ایسے تھے وہ خوش لباس
قائداعظم کی خوش پوشاکی اور نفاست
قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر پاک و ہند کی ماضی قریب کی تاریخ کے نہایت خوش پوشاک اور نفیس انسان تھے۔
جہاں مورخین نے ان کی سیاسی بصیرت کو موضوع بنایا ہے وہاں جزوی طور پر اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے کہ قائداعظم کی خوش پوشاکی بھی ان کی شخصیت کا ایک ایسا جزو تھی جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے اپنے مضمون میں قائد اعظم کی خوش پوشاکی اور لباس کے حوالے سے ان کی طبیعت کی نفاست کا ایک سرسری جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
لباس کے حوالے سے قائد اعظم کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح دسمبر 1876 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ یہ شہر اس وقت نہ صرف بمبئی پریسیڈنسی کا حصہ تھا بلکہ ساحلی شہر ہونے کی بناء پر تجارتی مرکز بھی تھا، لہٰذا یہاں نہ صرف مختلف اقوام کے افراد آباد تھے بلکہ تجارتی مقاصد کے لیے اندرون و بیرون ہند سے بھ لوگ آتے رہتے تھے۔ انگریزوں کی بھی ایک بڑی تعداد یہاں آباد تھی۔ چناں چہ یہاں کی مقامی آبادی کے وہ افراد جو تجارت سے وابستہ تھے انگریزوں سے آشنا ہونے کے ساتھ ہی ساتھ انگریزی لباس سے بھی کسی حد تک مانوس ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں کراچی کے ایک حصہ میں ''اینگلو انڈینز'' کی بھی ایک بڑی تعداد مقیم تھی جن کی زبان اور لباس تقریباً وہی تھا جو انگریزوں کا تھا۔ اس لیے خصوصاً تجارت پیشہ اور جدید تعلیم یافتہ افراد کے لباس میں ''کوٹ پتلون'' شامل تھا۔ البتہ سلطنت عثمانیہ ترکی سے مسلمانان ہند کی مذہبی ہم آہنگی کی بنا پر مسلمانوں کے لباس میں ''ترکی ٹوپی'' بھی شامل ہوا کرتی تھی، جسے وہ ہر قسم کے لباس کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ قائداعظم کے والد جناح پونجا چوںکہ تجارت پیشہ تھے اور انگریزوں سے قریبی رابطے میں رہتے تھے، اس لیے وہ نہ صرف انگریزی زبان سے آشنا تھے بلکہ ان کا لباس بھی کوٹ پتلون اور ٹائی پر مشتمل تھا۔ کراچی کے اس ماحول میں قائد اعظم بھی نہ صرف بچپن سے ہی اس لباس سے آشنا تھے، بلکہ اپنے زمانہ طالب علمی میں یہی لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔
1892 میں محمد علی جناح انگلینڈ چلے گئے، جہاں ان کو بزنس ایڈمنسٹریشن کی تربیت حاصل کرنا تھی، لیکن انہوں نے لنکزان میں داخلہ لے لیا اور بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ لندن میں قیام کے دوران ان کو ''کوٹ
پتلون اور ٹائی'' کا مستقل استعمال کرنا پڑا، جس کی بنا پر اس لباس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے بھی وہ آشنا ہوگئے۔ 1896 میں لندن سے واپس آکر محمد علی جناح نے بمبئی میں سکونت اختیار کی اور بطور پیشہ وکالت کا آغاز کیا۔ بمبئی میں پارسیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی آبادی نہ صرف با اثر اور متمول تھی، بلکہ انگریزوں سے اپنے قریبی روابط کی بنا پر انگریزی ثقافت کو اختیار کرنا زیادہ معیوب تصور نہیں کرتی تھی۔ بحیثیت وکیل محمد علی جناح کا واسطہ بمبئی کی آبادی کے اسی طبقے سے تھا، اس لیے ان کو لندن سے ہندوستان واپس آکر لباس کے انتخاب کے سلسلے میں کسی تردد کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ اپنی عدالتی و سماجی ضرورتوں کے پیش نظر کوٹ پتلون، ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کرتے رہے۔
