گلگت بلتستان انتخابی نتائج کون جیتا کون ہارا
حکمران تحریک انصاف تنہا اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ حکومت بنا لے۔ اسے آزاد امیدواروں کی حمایت درکار ہو گی۔
گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج سامنے آگئے ہیں۔ کون جیتا ، کون ہارا، اس پر بحث وتکرار کے بجائے، آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی نہیں جیتا۔ کسی سیاسی جماعت کو مکمل اکثریت نہیں ملی ہے کہ وہ تنہا حکومت بنا سکے۔
حکمران تحریک انصاف تنہا اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ حکومت بنا لے۔ اسے آزاد امیدواروں کی حمایت درکار ہو گی تاہم تحریک انصاف کے لیے یہ نیا تجربہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے انھوں نے پنجاب میں بھی آزاد ارکان اور اتحادی جماعتوں کی حمایت سے ہی حکومت بنائی ہوئی ہے، اس لیے وہ گلگت بلتستان میں بھی ایسے ہی حکومت بنا لیں گے۔ شائد تحریک انصاف کے مقدر کے اسکرپٹ میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے مکمل پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں کرنا بلکہ سیاسی بیساکھیوں کا محتاج رکھنا ہے۔
اسی لیے تحریک انصاف کی پنجاب اور مرکز حکومتیں بھی سیاسی بیساکھیوں کی محتاج ہیں، اب گلگت بلتستان کی حکومت بھی سیاسی بیساکھیوں کی ہی محتاج ہو گی۔ شاید اس کے مقدر میں سارا اسکرپٹ ہی ایسا لکھا ہوا ہے۔یوں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے لیے یہ کوئی بڑا سیاسی دھچکا نہیں ہے، شاید انھیںصرف یہی بتایا گیا ہے کہ انھوں نے پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا ہے۔ گلگت بلتستان الیکشن کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو 2015میں ن لیگ 24میں سے 15سیٹیں جیت کر اکیلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی تھی۔
لیکن تحریک انصاف نے اس کے مقابلے میں کم سیٹیں جیتی ہیں۔ یوں تحریک انصاف کی جیت 2015 میں ن لیگ کی جیت کے مقابلے میں کمتر ہے۔ 2009کے انتخابات میں 33میں سے پیپلزپارٹی نے 20نشستیں جیت لی تھیں۔ اس طرح پیپلزپارٹی بھی اکیلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی تھی اور اسے کسی بھی قسم کی سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں تھی۔ گزشتہ دو انتخابات میں اس وقت کی برسراقتدار وفاقی حکومتوں نے گلگت وبلتستان میں جتنی کامیابی حاصل کی تھی، اس کے مقابلے میں تحریک انصاف نے برسراقتدار ہونے کے باوجود کم سیٹیں جیتی ہیں بلکہ کامیابی کا تناسب بھی بہت کم ہے۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں بلاول کو بڑی شکست ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو تو پہلے ہی علم تھا کہ وہ گیم میں نہیں ہے۔ مریم نواز پارٹی کا نام زندہ رکھنے کے لیے وہاں گئی تھیں۔ دو ہزار پندرہ میں ن لیگ نے وہاں جن جیتنے والوں کی مدد سے حکومت بنائی تھی، وہ انھیں چھوڑ کر تحریک انصاف کے ساتھ جا چکے تھے، اس لیے پارٹی کو نقصان پہنچا تھا۔ مریم نواز کے جانے سے کم از کم پارٹی کا نام بچ گیا۔ ن لیگ پھر بھی دو سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، چلو کم از کم اسمبلی میں ن لیگ کے دو رکن توموجود ہوں گے۔
ویسے بھی ن لیگ جیت کے لیے کھیل ہی نہیں رہی تھی۔ وہ چار پانچ سیٹوں کی امید لگا کر بیٹھے تھے لیکن انھیں صرف دو نشستیں ملی ہیں۔ پیپلزپارٹی ایک بڑی جماعت ہونے کے ناطے دھاندلی کا شور مچا رہی ہے۔ اس نے وہاں مظاہرے بھی شروع کر دیے ہیں۔
سب کو علم تھا کہ اصل مقابلہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان تھا۔ بے شک انتخابات سے ایک دو دن قبل جو انتخابی سروے آئے، ان میں تحریک انصاف کو پیپلزپارٹی پر برتری دکھائی گئی لیکن پیپلز پارٹی کی اچھی پوزیشن کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ یہ دعویٰ تو نہیں کیا جا رہا تھا کہ پیپلزپارٹی اکیلی حکومت بنا لے گی لیکن بعض حلقوں کا اندازہ یہ بھی تھا کہ پیپلزپارٹی کی سیٹیں تحریک انصاف سے زیادہ ہوںگی لیکن ایسا نہیں ہوا ہے بلکہ پیپلز پارٹی کی نشستیں اندازوں سے بہت کم آئی ہیں۔ تین نشستیں تو کوئی نشستیں نہ ہوئیں۔
