طب یونانی کی اہمیت کم نبض شناسی زوال کا شکار
طب یونانی نہایت سستا اورموثرعلاج سمجھا جاتا تھا، حکیم لقمان،حکیم سعید،حکیم اجمل خان، حکیم عبدالمجیدنے عالمی شہرت پائی۔
پاکستان سے نبض شناسی کا ہنر بتدریج ختم ہو رہا ہے جب کہ طب یونانی میں نبض شناسی طریقہ علاج میں مستند سمجھا جاتا تھا۔
1100 قبل مسیح میں حکیم لقمان نے حکمت میں نبض شناسی کا طریقہ روشناس کرایا تھا، جو عالمی سطح پر مقبول ہوا اور حکمت کے ذریعے انسانی زندگی کے تحفظ کو موثر طریقہ علاج بھی سمجھا جاتا تھا۔
طب یونانی کی اہمیت مسلمہ حقیقت تھی لیکن اس طریقہ علاج کی اہمیت کواجاگرکرنے اور اس کی مزید ترقی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا سکے جس کی وجہ سے طب یونانی طریقہ علاج بتدریج پستی اور زوال پذیر ہوتا گیا اور نبض کے ذریعے مرض کی تشخیص کرنے والا یہ شعبہ عملا ختم ہوگیا۔
طب یونانی طریقہ علاج نہایت سستا اور موثرسمجھا جاتا تھا رہا اوراس پیشے میں حکیم لقمان، حکیم محمد سعید، حکیم اجمل خان، حکیم عبدالمجید سمیت سیکٹروں اطبا نے عالمی شہرت بھی پائی، بدقسمتی سے اسے شعبے سے وابستہ اطبا نے اس پیشے کو مزید وسعت دی اور نہ ہی کوئی تحقیق کا شعبہ قائم کیا جس کی وجہ حکمت طریقہ علاج پاکستان میں زوال پزیر ہوتا گیا۔
طب یونانی کے ذریعے لاعلاج بیماریاں ٹھیک ہوتی ہیں، حکیم عبیداللہ
حکمت کا طریقہ علاج پستی کی جانب بڑھ رہا اس حوالے سے حکیم عبیداللہ نے بتایا کہ جس طرح زمانہ قدیم میں طب یونانی اور حکمت کو مستند سمجھا جاتا تھا اس طرح یہ اب بھی ہے، اب بھی اس طریقہ علاج میں ایسی بہت ساری بیماریاں جوکہ لاعلاج ہیں جن کو ایلوپیتھی ٹھیک کرنے سے قاصر ہے اور آپریشن کے بغیر ان کا کوئی حل نہیں اور آپریشن کے بعد بھی مریض ٹھیک نہیں ہوتا تو حکمت اس کا علاج کرتی ہے۔
طب یونانی اور حکمت کے ناپید ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ملک میں جو ہربل کمپنیاں موجود ہیں ان کی ملک میں اجارہ داری ہے، ہمارے حکیم ان ہربل کمپینیوں کی ادویات کو فروخت کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے حکمت کا شعبہ پستی اور زوال کا شکار ہے اطبا تحقیق نہیں کرتے اور ان کمپنیوں کی دوائوں پر انحصار کرتے ہیں۔
حکیم محمد سعید نے 1948 میں ہمدردکی بنیاد رکھی
مرحوم حکیم محمد سعید نے 1940 آیورویدک اینڈ یونانی طبی کالج دہلی سے بیچلرز آف ایسٹرن میڈیسن کی سند حاصل کی اور 28 جون 1948 کو ہمدرد پاکستان کی بنیاد رکھی، یکم جون 1964 کو ہمدرد فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا۔
1998 میں مشرقی و مغربی علوم کے فروغ کے لیے شہر کراچی میں 60 ایکڑ اراضی مدینہ الحکمت کے نام سے خریدی گئی اور 17 جون 1985 کو ہمدرد یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا جس کی افتتاحی تقریب میں حکیم محمد سعید کے برادر بزرگ حکیم عبدالحمید بھی موجود تھے، سندھ میں واحد ایسٹرن میڈیسن یونیورسٹی جہاں سے اطبا مستند تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
حکومت حکمت کی سرپرستی کے بجائے اس پرپابندیاں لگانے لگی
