بلوچستان میں سماجی و معاشی تبدیلی

بلوچوں کا بنیادی سیاسی المیہ یہ ہے کہ ان کی معاشی جنگ تو ان کے مقامی رہنماؤں نے کبھی لڑی ہی نہیں۔

بلوچوں کا بنیادی سیاسی المیہ یہ ہے کہ ان کی معاشی جنگ تو ان کے مقامی رہنماؤں نے کبھی لڑی ہی نہیں۔ (فوٹو، فائل)

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کے ذمے دار سابق حکمران ہیں جنھوں نے بلوچستان سے زیادہ لندن اور ایک سابق صدر نے زیادہ دبئی کے دورے کیے، بدقسمتی سے بلوچستان کے سیاستدانوں نے بھی عوام کا نہیں سوچا بلکہ وہ بھی صرف اپنا ہی سوچتے رہے، بلوچستان پر جو توجہ دی جانی چاہیے تھی، وہ نہیں دی گئی۔

جمعے کو بلوچستان کے جنوبی اضلاع کے عمائدین سے خطاب کر تے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا موجودہ حکومت سیاسی مفاد سے بالاتر ہوکر بلوچستان پر اس لیے خصوصی توجہ دے رہی ہے کیونکہ یہ ترقی میں پیچھے ہے، کمزور طبقے کو سہولیات فراہم کیے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔

بلوچستان کی غربت و تنزلی کا ذمے دار کون ہے، حقیقت میں اس سیاسی بحث کا کوئی آغاز ہے اور نہ منطقی انجام، حقیقت شناس افراد کا البتہ کہنا ہے کہ بلوچوں کا بنیادی سیاسی المیہ یہ ہے کہ ان کی معاشی جنگ تو ان کے مقامی رہنماؤں نے کبھی لڑی ہی نہیں، وہ عوام سے ماورا ایک سیاسی جنگ لڑتے رہے۔

اس میں بھی کئی نقطہ ہائے نظر ہیں تاہم عوام کی ترقی اور آسودگی کی منزل تک پہنچنے میں مسلسل کوتاہی کے حوالے سے جہاں وزیر اعظم عمران خان نے بلوچستان کے سیاستدانوں کی کارکردگی پر گلہ کیا وہاں ان کا کہنا درست تھا کہ صوبے کو جس ترقی کی ضرورت تھی، اس پر کسی نے توجہ نہیں دی، لیکن اب بھی وقت ہے کہ اس کمی کو موجودہ حکومت پورا کرے۔ وزیر اعظم بلوچستان کے عوام کی امنگوں کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے صوبے کو شاندار ترقی دلوائیں، اس احساس محرومی کا خاتمہ کریں جو ہر دور میں بلوچستان کے سیاسی ایشوز، پسماندگی، غربت، بیروزگاری اور بدحالی کا سب سے بڑا حوالہ بن جاتا ہے۔

ضرورت صوبے کی ہمہ گیر ترقی و خوشحالی کی ہے تاکہ ملک کے دیگر ترقی یافتہ شہروں کا موازنہ بلوچستان کا بھی اعزاز بن سکے، مگر اس کے لیے ایک غیر روایتی انداز نظر کا ہونا ناگزیر ہے، مسئلہ صوبے کے عوام کی اجتماعی سماجی اور معاشی قلب ماہیت کا ہے جس کی طرف وزیر اعظم نے صائب اشارہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی یہاں پر موجود ہیں، پنجاب حکومت نے بلوچستان کے لیے تعلیمی اسکالرشپس 185 سے بڑھا کر 360 کر دیے ہیں۔ پنجاب حکومت بلوچستان میں اسپتال بھی بنا رہی ہے، یہ بڑے بھائی کی طرف سے چھوٹے بھائی کے لیے امداد ہے، اس کے لیے پنجاب کے وزیر اعلیٰ داد کے مستحق ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچستان کی محرومیوں سے فائدہ اٹھانے والے اس لیے بھی کامیاب ہو جاتے ہیں کیونکہ لوگوں میں یہ تاثر اُبھرنے لگتا ہے کہ ہمیں کیا فائدہ ہوا ہے؟