اس لیے یہ انتخابی نتائج بلاول کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر دو نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں، انھیں ایک نشست چھوڑنا پڑے گی۔ دوبارہ پیپلز پارٹی کے لیے شاید وہ نشست جیتنا بھی مشکل ہو جائے۔
پیپلزپارٹی کے اندر بھی یہی سوچ تھی کہ وہ گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ عمومی فضا بھی ایسی نظر آرہی تھی کہ شاید مقتدر حلقوں سے بھی اشارہ مل گیاہے ۔ اسی لیے بلاول نے اتنی لمبی کمپین چلائی ۔ بی بی سی سے بلاول کے انٹرویو کو بھی اسی بات کا اشارہ سمجھا جا رہا تھا کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے جان چھڑائے گی اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ چلی جائے گی۔ بلاول نے گلگت کی مہم کو کوئٹہ کے جلسہ پر بھی ترجیح دی۔ اگر بلاول گلگت بلتستان میں الیکشن جیت جاتے تو یہ ان کی پہلی بڑی سیاسی کامیابی ہوتی، ان کا سیاسی قد بڑھ جاتا اور وہ ایک قومی لیڈر بن جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔کسی گرین سگنل ملنے کی سب باتیں افسانہ ثابت ہوئی ہیں۔
کیا بلاول نے گلگت کی انتخابی مہم کے دوران مریم نواز سے ملاقات کر کے غلطی کی ہے؟ کیا تحریک انصاف کے وزراء نے جب مریم نواز کو ٹارگٹ کیا تو اس کا جواب دے کر غلطی کی ہے؟ کیا یہ خطرہ پیدا ہوا تھا کہ اگر پیپلزپارٹی کو گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا تو پھر ن لیگ کو بھی موقع مل جائے گا۔ شاید انھیں شکوک وشبہات کی بنا پر بلاول بھی کھیل سے باہر ہوگئے ۔ پھر گلگت بلتستان کے انتخابات سے دو دن قبل سوات میں جلسہ عام میں نواز شریف نے جس قسم کی تقریر کی، اس کے بعد تو ن لیگ کے لیے گنجائش ہی نہیں بچی تھی ۔
بلاول کو شاید شکست کا اندازہ نہیں تھا۔ ان کا شاید اندازہ یہ تھا کہ انھیں ایک اتحادی حکومت بنانے کا موقع مل جائے گا۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو وہ اپوزیشن کی بڑی پارٹی ہوںگے جو کسی بھی وقت حکومت میں آنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ ویسے تو گلگت میں پیپلزپارٹی نے حکومت میں آنے کی مکمل تیاری کر رکھی تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی شاید کہیں غلطی کر گئی ، کیا یہ بہتر پالیسی نہیں تھی کہ شروع دن سے ہی دھاندلی کے الزامات لگا کر انتخابات کو کم ازکم متنازعہ ہی بنا دیا جاتا، اس سیاسی چال میں ساری پی ڈی ایم ان کے ساتھ ہوتی۔ لیکن پیپلز پارٹی نے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا۔
اس دباؤ کی وجہ سے ن لیگ کو بھی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اگر پہلے ہی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جاتا تو کیا زیادہ بہتر نہیں تھا۔ کہیں سے کوئی گارنٹی لی جاتی لیکن پیپلز پارٹی کے پالیسی ساز شائد ٹریپ میں آگئے اور گلگت جا کر بیٹھ گئے۔
انھیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ انھیں کس خوبصورتی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ چلیں اگر یہ مان لیا جائے کہ پیپلز پارٹی کو سارے کھیل کا علم تھا، وہ ٹریپ میں نہیں تھی بلکہ پوری منصوبہ بندی سے انتخابی میدان میں اتری تھی تو پھر پیپلزپارٹی نے ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف کی مدد کی ہے، جیسے سینیٹ کے انتخابات میں کی تھی۔ بلوچستان کی حکومت گرانے میں کی تھی۔ وزارت عظمیٰ کے لیے شہباز شریف کو ووٹ نہ ڈال کر کی تھی۔ صدارتی انتخاب میں اپنا الگ امیدوار کھڑا کر کے کی تھی۔ اور اب گلگت میں بھی وہی تاریخ دہرائی ہے۔ اسی لیے وہ ہار کو بھی جیت سمجھتے ہیں۔ وہ بند گلی میں نہیں ہیں بلکہ یقین ہے کہ انھیں موقع ضرور ملے گا۔