیر گلگت وبلتستان'' کے الفاظ دکھائی نہیں دیتے ۔
بھارتی حکمران طبقے کے لیے گلگت وبلتستان کا علاقہ 2015ء کے بعد اہمیت اختیار کر گیا جب وہاں چین اور پاکستان نے سی پیک منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کے ذریعے چین کو بحر ہند میں پہنچنے کا متبادل راستہ مل چکا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے بڑھتی مخاصمت کے باعث یہ راستہ رفتہ رفتہ چینی حکومت کے لیے اہم بن رہا ہے۔ مگر بھارتی حکمران طبقے کو چین کی ترقی و خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اسی واسطے وہ خطے میں چین کے لیے رکاوٹیں اور مشکلات کھڑی کر رہا ہے تاکہ گلگت و بلتستان میں پورے طور سے معاشی' صنعتی و کاروباری سرگرمیاں شروع نہ ہوسکیں۔
گلگت وبلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ علاقے کو قانونی و آئینی طور پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے۔ پاکستان کا پانچواں صوبہ بننے سے اس علاقے میں انشاء اللہ ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ ایک روشن مستقبل ساکنان ِگلگت وبلتستان کا منتظر ہے۔ان کا جذبہ حب الوطنی اور جوش و خروش دیکھ کر بھارتی حکمران طبقے کو بھی خواب وخیال کی دنیا سے نکل آنا چاہیے۔وادی کشمیر اور جموں کے غیّور مسلمانوں کی طرح گلگتی اور بلتستانی بھی ہندو راج کبھی قبول نہیں کریں گے۔اہل علاقہ یقیناًپاکستانی حکمران طبقے سے شکایات رکھتے ہیں مگر ان کی آڑ میں مودی سرکار کبھی انھیں بغاوت پر نہیں ابھار سکتی۔
بلوچستان ،خیبر پختون خواہ اور سندھ میں بدترین ناکامی سے بھارتی حکمران طبقے کو جتنی جلد ہوش آ جائے،اتنا ہی بہتر ہے۔مستقبل میں خاکم بدہن بھارتی فوج نے گلگت وبلتستان پر حملہ کیا تو اسے افواج پاکستان کے سرفروش جوانوں کے ساتھ ساتھ جاںباز اہل علاقہ کی زبردست مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔اور ایک علاقے کے عوام جس قوت کے ساتھ ہوں،بے سروسامانی کے عالم میں بھی اسے دنیا کی اکلوتی سپرپاور تک شکست نہیں دے سکتی۔بھارتی ایلیٹ طبقے کو افغانستان میں امریکی ونیٹو افواج کا بھیانک انجام ہمیشہ یاد رکھنا بلکہ اپنی کتب ِنصاب کا حصّہ بنا لینا چاہیے۔
اس یادگار موقع پر وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ گلگت بلتستان کو ''عبوری صوبائی حیثیت'' (provisional provincial status)دے دی گئی ہے۔ اس اعلان پر علاقے کے عوام نے خوشی و مسّرت کا اظہار کیا۔ اب یہ تاریخی علاقہ عنقریب پاکستان کا پانچواں صوبہ بن جائے گا۔ یہ مقام حاصل کرنا گلگت بلتستان کے تقریباً سبھی شہریوںکا دیرینہ خواب اور مطالبہ تھا جو اب شرمندہ تعبیر ہونے جا رہا ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے خوش آئند اعلان کو مگر بھارتی حکومت نے تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ ہرزہ سرائی کر ڈالی کہ گلگت بلتستان بھارت کا حصہ ہے... لہٰذا یہ علاقہ پاکستان کا پانچواں صوبہ نہیں کہلا سکتا۔ یہ تنقید کرکے مودی سرکار نے دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنے' بے شرمی اور غرور و تکبر کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔
سچائی جاننے کے لیے ہمیںماضی میں جانا پڑے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے بالائی علاقے بلند و بالا پہاڑوں کا مسکن ہیں ۔ ان پہاڑوں کے درمیان کئی چھوٹی بڑی وادیاں واقع ہیں۔ ہزارہا برس کے عرصے میں ان وادیوں میں انسانی بستیوں اور ریاستوں نے جنم لیا۔ ہر وادی اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت ' بولی' روایات او ررسوم رکھتی ہے۔