نتیجتاً جب 1906 میں وہ اپنی سیاسی زندگی میں داخل ہوئے تو یہ لباس آہستہ آہستہ ان کی شخصیت سے بڑی حد تک مشروط ہوگیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی لباس کے سلسلے میں نفاست پسندی اور جامہ زیبی ایسی مشہور ہوگئی کہ لارڈ چمسفورڈ اور لارڈ ہارڈنگ جیسے ہندوستان کے وائسرائے بھی ان کی خوش لباسی سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے متعدد بار اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ہندوستان میں انہوں نے جناح کی طرح نفاست پسند اور جامہ زیب کوئی دوسرا آدمی نہیں دیکھا۔ لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ نے تو ایک خط میں جناح کے بارے میں اپنی والدہ کو لکھا کہ ''بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کو عموماً خوش لباسی اور جامہ زیبی میں لائیڈ جارج تصور کیا جاتاہے۔''
1913 میں آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستگی کے بعد بھی محمد علی جناح انگریزی لباس استعمال کرتے رہے۔ ویسے بھی یہ لباس اس زمانے میں جدید تعلیم اور روشن خیالی کی علامت کے طور پر ظاہر ہوا تھا اس لیے تقریباً تمام مسلمان راہ نما بلاتکلف یہی لباس استعمال کرتے تھے۔ یہاں دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ انیسویں کے اواخر نصف اور بیسویں صدی کے اوائل میں عام طور پر وکالت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ناموں کے ساتھ ''مولانا'' اور مولوی کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ عام طور پر یہ تصور بھی کیا جاتا تھا کہ جو شخص مسلمانوں کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دے گا وہ ''مولوی'' یا ''مولانا'' ہوگا۔ اسی عمومی تاثر کے تحت محمد علی جناح کو متعدد بار مولانا لکھا گیا۔ اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ آل انڈیا مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری سید شمس الحسن نے اپنی کتاب Plain Mr. Jinnah میں درج کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1916 میں پہلی مرتبہ آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس بیک وقت ایک ہی مقام یعنی لکھنؤ میں منعقد ہوئے۔
پروگرام کے مطابق ان دونوں جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس بھی ہونا تھا، جس کی صدارت محمد علی جناح کو کرنا تھی۔ اس اجلاس کو کام یاب بنانے کے لیے اور اس اجلاس کی تشہیر کے لیے مسلم لیگ کے آفس نے جو پوسٹر شایع کیے تھے ان میں محمد علی جناح کے نام کے آگے ''مولانا'' کا خطاب استعمال کیا گیا تھا، جب کہ قائد اعظم ہلکے بادامی رنگ کا نہایت نفیس سوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے جس میں وہ ''مولانا'' کے بجائے یورپ کے لارڈ نظر آرہے تھے۔ دوران استقبال کانپور کے اسٹیشن پر یہ بات مسلم لیگ کے تقریباً تمام راہ نماؤں نے محسوس کی۔ چناں چہ مسلم لیگ کے ایک راہ نما سید وزیر حسن نے قائد اعظم کو تجویز پیش کی کہ وہ شیروانی پہن کر اجلاس میں شرکت کریں تاکہ پوسٹر میں لکھے ہوئے خطاب ''مولانا'' کی وقعت رہ جائے۔
قائداعظم چوں کہ صاف گو اور اصولی انسان تھے لہٰذا انہوں نے کوئی ایسا لباس زیب تن کرنے سے انکار کردیا جس کے روایتی آداب سے وہ واقف نہیں تھے۔ قائداعظم کے انکار سے سب ہی شش وپنج میں پڑ گئے، لہٰذا فوری طور پر یہ تجویز پیش کی گئی کہ وہ سوٹ کے ساتھ ٹوپی زیب سر کرکے اجلاس میں شریک ہوں۔ قائداعظم نے اس تجویز پر رضامندی ظاہری کی چناںچہ فوری طور پر کانپور کے مچھلی بازار کی ایک دکان سے ایک درجن سے زاید مختلف قسم کی ٹوپیاں لائی گئیں اور ان میں سے ایک ٹوپی ''جو ترکی ٹوپی'' تھی قائداعظم نے منتخب کرکے سر پر لگالی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ محمد علی جناح نے کسی عوامی اجتماع میں ایک ایسی ٹوپی پہن کر شرکت کی جو اس زمانے میں مسلم تشخص کی علامت تصور کی جاتی تھی۔
