امریکی صدارتی الیکشن اور ٹرمپ
ٹرمپ کی اس ضد پر کہ انھیں دھوکے اور فراڈ سے صدارتی الیکشن میں ہرایا گیا ہے لہٰذا وہ وہائٹ ہائوس نہیں چھوڑینگے۔
KARACHI:
پاکستان میں ساری دنیا سے باخبر رہنے کے خواہشمند حضرات گزشتہ دو تین ہفتوں سے امریکا کے صدارتی انتخاب ہوتے دیکھنے کے لیے ٹیلیویژن کے ریموٹ کنٹرول کا بٹن گھماتے ہوئے CNN اور کبھی BBC نشریات پر نظریں جماتے رہے اور کبھی گلگت بلتستان میں عمران خان کے مخالفین کی تقاریر سنتے پائے گئے۔
لوگ گزشتہ چار سال سے صدر ٹرمپ کو دیکھ ،سن کر اور پھر امریکی الیکشن کے دوران ان کی حرکات اور کلمات سے اس لیے بھی لطف اندوز ہوئے کہ وہ محسوس کرتے رہے کہ جناب ٹرمپ نے سیاسی ٹریننگ شاید ہمارے سیاستدانوں سے لی ہوئی ہے۔ بدعنوانی کا تو ٹرمپ پر کوئی الزام نہیں لیکن انھوں نے الیکشن کے دوران ہی دھاندلی اور فراڈ کا الزام لگا کر تین Petitions دائرکر دی تھیں جو عدالت نے بے بنیاد پا کر خارج کر دیں۔ الیکشن ہوتا رہا۔ Results کیمرہ اسکرین پر دکھائے جاتے رہے۔
ان Results میں کسی جگہ ٹرمپ آگے ہوتا تو کہیں ان کا مخالف Joe Biden آگے لیکن جب الیکشن مزید آگے بڑھا اور Biden کی جیت نظر آنے لگی تو ٹرمپ نے کھل کر کہنا شروع کر دیا کہ '' میں نہیں مانتا''۔ شاید اس کو جالبؔ کی نظم یاد آنے لگی تھی کہ ''ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔'' میرے اس کالم کی تحریک امریکی صدارتی انتخاب ہے۔ اس سے پہلے امریکی صدارتی انتخاب میں دلچسپی شاید اس لیے نہ ہوئی کہ موجودہ صدر کی عادات اور گفتار میں جو مماثلت اپنے یہاں کے جنرل الیکشن لڑنیوالوں میں دیکھنے سننے میں آتی رہی ہیں۔
ادھر ہمارے لوگوں کے لیے قلب و نگاہ کی تفریح بھی اول تو کورونا کی وجہ سے کہ لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر گزشتہ چھ سات ماہ سے room اور Arrest House رہ کر بیزار تھے اور Depression میں رہنے کی وجہ سے کرسی، بستر، ٹیلیویژن کے سوا کہیں آنے جانے سے بھی محروم تھے اور دوسری وجہ یہ کہ ہمارے بہت سے دوستوں کے بچے امریکا میں ہیں۔
الیکشن یونین کونسل کا ہو یا نیشنل اسمبلی کا، Candidate کے لیے Convessing کرنا اور تنظیم سازی لازمی جزو ہیں۔ ایک شخص البتہ امیدوار کا رائٹ ہینڈ ہوتا ہے جو الیکشن مہم کے تمام معاملات دیکھتا ہے۔ امریکی صدر کے علاوہ نائب صدر کا عہدہ بھی ہوتا ہے اوردو نوں کا انتخاب اکٹھے ہوتا ہے۔ Joe Biden سابق صدر Obama کا نائب صدر تھا۔ اس بار Biden کے ساتھ کمیلا ہیرس نائب صدر منتخب ہوئی۔ یہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون بتائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر مشتاق نے مجھے ایک وڈیو کلپ بھیجی جس میں کمیلا اپنے Chief Compaign organizer ڈاکٹر آصف محمود کا پارٹی ورکرز سے سے تعارف اور تعریفی کلمات کے ساتھ ذکر کر رہی ہے لہٰذا میں نے فوراً عبدالحئی کے بیٹے ڈاکٹر عمران حئی کو امریکا ٹیلیفون کر کے ڈاکٹر آصف محمود کے بارے تصدیق کی ۔ عمران کے تصدیق کرنے پر میں نے نائب صدر (منتخب) کی تقریر و تصویر Delete نہیں کی ۔ امریکی نومنتخب صدر Joe Biden دوبار پاکستان آئے، انھیں ہلال پاکستان سے نوازا گیا، کشمیر پر بھی ان کا مؤقف بڑا واضع ہے۔