وزیر اعظم نے کہا بلوچستان میں جو ترقی ہونے جا رہی ہے، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اقتصادی راہداری ہمارے لیے ترقی کا زینہ بنے گی۔ ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی بار احساس پروگرام شروع کیا جس کے تحت دو سو ارب روپے مستحق افراد کو فراہم کیے ہیں۔ وزیر اعظم نے بلوچستان میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے اور صوبے کے دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا۔

وزیر اعظم نے کہا کورونا کے باوجود حکومت کی مؤثر معاشی پالیسیوں کی بدولت ملکی معیشت مثبت سمت میں گامزن ہے۔ 17 سال بعد پہلی بار کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا ہے، گزشتہ چار ماہ میں کوئی نیا قرض نہیں لیا۔ سیمنٹ، سریا، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی ریکارڈ فروخت بھی مثبت اشاریے ہیں اور پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کا شمار ایشیاء کی بہترین اسٹاک مارکیٹس میں ہو رہا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ کورونا کی دوسری لہر نے دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی ہے، پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے، حفاظتی تدابیر (ایس اوپیز) پر عملدرآمد یقینی بنانا ہو گا۔ وزیر اعظم نے جمعہ کو یہاں دارالاحساس، وسیلہ تعلیم پروگرام اور مختلف منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وفاق کی مضبوطی کے لیے تمام اکائیوں میں یکساں ترقی ضروری ہے، بلوچستان ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا، تعلیم اور صحت کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، ایک وقت تھا جب دنیا کے سب سے بڑے سائنسدان مسلمان ہوتے تھے لیکن ہم تعلیم میں پیچھے رہ گئے۔ بلوچستان پر سب سے زیادہ فنڈنگ کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کامیابی کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے، زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، بلوچستان میں مستقبل کی قیادت کے لیے تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں نوجوانوں کو آگے آنا چاہیے۔ اب جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے جس کے ذریعے دور دراز علاقوں میں بھی تعلیم دی جا سکتی ہے، اس پر ہم بھرپور سرمایہ کاری کریں گے۔

جمعہ کو اپنے ایک ٹویٹ میں بھی وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کووڈ-19 چیلنج کے باوجود تیزی سے معاشی بحالی کی طرف گامزن ہے، ماہ ستمبر کے دوران بڑی صنعتوں کی7.7 فیصد شرح نمو متاثر کن ہے۔ ہمارے صنعتی و توانائی پیکیج سے صنعتوں کی صلاحیت اور پیداوار میں مزید اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے تربت میں 200 بستروں پر مشتمل ٹیچنگ اسپتال، یونیورسٹی آف تربت کے فیز II، ایم۔8 کے 146 کلو میٹر ہوشاب، آواران سیکشن کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم کو این۔30 کے 106کلو میٹر دو رویہ بسیمہ، خضدار روڈ پر پیشرفت اور جنوبی بلوچستان کے لیے ترقیاتی پیکیج کے بارے میں بریفنگز دی گئیں۔


وزیر اعظم نے اس دورہ میں یتیم اور مسکین بچوں کے لیے دارالاحساس کا افتتاح کیا جس میں مستحق بچوں کو مفت رہائش، کھانا اور تعلیم کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ وزیر اعظم نے وسیلہ تعلیم پروگرام کے تحت پرائمری اسکول کی بچیوں اور مستحق انڈرگریجویٹس کے لیے احساس ایجوکیشنل اسکالرشپس کا اجراء بھی کیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ بلوچستان کے جنوبی اضلاع کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں، تین ہزار گھرانوں تک بجلی پہنچائی جائے گی، نیشنل گرڈ سے 47 ہزار گھرانوں کو بجلی فراہم ہو گی، دو لاکھ 30 ہزار آف گرڈ گھرانوں کو دیگر ذرایع سے بجلی فراہم کی جائے گی۔ ایل پی جی کی فراہمی کا بھی ایک مربوط نظام لایا جا رہا ہے، کمزور طبقات کو گیس پر سبسڈی دی جائے گی۔ پانی کی فراہمی کے لیے 16 ڈیم بنائے جائیں گے، ڈیڑھ لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی ان سے سیراب ہو گی۔