صوبہ سندھ کے نام ور مسلم لیگی راہ نما محمد ایوب کھوڑو نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک مضمون لکھا ہے کہ اکتوبر 1928 میں مجھے پہلی مرتبہ محمد علی جناح سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب وہ پیر صبغت اﷲ شاہ پگارا (موجودہ پیر مردان شاہ پگارا کے والد) کے مقدمے میں خصوصی مجسٹریٹ کی عدالت واقع سکھر میں بطور وکیل صفائی پیش ہونے کے لیے آئے تھے۔ اس دوران ان کا قیام سرکٹ ہاؤس سکھر میں تھا۔ مقدمے کی کارروائی سے جب وہ فارغ ہوئے تو سر عبداﷲ ہارون نے جو کراچی سے سکھر آگئے تھے خیرپور ہاؤس میں جناح کے اعزاز میں ایک ظہرانہ ترتیب دیا جس میں سکھر کے معزز شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی مدعو تھی۔ اس ظہرانے میں محمد علی جناح بہت جاذب نظر سیاہ اچکن، چوڑی دار سفید پاجامہ اور ''پمپ شوز'' جس کا اس زمانے میں بہت رواج تھا پہن کر شریک ہوئے تھے۔
1934 میں مسلم لیگ کی از سر نو صدارت قبول کرنے کے بعد ایک عرصے تک قائداعظم عموماً اچکن کے ساتھ چوڑی دار پائجامہ ہی استعمال کرتے تھے۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ کاٹھیارواڑ خصوصاً جونا گڑھ میں اس طرز کے پائجامے اچکن کے ساتھ پہنے جاتے تھے اور یہ لباس ایک اعتبار سے قائد اعظم کا آبائی لباس تھا۔ اکتوبر 1937 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس لکھنؤ میں بھی قائداعظم نے اسی لباس میں شرکت کی تھی۔ مرزا ابوالحسن اصفہانی نے لکھا ہے کہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے قائداعظم جب لکھنؤ پہنچے تو آپ کا قیام راجہ صاحب محمود آباد کی کوٹھی ''محمود آباد ہاؤس'' میں تھا۔ پہلے دن کے اجلاس سے ایک گھنٹہ قبل نواب محمد اسماعیل خان بھی وہاں پہنچ گئے۔
وہ حسب معمول بالکل بے عیب لباس میں تھے اور ایک سیاہ سموری ٹوپی زیب سر کیے ہوئے تھے۔ قائداعظم نواب صاحب کی اس ٹوپی کی طرف متوجہ ہوئے اور نواب صاحب سے فرمایا،''کیا آپ اسے تھوڑی دیر کے لیے مجھے دے سکتے ہیں۔'' نواب صاحب نے ٹوپی اتار کر قائداعظم کو دیتے ہوئے کہا کہ اسے زیب سر کرکے دیکھیے۔ قائداعظم نے اسے پہن لیا اور جب سب افراد نے تعریف کی تو ساتھ کے کمرے میں چلے گئے تاکہ آئینہ میں دیکھ کر اس کی موزونیت کا اندازہ لگاسکیں۔ جب دو منٹ بعد قائداعظم برآمدے میں واپس آئے تو سب کی خواہش پر انہوں نے یہی ٹوپی پہن کر اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کرلیا۔ مرزا ابوالحسن اصفہانی نے لکھا ہے کہ ''اجلاس میں قائداعظم کو ٹوپی اور اچکن میں دیکھ کر عوام کے چہرے کھل اٹھے اور انہوں نے ایسے فلک شگاف نعرے بلند کیے، جن کی گونج آج بھی مجھے سنائی دیتی ہے۔''
قائداعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید کا بیان ہے کہ قائد اعظم 1937 کے بعد مسلم لیگ یونیورسٹی علی گڑھ کے طالب علموں سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے تھے اور اکثر علی گڑھ جاتے رہتے تھے۔ ابتدائً آپ نے علی گڑھ کاٹ شیروانی پہنی اور یہ شیروانیاں علی گڑھ کے ہی ایک درزی کے پاس سے سل کر آتی تھیں۔ وہ انگریزی لباس میں ہوتے یا شیروانی میں ان کی شخصیت ہر لباس میں پروقار اور جاذب نظر ہوتی تھی۔ آپ بیشتر ریشم کا یا سوتی لباس زیب تن کرتے تھے۔ آپ کے لباس کا ستھرا پن دراصل آپ کی باطنی صفائی کا بھی آئینہ دار تھا۔ بیگم جہاں آراء شاہ نواز نے لکھا ہے کہ قائداعظم نہایت بے عیب لباس زیب تن کرتے تھے۔