حکومت طب یونانی اور حکمت کے شعبے کی سرپرستی نہیں کرتی بلکہ مخلتف طریقوں سے اس پر پابندی لگادی جاتی ہے، حال ہی میں فارم 6 تیار کیا گیا ہے جس کے تحت کوئی حکیم دوا فروخت نہیں کر سکتا فارم 6 حاصل کرنا بہت مشکل ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں ہے اس کو حاصل کرنے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں اس میں اپنی کمپنی اوراپنی لیبارٹری ظاہر کرنا لازمی قرار دیاگیا ہے جس کے بعد فارم 6 حاصل کیا جاسکتا ہے، طبی کونسل میں موجود لوگ نااہل ہیں جو اطبا کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کیلئے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
تربیتی پروگراموں سے حکمت کے شعبے میں بہتری لاجاسکتی ہے
ملک میں اطبا کے تربیتی پروگرام منعقد نہیں کیے جاتے، معلوماتی سیشن کا فقدان ہے، تربیتی پروگراموں سے اس شعبے میں بہتری لا جا سکتی ہے، میڈیا کی بھی عدم دلچسپی ہے ،میڈیا اس شعبے کو پروموٹ نہیں کرتا۔، میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس شعبے پر توجہ دے ماہر نبض کو مدعو کیا جائے اور ان کے انٹرویو نشر کیے جائیں، ملک میں فارما کمپنیاں تیز سے ترقی کررہی ہیں لیکن اطبا کے پیشے کو فروغ کے لیے سرکاری سطح پر کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
مسلم اطباکے تجربات وتصانیف سے غیرمسلموں نے استفادہ کیا
مسلمان اطباکے تجربات وتصانیف سے غیرمسلموں نے استفادہ کرکے اس شعبے میں ترقی کی منازل طے کیں آج بلاشبہ ایلوپیتھک دوائوں کو مختلف جان لیوا امراض کے خلاف ایک غیرمعمولی مزاحمت تصور کیا جاتا ہے لیکن انگریزی دوائوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے نتیجے میں غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد طب یونانی کی جانب راغب ہورہی ہے۔
اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایلوپیتھک ادویہ کے مضر اثرات کے پیش نظر ان کا استعمال کم ہورہا ہے اور مغربی ملکوں کے شہریوں کا رجحان یونانی طریقہ علاج کی جانب بڑھتا جارہا ہے برصغیر پاک و ہند میں حکمت کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دینے والوں میں حکیم اجمل خاں، حکیم عبدالمجید اور ان کے صاحب زادوں، حکیم عبدالحمید اور حکیم سعید کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
پاکستان میں پیدا ہونے والی ہزاروں اقسام کی جڑی بوٹیاں ضائع ہو رہی ہیں
یکم اگست 1906 کو دہلی میں 100 روپے کی سرمایہ کاری سے ہمدرد دواخانہ قائم کیا، واضح رہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہ ،جو سطح سمندر سے 8 ہزار فٹ تک بلند ہے اور یہاں ہزاروں اقسام کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جو ضائع ہو رہی ہیں بدقسمتی سے ان جڑی بوٹیوں سے استفادہ نہیں کیا جارہا۔
دنیا بھر میں ایسی سبزیاں اگائی جا رہی ہیں جو غذا بھی ہوں گی اور دوا کے طور پر استعمال کی جارہی ہیں لیکن پاکستان میں سبزیوں پھلوں سے ادویات کی تیاری کا کوئی پلانٹ نہیں یہی وجہ ہے مارکیٹ میں درآمد کی جانے والی ہربل ادویات کی بھرمار ہے لیکن یونانی ادویات مارکیٹ میں ناپید ہیں تاہم چند مشہور برانڈز کی ادویات مشکل سے مل پاتی ہیں۔