اتفاق ملاحظہ ہو کہ پانچ ووٹ جوJoe Biden کو طارق حمید، مہر النساء اور ان کی فیملی نے دیے وہ بے مقصد نہیں رہے۔ ٹرمپ نے تین مقدمات دائر کیے کہ ان کے ساتھ فراڈ ہوا ہے۔ یہ تینوںکیس بے بنیاد ہونے کی وجہ سے خارج ہو گئے لیکن موصوف مزید مقدمات دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جتنے مارجن سے بائیڈن الیکشن جیتے ہیں، امید کم ہے کہ ٹرمپ صاحب ججز کو قائل کر سکیں گے ۔ ٹرمپ ایک کامیاب بزنس مین ہیں ان کا کاروبار کئی ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ میں نے ان کا ایک Plaza استنبول میں بھی دیکھا ہے لیکن ان کی ایک عادت امریکیوں کے علم میں ہے کہ وہ بیحد ضدی اور خودسر ہیں۔ وہ کاروبار میں کامیاب لیکن سیاست ناپسندیدہ ہے۔
ٹرمپ کی اس ضد پر کہ انھیں دھوکے اور فراڈ سے صدارتی الیکشن میں ہرایا گیا ہے لہٰذا وہ وہائٹ ہائوس نہیں چھوڑینگے، بیشمار کمنٹس اور کارٹون دیکھنے کو ملے ہیں، امریکا جیسے ملک میں الیکشن ہارنے پر شکست خوردہ کا ردعمل ایک مزاحیہ اور انوکھی حرکت ہے یہاں تک کہ وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ نے بھی ایک مزاحیہ وڈیو شیئر کی جس میں ٹرمپ وہائٹ ہائوس کے داخلی دروازے پر لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ میں وہائٹ ہائوس نہیں چھوڑونگا، جوبائیڈن کی الیکشن Compaign میں بارک اوباما نے بھی ڈاکٹر آصف محمود کی طرح بہت محنت کی ہے۔ متعدد جگہوں پر اوباما نے ووٹروں کو بڑی محنت اور محبت سے بائیڈن کو ووٹ دینے کی درخواستی تقریریں کی ہیں۔
اوباما خود دو بار صدارتی الیکشن جیتا۔ اوباما کی والدہ Ann Dunham نے پاکستان رہ کر Punjab Agricultural Dev. Bank میں بحیثیت Consultant کام کیا جس کا عرصہ 1987-1992 تھا۔ اسی طرح اپنی طالبعلمی کے عرصہ 1981 میں اوباما نے تین ہفتے پاکستان کے مختلف شہروں لاہور، کراچی، حیدرآباد، گوجرانوالہ اپنے کالج کے دوستوں کے ہمراہ گزارے اور شکار کھیلا۔ ADBP پراجیکٹ گوجرانوالہ کا تھا لیکن اوباما کی والدہ لاہور کے ہوٹل میں قیام کرتی تھیں۔ ابھی امریکا کے صدارتی انتقال اقتدار میں دو ماہ باقی ہیں۔ دیکھئے جمائمہ کی ٹرمپ کے بارے میں مزاحیہ وڈیو کہاں تک سچ نکلتی ہے۔
پاکستان میں ساری دنیا سے باخبر رہنے کے خواہشمند حضرات گزشتہ دو تین ہفتوں سے امریکا کے صدارتی انتخاب ہوتے دیکھنے کے لیے ٹیلیویژن کے ریموٹ کنٹرول کا بٹن گھماتے ہوئے CNN اور کبھی BBC نشریات پر نظریں جماتے رہے اور کبھی گلگت بلتستان میں عمران خان کے مخالفین کی تقاریر سنتے پائے گئے۔
لوگ گزشتہ چار سال سے صدر ٹرمپ کو دیکھ ،سن کر اور پھر امریکی الیکشن کے دوران ان کی حرکات اور کلمات سے اس لیے بھی لطف اندوز ہوئے کہ وہ محسوس کرتے رہے کہ جناب ٹرمپ نے سیاسی ٹریننگ شاید ہمارے سیاستدانوں سے لی ہوئی ہے۔ بدعنوانی کا تو ٹرمپ پر کوئی الزام نہیں لیکن انھوں نے الیکشن کے دوران ہی دھاندلی اور فراڈ کا الزام لگا کر تین Petitions دائرکر دی تھیں جو عدالت نے بے بنیاد پا کر خارج کر دیں۔ الیکشن ہوتا رہا۔ Results کیمرہ اسکرین پر دکھائے جاتے رہے۔
ان Results میں کسی جگہ ٹرمپ آگے ہوتا تو کہیں ان کا مخالف Joe Biden آگے لیکن جب الیکشن مزید آگے بڑھا اور Biden کی جیت نظر آنے لگی تو ٹرمپ نے کھل کر کہنا شروع کر دیا کہ '' میں نہیں مانتا''۔ شاید اس کو جالبؔ کی نظم یاد آنے لگی تھی کہ ''ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔'' میرے اس کالم کی تحریک امریکی صدارتی انتخاب ہے۔ اس سے پہلے امریکی صدارتی انتخاب میں دلچسپی شاید اس لیے نہ ہوئی کہ موجودہ صدر کی عادات اور گفتار میں جو مماثلت اپنے یہاں کے جنرل الیکشن لڑنیوالوں میں دیکھنے سننے میں آتی رہی ہیں۔
ادھر ہمارے لوگوں کے لیے قلب و نگاہ کی تفریح بھی اول تو کورونا کی وجہ سے کہ لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر گزشتہ چھ سات ماہ سے room اور Arrest House رہ کر بیزار تھے اور Depression میں رہنے کی وجہ سے کرسی، بستر، ٹیلیویژن کے سوا کہیں آنے جانے سے بھی محروم تھے اور دوسری وجہ یہ کہ ہمارے بہت سے دوستوں کے بچے امریکا میں ہیں۔