سر اکبر حیدری کی صاحبزادی اور جسٹس بدرالدین طیب جی کے صاحبزادے حاتم بھائی طیب جی کی اہلیہ نیاپنے ایک انٹرویو میں کہا،''لباس کے بارے میں تو بڑے بڑے خوش لباسوں نے یہ کہا کہ جس سلیقے سے قائد اعظم لباس زیب تن کرتے تھے کسی اور کو نہیں دیکھا۔ نہایت صاف شفاف اور بے شکن لباس پہنتے۔ اگر کبھی سوٹ کے بجائے Combination پہنتے تو اس کا بھی انتخاب نہایت احتیاط اور سلیقے سے کرتے تھے۔ غرض ہر اعتبار و معیار سے قائداعظم ایک انتہائی خوش لباس آدمی تھے۔'' ان کے بحیثیت گورنر جنرل اے ڈی سی گروپ کیپٹن عطاربانی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ قائداعظم ہر لباس میں خوش نما اور دیدہ زیب لگتے تھے۔ ایک دن آپ کے لیے ایک ٹاٹ کی طرح کا سفید کپڑا خریدا گیا جو دیکھنے میں بالکل معمولی لگتا تھا ہم لوگوں نے سوچا اتنی بڑی شخصیت اور یہ کپڑا مگر جب پہلی مرتبہ اس کپڑے کا سوٹ قائداعظم نے پہنا تو میں بیان نہیں کرسکتا کہ وہ کپڑا کتنا خوبصورت لگ رہا تھا۔
ایک انگریزی صحافی اور ''Indian Summar'' نامی کتاب کے مصنف جیمز کیمرون نے قائداعظم کی نفاست پسندی کا ذاتی مشاہدہ اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ 1945 میں محمد علی جناح کا انٹرویو کرنے گیا۔ جناح نہایت شان دار سوٹ میں ملبوس تھے۔ سوٹ کی سلائی اور ایک ایک ٹانکے سے نفاست عیاں تھی استری اس انداز سے ہوئی تھی کہ سوٹ کی ہر کریز تلوار کی طرح دھارلیے ہوئے تھے۔ اعلیٰ قسم کے لینن کے سوٹ میں ان کی آہنی شخصیت بڑی متاثرکن لگ رہی تھی۔
گفتگو کے آغاز کو ابھی شاید آدھا گھنٹہ ہوا تھا کہ اچانک قائداعظم خاموش ہوگئے اور ان کا چہرہ زرد ہوگیا۔ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں معذرت چاہی اور اٹھ کر اندر گھر میں چلے گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ شاید ان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے۔ میں ابھی گومگوں کی کیفیت میں تھا کہ وہ مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور پھر خود کلامی کے انداز میں معذرت کرتے ہوئے میرے مقابل بیٹھ گئے۔ انہوں نے میز پر رکھے ہوئے اپنے نوٹس اٹھائے اور پھر کہنے لگے،''میں معذرت خواہ ہوں اس تعطل کے لیے۔ میرے ملازم نے بے وقوفوں کی طرح میری قمیض کے آستینوں میں غلط کف لنکس لگادیے تھے۔ بہر حال کوئی بات نہیں اب درست ہوگئے ہیں۔''
پروفیسر شریف المجاہد نے لکھا ہے کہ ''1937 کے بعد جناح نے مسلم لیگ کے اجلاسوں، کانفرنسوں اور عوامی اجتماعات میں اچکن اور تنگ پائجامہ پہن کر شرکت کرنا شروع کردی تھی، لیکن 1943 کے بعد پنجاب میں خضر حیات کے اعلان بغاوت سے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ پنجاب اور سرحد کی طرف مبذول کردی۔ اسی دور میں انہوں نے نیچی شیروانی اور پنجابی شلوار کا استعمال شروع کیا۔ شاید اس خیال سے کہ وہ ان صوبوں کے عوام سے با اعتبار لباس بھی مماثلت اور قربت اختیار کرسکیں۔ اگست 1947 کے بعد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے بھی آپ نے آزادی کی تقریبات میں شیروانی، شلوار اور جناح کیپ پہن کر ہی شرکت کی۔''
قائداعظم پیپرز میں ایک خط ایسا بھی موجود ہے جس میں قائداعظم نے مسلمانوں کے لباس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ بانکی پور پٹنہ کے ایک شخص سمیع احمد کے خط کے جواب میں انہوں نے سری نگری کشمیر سے 29 مئی 1944 کو اپنے خط میں لکھا،'' ہندوستان میں ایک لباس کا کوئی تصور نہیں ہے حتیٰ کہ مسلمانوں کے ہاں بھی بلاشبہہ لباس اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے لیے ایک ہی لباس ہو تو میرا خیال ہے کہ وہ لباس قومی علامت کے طور پر ظاہر ہوگا۔''