1100 قبل مسیح میں حکیم لقمان نے حکمت میں نبض شناسی کا طریقہ روشناس کرایا تھا، جو عالمی سطح پر مقبول ہوا اور حکمت کے ذریعے انسانی زندگی کے تحفظ کو موثر طریقہ علاج بھی سمجھا جاتا تھا۔
طب یونانی کی اہمیت مسلمہ حقیقت تھی لیکن اس طریقہ علاج کی اہمیت کواجاگرکرنے اور اس کی مزید ترقی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا سکے جس کی وجہ سے طب یونانی طریقہ علاج بتدریج پستی اور زوال پذیر ہوتا گیا اور نبض کے ذریعے مرض کی تشخیص کرنے والا یہ شعبہ عملا ختم ہوگیا۔
طب یونانی طریقہ علاج نہایت سستا اور موثرسمجھا جاتا تھا رہا اوراس پیشے میں حکیم لقمان، حکیم محمد سعید، حکیم اجمل خان، حکیم عبدالمجید سمیت سیکٹروں اطبا نے عالمی شہرت بھی پائی، بدقسمتی سے اسے شعبے سے وابستہ اطبا نے اس پیشے کو مزید وسعت دی اور نہ ہی کوئی تحقیق کا شعبہ قائم کیا جس کی وجہ حکمت طریقہ علاج پاکستان میں زوال پزیر ہوتا گیا۔
طب یونانی کے ذریعے لاعلاج بیماریاں ٹھیک ہوتی ہیں، حکیم عبیداللہ
حکمت کا طریقہ علاج پستی کی جانب بڑھ رہا اس حوالے سے حکیم عبیداللہ نے بتایا کہ جس طرح زمانہ قدیم میں طب یونانی اور حکمت کو مستند سمجھا جاتا تھا اس طرح یہ اب بھی ہے، اب بھی اس طریقہ علاج میں ایسی بہت ساری بیماریاں جوکہ لاعلاج ہیں جن کو ایلوپیتھی ٹھیک کرنے سے قاصر ہے اور آپریشن کے بغیر ان کا کوئی حل نہیں اور آپریشن کے بعد بھی مریض ٹھیک نہیں ہوتا تو حکمت اس کا علاج کرتی ہے۔
طب یونانی اور حکمت کے ناپید ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ملک میں جو ہربل کمپنیاں موجود ہیں ان کی ملک میں اجارہ داری ہے، ہمارے حکیم ان ہربل کمپینیوں کی ادویات کو فروخت کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے حکمت کا شعبہ پستی اور زوال کا شکار ہے اطبا تحقیق نہیں کرتے اور ان کمپنیوں کی دوائوں پر انحصار کرتے ہیں۔
حکیم محمد سعید نے 1948 میں ہمدردکی بنیاد رکھی
مرحوم حکیم محمد سعید نے 1940 آیورویدک اینڈ یونانی طبی کالج دہلی سے بیچلرز آف ایسٹرن میڈیسن کی سند حاصل کی اور 28 جون 1948 کو ہمدرد پاکستان کی بنیاد رکھی، یکم جون 1964 کو ہمدرد فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا۔
1998 میں مشرقی و مغربی علوم کے فروغ کے لیے شہر کراچی میں 60 ایکڑ اراضی مدینہ الحکمت کے نام سے خریدی گئی اور 17 جون 1985 کو ہمدرد یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا جس کی افتتاحی تقریب میں حکیم محمد سعید کے برادر بزرگ حکیم عبدالحمید بھی موجود تھے، سندھ میں واحد ایسٹرن میڈیسن یونیورسٹی جہاں سے اطبا مستند تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
حکومت حکمت کی سرپرستی کے بجائے اس پرپابندیاں لگانے لگی