الیکشن یونین کونسل کا ہو یا نیشنل اسمبلی کا، Candidate کے لیے Convessing کرنا اور تنظیم سازی لازمی جزو ہیں۔ ایک شخص البتہ امیدوار کا رائٹ ہینڈ ہوتا ہے جو الیکشن مہم کے تمام معاملات دیکھتا ہے۔ امریکی صدر کے علاوہ نائب صدر کا عہدہ بھی ہوتا ہے اوردو نوں کا انتخاب اکٹھے ہوتا ہے۔ Joe Biden سابق صدر Obama کا نائب صدر تھا۔ اس بار Biden کے ساتھ کمیلا ہیرس نائب صدر منتخب ہوئی۔ یہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون بتائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر مشتاق نے مجھے ایک وڈیو کلپ بھیجی جس میں کمیلا اپنے Chief Compaign organizer ڈاکٹر آصف محمود کا پارٹی ورکرز سے سے تعارف اور تعریفی کلمات کے ساتھ ذکر کر رہی ہے لہٰذا میں نے فوراً عبدالحئی کے بیٹے ڈاکٹر عمران حئی کو امریکا ٹیلیفون کر کے ڈاکٹر آصف محمود کے بارے تصدیق کی ۔ عمران کے تصدیق کرنے پر میں نے نائب صدر (منتخب) کی تقریر و تصویر Delete نہیں کی ۔ امریکی نومنتخب صدر Joe Biden دوبار پاکستان آئے، انھیں ہلال پاکستان سے نوازا گیا، کشمیر پر بھی ان کا مؤقف بڑا واضع ہے۔
اتفاق ملاحظہ ہو کہ پانچ ووٹ جوJoe Biden کو طارق حمید، مہر النساء اور ان کی فیملی نے دیے وہ بے مقصد نہیں رہے۔ ٹرمپ نے تین مقدمات دائر کیے کہ ان کے ساتھ فراڈ ہوا ہے۔ یہ تینوںکیس بے بنیاد ہونے کی وجہ سے خارج ہو گئے لیکن موصوف مزید مقدمات دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جتنے مارجن سے بائیڈن الیکشن جیتے ہیں، امید کم ہے کہ ٹرمپ صاحب ججز کو قائل کر سکیں گے ۔ ٹرمپ ایک کامیاب بزنس مین ہیں ان کا کاروبار کئی ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ میں نے ان کا ایک Plaza استنبول میں بھی دیکھا ہے لیکن ان کی ایک عادت امریکیوں کے علم میں ہے کہ وہ بیحد ضدی اور خودسر ہیں۔ وہ کاروبار میں کامیاب لیکن سیاست ناپسندیدہ ہے۔
ٹرمپ کی اس ضد پر کہ انھیں دھوکے اور فراڈ سے صدارتی الیکشن میں ہرایا گیا ہے لہٰذا وہ وہائٹ ہائوس نہیں چھوڑینگے، بیشمار کمنٹس اور کارٹون دیکھنے کو ملے ہیں، امریکا جیسے ملک میں الیکشن ہارنے پر شکست خوردہ کا ردعمل ایک مزاحیہ اور انوکھی حرکت ہے یہاں تک کہ وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ نے بھی ایک مزاحیہ وڈیو شیئر کی جس میں ٹرمپ وہائٹ ہائوس کے داخلی دروازے پر لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ میں وہائٹ ہائوس نہیں چھوڑونگا، جوبائیڈن کی الیکشن Compaign میں بارک اوباما نے بھی ڈاکٹر آصف محمود کی طرح بہت محنت کی ہے۔ متعدد جگہوں پر اوباما نے ووٹروں کو بڑی محنت اور محبت سے بائیڈن کو ووٹ دینے کی درخواستی تقریریں کی ہیں۔
اوباما خود دو بار صدارتی الیکشن جیتا۔ اوباما کی والدہ Ann Dunham نے پاکستان رہ کر Punjab Agricultural Dev. Bank میں بحیثیت Consultant کام کیا جس کا عرصہ 1987-1992 تھا۔ اسی طرح اپنی طالبعلمی کے عرصہ 1981 میں اوباما نے تین ہفتے پاکستان کے مختلف شہروں لاہور، کراچی، حیدرآباد، گوجرانوالہ اپنے کالج کے دوستوں کے ہمراہ گزارے اور شکار کھیلا۔ ADBP پراجیکٹ گوجرانوالہ کا تھا لیکن اوباما کی والدہ لاہور کے ہوٹل میں قیام کرتی تھیں۔ ابھی امریکا کے صدارتی انتقال اقتدار میں دو ماہ باقی ہیں۔ دیکھئے جمائمہ کی ٹرمپ کے بارے میں مزاحیہ وڈیو کہاں تک سچ نکلتی ہے۔