جہاں مورخین نے ان کی سیاسی بصیرت کو موضوع بنایا ہے وہاں جزوی طور پر اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے کہ قائداعظم کی خوش پوشاکی بھی ان کی شخصیت کا ایک ایسا جزو تھی جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے اپنے مضمون میں قائد اعظم کی خوش پوشاکی اور لباس کے حوالے سے ان کی طبیعت کی نفاست کا ایک سرسری جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
لباس کے حوالے سے قائد اعظم کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح دسمبر 1876 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ یہ شہر اس وقت نہ صرف بمبئی پریسیڈنسی کا حصہ تھا بلکہ ساحلی شہر ہونے کی بناء پر تجارتی مرکز بھی تھا، لہٰذا یہاں نہ صرف مختلف اقوام کے افراد آباد تھے بلکہ تجارتی مقاصد کے لیے اندرون و بیرون ہند سے بھ لوگ آتے رہتے تھے۔ انگریزوں کی بھی ایک بڑی تعداد یہاں آباد تھی۔ چناں چہ یہاں کی مقامی آبادی کے وہ افراد جو تجارت سے وابستہ تھے انگریزوں سے آشنا ہونے کے ساتھ ہی ساتھ انگریزی لباس سے بھی کسی حد تک مانوس ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں کراچی کے ایک حصہ میں ''اینگلو انڈینز'' کی بھی ایک بڑی تعداد مقیم تھی جن کی زبان اور لباس تقریباً وہی تھا جو انگریزوں کا تھا۔ اس لیے خصوصاً تجارت پیشہ اور جدید تعلیم یافتہ افراد کے لباس میں ''کوٹ پتلون'' شامل تھا۔ البتہ سلطنت عثمانیہ ترکی سے مسلمانان ہند کی مذہبی ہم آہنگی کی بنا پر مسلمانوں کے لباس میں ''ترکی ٹوپی'' بھی شامل ہوا کرتی تھی، جسے وہ ہر قسم کے لباس کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ قائداعظم کے والد جناح پونجا چوںکہ تجارت پیشہ تھے اور انگریزوں سے قریبی رابطے میں رہتے تھے، اس لیے وہ نہ صرف انگریزی زبان سے آشنا تھے بلکہ ان کا لباس بھی کوٹ پتلون اور ٹائی پر مشتمل تھا۔ کراچی کے اس ماحول میں قائد اعظم بھی نہ صرف بچپن سے ہی اس لباس سے آشنا تھے، بلکہ اپنے زمانہ طالب علمی میں یہی لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔
1892 میں محمد علی جناح انگلینڈ چلے گئے، جہاں ان کو بزنس ایڈمنسٹریشن کی تربیت حاصل کرنا تھی، لیکن انہوں نے لنکزان میں داخلہ لے لیا اور بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ لندن میں قیام کے دوران ان کو ''کوٹ
پتلون اور ٹائی'' کا مستقل استعمال کرنا پڑا، جس کی بنا پر اس لباس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے بھی وہ آشنا ہوگئے۔ 1896 میں لندن سے واپس آکر محمد علی جناح نے بمبئی میں سکونت اختیار کی اور بطور پیشہ وکالت کا آغاز کیا۔ بمبئی میں پارسیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی آبادی نہ صرف با اثر اور متمول تھی، بلکہ انگریزوں سے اپنے قریبی روابط کی بنا پر انگریزی ثقافت کو اختیار کرنا زیادہ معیوب تصور نہیں کرتی تھی۔ بحیثیت وکیل محمد علی جناح کا واسطہ بمبئی کی آبادی کے اسی طبقے سے تھا، اس لیے ان کو لندن سے ہندوستان واپس آکر لباس کے انتخاب کے سلسلے میں کسی تردد کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ اپنی عدالتی و سماجی ضرورتوں کے پیش نظر کوٹ پتلون، ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کرتے رہے۔