دریں اثنا وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے وزیر اعظم کے دورہ بلوچستان کے حوالے سے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کا دورہ بلوچستان کے عوام کے لیے خوشحالی کی نوید ثابت ہو گا، بلوچستان کی ترقی ملکی ترقی کا باعث بنے گی۔ معاشی و سماجی ترقی کے ذریعے بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی دور کریں گے۔ آگے بڑھنے کے یکساں مواقع سمیت عوام کی ترقی کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ اب فیصلہ ارباب اختیار کو کرنا ہے کہ جنھوں نے بلوچستان کو نظر انداز کیا سو کیا، اب موجودہ حکمران بتائیں کہ وہ بلوچستان کی ترقی کا کیا رول ماڈل لانا چاہتے ہیں، دو سال گزر چکے، آیندہ تین برس کے اقتدار میں موجودہ حکومت بلوچستان کے فرسودہ قبائلی نظام کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ کرے گی۔

حکومت کو تاریخی تناظر میں ادراک کرنا ہوگا کہ بلوچستان میں معاشی انصاف، شفاف انتظامی فیصلوں پر مبنی ٹھوس اقدامات کرنا ہوںگے، یہ سیاسی حقیقت ہے کہ نسل در نسل بلوچستان کے سیاہ فاموں اور مقامی بلوچوں کو غربت وافلاس اور بیروزگاری کا سامنا ہے، سیاسی کشمکش اور مختلف شورشوں اور حکومتی تبدیلیوں کے باعث حقیقی جمہوری ثمرات سے مقامی غریب بلوچ محروم ہی رہے، لہٰذا ان کا صوبائی اور ضلعی و بلدیاتی سرکاری ملازمتوں میں کوٹا مقرر کیا جائے، انھیں تعلیم، صحت، رہائش اور سماجی بہبود کے شعبے میں نہ صرف کھپایا جائے بلکہ غیر ہنرمند آسامیوں میں بھی مقامی افراد کو فوقیت ملنی چاہیے، انھیں ریڈ انڈینز بنائے جانے کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔

بلوچستان میں ویمن اکنامک ایمپاورمنٹ کے شعبہ میں بلوچ خواتین کو دستکاری، شیشہ گری کی سہولتیں مہیا کی جائیں، اس سلسلہ میں ''بلوچی دوچ'' کی گھریلو صنعت کو ترقی دے کر حکومت غریب عمر رسیدہ خواتین اور بلوچ لڑکیوں کو اس مخصوص سلائی کڑھائی کی مارکیٹنگ میں ادارہ جاتی سپورٹ مہیا کرے، مخصوص بلوچی دوچ عروسی ملبوسات میں اپنی شناخت رکھتا ہے، ایک بار ہالی ووڈ کی ساحرہ الزبتھ ٹیلر نے بلوچی لباس کی اسکرین پر رونمائی کی تھی،گزشتہ دنوں کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ میں مریم نواز نے بھی یہی بلوچی لباس زیب تن کیا تھا، اس ملبوس کی صناعی اور کاریگری کا حوالہ میر انیس کے ان اشعار میں موجود ہے:

صدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو

ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو

یہ جھریاں نہیں چہرے پر ضعف پیری نے

چنا ہے جامۂ اصلی کی آستینوں کو

حکومت اگر بلوچستان کے عوام کو ترقی و خوشحالی دینے کا عزم رکھتی ہے تو اسے انتظامی شعبوں میں مقامی غریب بلوچوں کو کھپانے کا عمل فوراً شروع کرنا چاہیے، ماہی گیروں کے لیے پیکیج کا اعلان ہونا چاہیے، ٹرانسپورٹ سمیت تعلیم اور صحت کے پروجیکٹ، ادیبوں شاعروں، فنکاروں اور کھلاڑیوں کی سرپرستی کی بھی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں آج بھی ایسے غریب خاندان رہتے ہیں جو دور جدید کی نعمتوں سے محروم ہیں، ان دور افتادہ صحرائی اور قبائلی مکینوں تک رسائی بھی آسان نہیں، ان کی موت بھی ڈسکس نہیں ہوتی، معصوم بچے علاج کو ترستے ہیں۔ انھیں دریافت کرنے اور توجہ کی ضرورت ہے۔
Load Next Story