انیسویں صدی تک شمال مغربی ہندوستان کے نمایاں پہاڑی علاقے کشمیر' جموں 'لداخ' گلگت' بلتستان،کارگل ،دراس اور اکسائی چن کہلانے لگے تھے۔ اسی صدی میں جموں کے ایک چالاک و ہوشیار ہندو ڈوگرا حکمران' گلاب سنگھ نے درج بالا علاقوں پر طاقت کے بل پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس کی فوج میں جنگجو سکھوں کی اکثریت تھی اور انہی کے سہارے گلاب سنگھ دیگر علاقوں میں قدم جمانے میں کامیاب رہا۔
جموں کے اکثر اضلاع سمیت تمام علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ہندو ڈوگرا حکمرانوں نے ان مسلمانوں پر ہولناک ظلم و ستم ڈھائے اور انہیں اپنا غلام بنا لیا۔ مورخین ڈوگرا شاہی دور (1846ء تا1947ء )کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس دوران ریاستی مسلمانوں کی حالت جانوروں سے بھی بدتر رہی۔ خوفناک مظالم ڈھانے کا نتیجہ ہے کہ جب 1947ء میں بھارت اور پاکستان وجود میںآئے تو ریاست (جموں و کشمیر) میں کئی مقامات پر مسلمانوں نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ وجہ یہی کہ ہندو حکمران ،ہری سنگھ پہلے تو ریاست کو آزاد اور خود مختار بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ جب اس کے آقا انگریزوں نے یہ تجویز رد کر دی تو ہری سنگھ بھارتی حکومت سے جا ملا ۔ اس نے 26 اکتوبر1947ء کو ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا جو ریاستی مسلمانوں کو منظور نہ تھا۔
بدقسمتی سے وادی کشمیر میں بھارتی حکومت کو شیخ عبداللہ جیسا جاہ طلب راہنما گیا۔ اس کی عملی مدد سے بھارت فوجی طاقت کے بل بوتے پر جموں ' کشمیر اور لداخ پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ تاہم کشمیری حریت پسندوں نے کشمیر کے ایک علاقے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ یہ علاقہ اب آزاد کشمیر کہلاتا اور پاکستان کا حصہ ہے۔ گلگت اور بلتستان کے عوام بھی پاکستان میں شمولیت کی خواہش رکھتے اور ڈوگرا شاہی سے شدید نفرت کرتے تھے۔ پاکستان سے علاقے کے لوگوں کی محبت والفت اتنی شدید تھی کہ اس نے مقامی انگریز حکمرانوں کو بھی متاثر کیا۔
1889ء سے گلگت پر انگریز حکومت کر رہے تھے۔ انہوںنے نظم و نسق پر کنٹرول رکھنے کی خاطر گلگت اسکاؤٹس نامی ایک پیرا ملٹری فورس بنا رکھی تھی۔ 1947ء میں اس فورس کا کمانڈر میجر ولیم براؤن تھا۔ اسی سال 3 جون کو برطانوی ہند حکومت نے گلگت کا انتظام واپس ڈوگرا حکمران کے حوالے کر دیا۔ ہری سنگھ نے ایک فوجی افسر' گھنسار ا سنگھ کو گلگت کا گورنر بنایا۔ مگر گلگتی مسلمانوں نے اسے بطور حکمران تسلیم نہیں کیا اور وہ ڈوگرا شاہی سے نجات کی تحریک آزادی چلانے لگے۔
میجر براؤن باضمیر انسان تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جموں کے علاوہ ریاست کے دیگر علاقوں میں مسلم آبادی زیادہ ہے۔ لہٰذا ان علاقوں کو پاکستان ہی میں شامل ہونا چاہیے۔ اس نے بریگیڈیر گھنسارا سنگھ پر زور دیا کہ وہ گلگت کا الحاق پاکستان سے کر دے۔ جب ڈوگرا گورنر نہ مانا تو یکم نومبر 1947ء کو میجر براؤن نے ''آپریشن دتہ خیل'' شروع کر کے گلگت کو ڈوگرا شاہی حکومت سے آزاد کرا لیا۔ولیم براؤن کی زیر قیادت گلگت اسکاؤٹس نے پھر بلتستان پر دھاوا بول دیا۔ڈوگرا حکومت نے بلتستان اور کارگل پہ مشتمل ایک انتظامی یونٹ بنا رکھا تھا۔گلگت اسکاؤٹس نے جلد بلتستان سے ڈوگرا انتظامیہ کو مار بھگایا۔اگر ان کے پاس وسائل ہوتے تو وہ کارگل کا علاقہ بھی فتح کر سکتے تھے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔مگر برف پوش پہاڑ رکاوٹ بن گئے۔اس طرح علاقہ بلتستان بھی ڈوگروں کی قید سے رہا ہو گیا۔