نتیجتاً جب 1906 میں وہ اپنی سیاسی زندگی میں داخل ہوئے تو یہ لباس آہستہ آہستہ ان کی شخصیت سے بڑی حد تک مشروط ہوگیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی لباس کے سلسلے میں نفاست پسندی اور جامہ زیبی ایسی مشہور ہوگئی کہ لارڈ چمسفورڈ اور لارڈ ہارڈنگ جیسے ہندوستان کے وائسرائے بھی ان کی خوش لباسی سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے متعدد بار اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ہندوستان میں انہوں نے جناح کی طرح نفاست پسند اور جامہ زیب کوئی دوسرا آدمی نہیں دیکھا۔ لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ نے تو ایک خط میں جناح کے بارے میں اپنی والدہ کو لکھا کہ ''بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کو عموماً خوش لباسی اور جامہ زیبی میں لائیڈ جارج تصور کیا جاتاہے۔''
1913 میں آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستگی کے بعد بھی محمد علی جناح انگریزی لباس استعمال کرتے رہے۔ ویسے بھی یہ لباس اس زمانے میں جدید تعلیم اور روشن خیالی کی علامت کے طور پر ظاہر ہوا تھا اس لیے تقریباً تمام مسلمان راہ نما بلاتکلف یہی لباس استعمال کرتے تھے۔ یہاں دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ انیسویں کے اواخر نصف اور بیسویں صدی کے اوائل میں عام طور پر وکالت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ناموں کے ساتھ ''مولانا'' اور مولوی کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ عام طور پر یہ تصور بھی کیا جاتا تھا کہ جو شخص مسلمانوں کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دے گا وہ ''مولوی'' یا ''مولانا'' ہوگا۔ اسی عمومی تاثر کے تحت محمد علی جناح کو متعدد بار مولانا لکھا گیا۔ اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ آل انڈیا مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری سید شمس الحسن نے اپنی کتاب Plain Mr. Jinnah میں درج کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1916 میں پہلی مرتبہ آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس بیک وقت ایک ہی مقام یعنی لکھنؤ میں منعقد ہوئے۔
پروگرام کے مطابق ان دونوں جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس بھی ہونا تھا، جس کی صدارت محمد علی جناح کو کرنا تھی۔ اس اجلاس کو کام یاب بنانے کے لیے اور اس اجلاس کی تشہیر کے لیے مسلم لیگ کے آفس نے جو پوسٹر شایع کیے تھے ان میں محمد علی جناح کے نام کے آگے ''مولانا'' کا خطاب استعمال کیا گیا تھا، جب کہ قائد اعظم ہلکے بادامی رنگ کا نہایت نفیس سوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے جس میں وہ ''مولانا'' کے بجائے یورپ کے لارڈ نظر آرہے تھے۔ دوران استقبال کانپور کے اسٹیشن پر یہ بات مسلم لیگ کے تقریباً تمام راہ نماؤں نے محسوس کی۔ چناں چہ مسلم لیگ کے ایک راہ نما سید وزیر حسن نے قائد اعظم کو تجویز پیش کی کہ وہ شیروانی پہن کر اجلاس میں شرکت کریں تاکہ پوسٹر میں لکھے ہوئے خطاب ''مولانا'' کی وقعت رہ جائے۔
قائداعظم چوں کہ صاف گو اور اصولی انسان تھے لہٰذا انہوں نے کوئی ایسا لباس زیب تن کرنے سے انکار کردیا جس کے روایتی آداب سے وہ واقف نہیں تھے۔ قائداعظم کے انکار سے سب ہی شش وپنج میں پڑ گئے، لہٰذا فوری طور پر یہ تجویز پیش کی گئی کہ وہ سوٹ کے ساتھ ٹوپی زیب سر کرکے اجلاس میں شریک ہوں۔ قائداعظم نے اس تجویز پر رضامندی ظاہری کی چناںچہ فوری طور پر کانپور کے مچھلی بازار کی ایک دکان سے ایک درجن سے زاید مختلف قسم کی ٹوپیاں لائی گئیں اور ان میں سے ایک ٹوپی ''جو ترکی ٹوپی'' تھی قائداعظم نے منتخب کرکے سر پر لگالی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ محمد علی جناح نے کسی عوامی اجتماع میں ایک ایسی ٹوپی پہن کر شرکت کی جو اس زمانے میں مسلم تشخص کی علامت تصور کی جاتی تھی۔