حکومت طب یونانی اور حکمت کے شعبے کی سرپرستی نہیں کرتی بلکہ مخلتف طریقوں سے اس پر پابندی لگادی جاتی ہے، حال ہی میں فارم 6 تیار کیا گیا ہے جس کے تحت کوئی حکیم دوا فروخت نہیں کر سکتا فارم 6 حاصل کرنا بہت مشکل ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں ہے اس کو حاصل کرنے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں اس میں اپنی کمپنی اوراپنی لیبارٹری ظاہر کرنا لازمی قرار دیاگیا ہے جس کے بعد فارم 6 حاصل کیا جاسکتا ہے، طبی کونسل میں موجود لوگ نااہل ہیں جو اطبا کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کیلئے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
تربیتی پروگراموں سے حکمت کے شعبے میں بہتری لاجاسکتی ہے
ملک میں اطبا کے تربیتی پروگرام منعقد نہیں کیے جاتے، معلوماتی سیشن کا فقدان ہے، تربیتی پروگراموں سے اس شعبے میں بہتری لا جا سکتی ہے، میڈیا کی بھی عدم دلچسپی ہے ،میڈیا اس شعبے کو پروموٹ نہیں کرتا۔، میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس شعبے پر توجہ دے ماہر نبض کو مدعو کیا جائے اور ان کے انٹرویو نشر کیے جائیں، ملک میں فارما کمپنیاں تیز سے ترقی کررہی ہیں لیکن اطبا کے پیشے کو فروغ کے لیے سرکاری سطح پر کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
مسلم اطباکے تجربات وتصانیف سے غیرمسلموں نے استفادہ کیا
مسلمان اطباکے تجربات وتصانیف سے غیرمسلموں نے استفادہ کرکے اس شعبے میں ترقی کی منازل طے کیں آج بلاشبہ ایلوپیتھک دوائوں کو مختلف جان لیوا امراض کے خلاف ایک غیرمعمولی مزاحمت تصور کیا جاتا ہے لیکن انگریزی دوائوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے نتیجے میں غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد طب یونانی کی جانب راغب ہورہی ہے۔
اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایلوپیتھک ادویہ کے مضر اثرات کے پیش نظر ان کا استعمال کم ہورہا ہے اور مغربی ملکوں کے شہریوں کا رجحان یونانی طریقہ علاج کی جانب بڑھتا جارہا ہے برصغیر پاک و ہند میں حکمت کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دینے والوں میں حکیم اجمل خاں، حکیم عبدالمجید اور ان کے صاحب زادوں، حکیم عبدالحمید اور حکیم سعید کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
پاکستان میں پیدا ہونے والی ہزاروں اقسام کی جڑی بوٹیاں ضائع ہو رہی ہیں
یکم اگست 1906 کو دہلی میں 100 روپے کی سرمایہ کاری سے ہمدرد دواخانہ قائم کیا، واضح رہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہ ،جو سطح سمندر سے 8 ہزار فٹ تک بلند ہے اور یہاں ہزاروں اقسام کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جو ضائع ہو رہی ہیں بدقسمتی سے ان جڑی بوٹیوں سے استفادہ نہیں کیا جارہا۔
دنیا بھر میں ایسی سبزیاں اگائی جا رہی ہیں جو غذا بھی ہوں گی اور دوا کے طور پر استعمال کی جارہی ہیں لیکن پاکستان میں سبزیوں پھلوں سے ادویات کی تیاری کا کوئی پلانٹ نہیں یہی وجہ ہے مارکیٹ میں درآمد کی جانے والی ہربل ادویات کی بھرمار ہے لیکن یونانی ادویات مارکیٹ میں ناپید ہیں تاہم چند مشہور برانڈز کی ادویات مشکل سے مل پاتی ہیں۔