18 نومبر کو یہ علاقے مملکت پاکستان کا حصہ بن گئے۔یوںگلگت و بلتستان عوام کی تمنا نے عملی جامہ پہن لیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی تحریک آزادی کے سرکردہ رہنماؤں مثلاً گاندھی' پنڈت نہرو' سردار پٹیل' ابوالکلام آزاد وغیرہ کو علم تھا کہ گلگت و بلتستان کے علاقوں میں کانگریس کا چراغ نہیں جل سکتا۔ اسی لیے انہوںنے کبھی ان علاقوں کا دورہ نہیں کیا۔
20فروری 1948ء کو بھارتی وزیراعظم نہرو نے برطانیہ میں اپنے سفیر اور سردار پٹیل کے دست راست' وی پی مینن کو خط میں لکھا : ''ماؤنٹ بیٹن (بھارتی گورنر جنرل) چاہتے تھے کہ ریاست تقسیم ہو جائے ۔جموں بھارت کو مل جائے بقیہ علاقے پاکستان میں شامل ہو جائیں... مگر میں اس تقسیم کا مخالف ہوں... لیکن حالات بدترین ہو گئے تو میں پونچھ' میر پور اور گلگت وبلتستان پاکستان کو دینے کے لیے تیار ہوں۔''(یہ خط نہرو دستاویزات کا حصہ ہے۔)
بھارت میں سرکاری سطح پر شروع سے یہ ذہنی رویّہ چلا آ رہا ہے کہ گلگت و بلتستان کبھی بھارتی مملکت میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسی واسطے بھارتی حکومت'' آزاد کشمیر'' کی واپسی پر زور دیتی رہی۔ 1947ء سے بھارتی سرکاری کاغذات میں آزاد کشمیر کو ''پاکستان مقبوضہ کشمیر'' لکھا جا رہا ہے۔بھارتی دستاویز میں ہمیں کہیں ''پاکستان مقبوضہ کشمیر گلگت وبلتستان'' کے الفاظ دکھائی نہیں دیتے ۔
بھارتی حکمران طبقے کے لیے گلگت وبلتستان کا علاقہ 2015ء کے بعد اہمیت اختیار کر گیا جب وہاں چین اور پاکستان نے سی پیک منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کے ذریعے چین کو بحر ہند میں پہنچنے کا متبادل راستہ مل چکا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے بڑھتی مخاصمت کے باعث یہ راستہ رفتہ رفتہ چینی حکومت کے لیے اہم بن رہا ہے۔ مگر بھارتی حکمران طبقے کو چین کی ترقی و خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اسی واسطے وہ خطے میں چین کے لیے رکاوٹیں اور مشکلات کھڑی کر رہا ہے تاکہ گلگت و بلتستان میں پورے طور سے معاشی' صنعتی و کاروباری سرگرمیاں شروع نہ ہوسکیں۔
گلگت وبلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ علاقے کو قانونی و آئینی طور پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے۔ پاکستان کا پانچواں صوبہ بننے سے اس علاقے میں انشاء اللہ ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ ایک روشن مستقبل ساکنان ِگلگت وبلتستان کا منتظر ہے۔ان کا جذبہ حب الوطنی اور جوش و خروش دیکھ کر بھارتی حکمران طبقے کو بھی خواب وخیال کی دنیا سے نکل آنا چاہیے۔وادی کشمیر اور جموں کے غیّور مسلمانوں کی طرح گلگتی اور بلتستانی بھی ہندو راج کبھی قبول نہیں کریں گے۔اہل علاقہ یقیناًپاکستانی حکمران طبقے سے شکایات رکھتے ہیں مگر ان کی آڑ میں مودی سرکار کبھی انھیں بغاوت پر نہیں ابھار سکتی۔
بلوچستان ،خیبر پختون خواہ اور سندھ میں بدترین ناکامی سے بھارتی حکمران طبقے کو جتنی جلد ہوش آ جائے،اتنا ہی بہتر ہے۔مستقبل میں خاکم بدہن بھارتی فوج نے گلگت وبلتستان پر حملہ کیا تو اسے افواج پاکستان کے سرفروش جوانوں کے ساتھ ساتھ جاںباز اہل علاقہ کی زبردست مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔اور ایک علاقے کے عوام جس قوت کے ساتھ ہوں،بے سروسامانی کے عالم میں بھی اسے دنیا کی اکلوتی سپرپاور تک شکست نہیں دے سکتی۔بھارتی ایلیٹ طبقے کو افغانستان میں امریکی ونیٹو افواج کا بھیانک انجام ہمیشہ یاد رکھنا بلکہ اپنی کتب ِنصاب کا حصّہ بنا لینا چاہیے۔