صوبہ سندھ کے نام ور مسلم لیگی راہ نما محمد ایوب کھوڑو نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک مضمون لکھا ہے کہ اکتوبر 1928 میں مجھے پہلی مرتبہ محمد علی جناح سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب وہ پیر صبغت اﷲ شاہ پگارا (موجودہ پیر مردان شاہ پگارا کے والد) کے مقدمے میں خصوصی مجسٹریٹ کی عدالت واقع سکھر میں بطور وکیل صفائی پیش ہونے کے لیے آئے تھے۔ اس دوران ان کا قیام سرکٹ ہاؤس سکھر میں تھا۔ مقدمے کی کارروائی سے جب وہ فارغ ہوئے تو سر عبداﷲ ہارون نے جو کراچی سے سکھر آگئے تھے خیرپور ہاؤس میں جناح کے اعزاز میں ایک ظہرانہ ترتیب دیا جس میں سکھر کے معزز شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی مدعو تھی۔ اس ظہرانے میں محمد علی جناح بہت جاذب نظر سیاہ اچکن، چوڑی دار سفید پاجامہ اور ''پمپ شوز'' جس کا اس زمانے میں بہت رواج تھا پہن کر شریک ہوئے تھے۔
1934 میں مسلم لیگ کی از سر نو صدارت قبول کرنے کے بعد ایک عرصے تک قائداعظم عموماً اچکن کے ساتھ چوڑی دار پائجامہ ہی استعمال کرتے تھے۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ کاٹھیارواڑ خصوصاً جونا گڑھ میں اس طرز کے پائجامے اچکن کے ساتھ پہنے جاتے تھے اور یہ لباس ایک اعتبار سے قائد اعظم کا آبائی لباس تھا۔ اکتوبر 1937 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس لکھنؤ میں بھی قائداعظم نے اسی لباس میں شرکت کی تھی۔ مرزا ابوالحسن اصفہانی نے لکھا ہے کہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے قائداعظم جب لکھنؤ پہنچے تو آپ کا قیام راجہ صاحب محمود آباد کی کوٹھی ''محمود آباد ہاؤس'' میں تھا۔ پہلے دن کے اجلاس سے ایک گھنٹہ قبل نواب محمد اسماعیل خان بھی وہاں پہنچ گئے۔
وہ حسب معمول بالکل بے عیب لباس میں تھے اور ایک سیاہ سموری ٹوپی زیب سر کیے ہوئے تھے۔ قائداعظم نواب صاحب کی اس ٹوپی کی طرف متوجہ ہوئے اور نواب صاحب سے فرمایا،''کیا آپ اسے تھوڑی دیر کے لیے مجھے دے سکتے ہیں۔'' نواب صاحب نے ٹوپی اتار کر قائداعظم کو دیتے ہوئے کہا کہ اسے زیب سر کرکے دیکھیے۔ قائداعظم نے اسے پہن لیا اور جب سب افراد نے تعریف کی تو ساتھ کے کمرے میں چلے گئے تاکہ آئینہ میں دیکھ کر اس کی موزونیت کا اندازہ لگاسکیں۔ جب دو منٹ بعد قائداعظم برآمدے میں واپس آئے تو سب کی خواہش پر انہوں نے یہی ٹوپی پہن کر اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کرلیا۔ مرزا ابوالحسن اصفہانی نے لکھا ہے کہ ''اجلاس میں قائداعظم کو ٹوپی اور اچکن میں دیکھ کر عوام کے چہرے کھل اٹھے اور انہوں نے ایسے فلک شگاف نعرے بلند کیے، جن کی گونج آج بھی مجھے سنائی دیتی ہے۔''
قائداعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید کا بیان ہے کہ قائد اعظم 1937 کے بعد مسلم لیگ یونیورسٹی علی گڑھ کے طالب علموں سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے تھے اور اکثر علی گڑھ جاتے رہتے تھے۔ ابتدائً آپ نے علی گڑھ کاٹ شیروانی پہنی اور یہ شیروانیاں علی گڑھ کے ہی ایک درزی کے پاس سے سل کر آتی تھیں۔ وہ انگریزی لباس میں ہوتے یا شیروانی میں ان کی شخصیت ہر لباس میں پروقار اور جاذب نظر ہوتی تھی۔ آپ بیشتر ریشم کا یا سوتی لباس زیب تن کرتے تھے۔ آپ کے لباس کا ستھرا پن دراصل آپ کی باطنی صفائی کا بھی آئینہ دار تھا۔ بیگم جہاں آراء شاہ نواز نے لکھا ہے کہ قائداعظم نہایت بے عیب لباس زیب تن کرتے تھے۔
سر اکبر حیدری کی صاحبزادی اور جسٹس بدرالدین طیب جی کے صاحبزادے حاتم بھائی طیب جی کی اہلیہ نیاپنے ایک انٹرویو میں کہا،''لباس کے بارے میں تو بڑے بڑے خوش لباسوں نے یہ کہا کہ جس سلیقے سے قائد اعظم لباس زیب تن کرتے تھے کسی اور کو نہیں دیکھا۔ نہایت صاف شفاف اور بے شکن لباس پہنتے۔ اگر کبھی سوٹ کے بجائے Combination پہنتے تو اس کا بھی انتخاب نہایت احتیاط اور سلیقے سے کرتے تھے۔ غرض ہر اعتبار و معیار سے قائداعظم ایک انتہائی خوش لباس آدمی تھے۔'' ان کے بحیثیت گورنر جنرل اے ڈی سی گروپ کیپٹن عطاربانی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ قائداعظم ہر لباس میں خوش نما اور دیدہ زیب لگتے تھے۔ ایک دن آپ کے لیے ایک ٹاٹ کی طرح کا سفید کپڑا خریدا گیا جو دیکھنے میں بالکل معمولی لگتا تھا ہم لوگوں نے سوچا اتنی بڑی شخصیت اور یہ کپڑا مگر جب پہلی مرتبہ اس کپڑے کا سوٹ قائداعظم نے پہنا تو میں بیان نہیں کرسکتا کہ وہ کپڑا کتنا خوبصورت لگ رہا تھا۔
ایک انگریزی صحافی اور ''Indian Summar'' نامی کتاب کے مصنف جیمز کیمرون نے قائداعظم کی نفاست پسندی کا ذاتی مشاہدہ اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ 1945 میں محمد علی جناح کا انٹرویو کرنے گیا۔ جناح نہایت شان دار سوٹ میں ملبوس تھے۔ سوٹ کی سلائی اور ایک ایک ٹانکے سے نفاست عیاں تھی استری اس انداز سے ہوئی تھی کہ سوٹ کی ہر کریز تلوار کی طرح دھارلیے ہوئے تھے۔ اعلیٰ قسم کے لینن کے سوٹ میں ان کی آہنی شخصیت بڑی متاثرکن لگ رہی تھی۔
گفتگو کے آغاز کو ابھی شاید آدھا گھنٹہ ہوا تھا کہ اچانک قائداعظم خاموش ہوگئے اور ان کا چہرہ زرد ہوگیا۔ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں معذرت چاہی اور اٹھ کر اندر گھر میں چلے گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ شاید ان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے۔ میں ابھی گومگوں کی کیفیت میں تھا کہ وہ مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور پھر خود کلامی کے انداز میں معذرت کرتے ہوئے میرے مقابل بیٹھ گئے۔ انہوں نے میز پر رکھے ہوئے اپنے نوٹس اٹھائے اور پھر کہنے لگے،''میں معذرت خواہ ہوں اس تعطل کے لیے۔ میرے ملازم نے بے وقوفوں کی طرح میری قمیض کے آستینوں میں غلط کف لنکس لگادیے تھے۔ بہر حال کوئی بات نہیں اب درست ہوگئے ہیں۔''
پروفیسر شریف المجاہد نے لکھا ہے کہ ''1937 کے بعد جناح نے مسلم لیگ کے اجلاسوں، کانفرنسوں اور عوامی اجتماعات میں اچکن اور تنگ پائجامہ پہن کر شرکت کرنا شروع کردی تھی، لیکن 1943 کے بعد پنجاب میں خضر حیات کے اعلان بغاوت سے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ پنجاب اور سرحد کی طرف مبذول کردی۔ اسی دور میں انہوں نے نیچی شیروانی اور پنجابی شلوار کا استعمال شروع کیا۔ شاید اس خیال سے کہ وہ ان صوبوں کے عوام سے با اعتبار لباس بھی مماثلت اور قربت اختیار کرسکیں۔ اگست 1947 کے بعد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے بھی آپ نے آزادی کی تقریبات میں شیروانی، شلوار اور جناح کیپ پہن کر ہی شرکت کی۔''
قائداعظم پیپرز میں ایک خط ایسا بھی موجود ہے جس میں قائداعظم نے مسلمانوں کے لباس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ بانکی پور پٹنہ کے ایک شخص سمیع احمد کے خط کے جواب میں انہوں نے سری نگری کشمیر سے 29 مئی 1944 کو اپنے خط میں لکھا،'' ہندوستان میں ایک لباس کا کوئی تصور نہیں ہے حتیٰ کہ مسلمانوں کے ہاں بھی بلاشبہہ لباس اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے لیے ایک ہی لباس ہو تو میرا خیال ہے کہ وہ لباس قومی علامت کے طور پر ظاہر ہوگا۔''