قائد اعظم کی یاد میں
قائد اعظم نے اپنی زندگی کے تمام فیصلے سوائے پہلی شادی کے خود کیے۔۔۔
QUETTA:
قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف یہ کہ پاکستان کے بانی تھے بلکہ ان کی تمام زندگی لوگوں کے سامنے گراں قدر رہنما اصول مرتب کرتی ہے، آپ کے اندر خدا داد صلاحیتیں موجود تھیں اور آپ بلا شبہ ایک پیدائشی رہنما تھے۔ ان کی نجی اور سیاسی زندگی کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو ان کے اعلیٰ تدبر، قائدانہ صلاحیت، منفرد مزاج اور رویے کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں، مگر ان کے یہ واقعات عام طورپر بیان نہیں کیے گئے اور لکھنے والوں نے بھی ان پر زیادہ توجہ نہ دی۔ ایسے ہی کچھ واقعات پر میں نے اس مختصر مضمون میں روشنی ڈالی ہے۔
قائد اعظم نے اپنی زندگی کے تمام فیصلے سوائے پہلی شادی کے خود کیے۔ مگر نو عمری کی اس پہلی شادی میں بھی ان کا اعلیٰ تدبیر اور فراست بخوبی نظر آتے ہیں۔ قائد اعظم کی پہلی شادی ان کے خاندان کی ہی ایک نو عمر لڑکی ایمی بائی سے ہوئی جسے وہ اپنے والدین کے ساتھ ہندوستان سے اپنے آبائی علاقے سے بیاہ کرکے کراچی لائے تھے۔ نکاح کے بعد آپ اور آپ کا خاندان چند روز وہاں پر ہی ٹھہرا تھا۔ لڑکی کے والدین فوری رخصتی کے لیے تیار نہ تھے، جب کہ مسٹر جناح کے والدین لڑکی کو اپنے ساتھ ہی رخصت کرواکر لے جانا چاہتے تھے۔ کیوںکہ وہ اپنے صاحبزادے محمد علی جناح کو بزنس کی تعلیم و تربیت کے لیے فوری طورپر لندن بھیج رہے تھے۔ اس امر پر دونوں فریقین کے مابین سخت رنجش اور کشمکش کی صورت پیدا ہوگئی۔ ایسے میں نو عمر محمد علی جناح ایک دن اپنے والدین کو بتائے بغیر صبح صبح اپنے سسر کے گھر اکیلے پہنچ گئے۔ سسرال والے داماد کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور بڑی آؤ بھگت کی اور محمد علی جناح نے بڑی فراست اور ہمت سے اپنے سسر کو اپنی لڑکی جو مسٹر جناح کی بیوی بن چکی تھی کی فوری رخصتی کے لیے تیار کرلیا۔ اس طرح وہ مسئلہ جو طرفین کے بزرگ کئی دنوں میں نہ حل کرسکے تھے مسٹر جناح کے تدبر اور صلاحیتوں سے منٹوں میں حل ہوگیا۔
مسٹر جناح کے والدین نے انہیں کاروبار کی تعلیم و تربیت کے لیے لندن بھیجا تھا۔ وہاں کچھ عرصہ آپ نے گراھم کمپنی میں کام کیا جہاں انہیں حساب کتاب کو دیکھنا پڑتا تھا اور حسابات کو ملانا بھی پڑتاتھا ۔ مسٹر جناح چند ہی روز میں اس کام سے اکتا گئے وہ اسے ایک نچلے درجے کا اور ماتحت کام سمجھتے تھے جو ان کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتا تھا۔ چنانچہ انہوںنے خود ہی اس کام کو چھوڑ کر بیرسٹر بننے کا فیصلہ کیا اور اپنے والد کو اپنے اس فیصلے سے آگاہ کردیا۔
بیرسٹری کی تعلیم کے لیے محمد علی جناح نے لندن میں لنکنزان کا انتخاب کیا جس کے بارے میں قائد اعظم نے بعد ازاں اظہار کیا کہ انہوں نے بیرسٹری کی تعلیم کے لیے لنکنزان کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ اس کے صدر دروازے پر ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام دنیا کے عظیم قانون دینے والوں میں سب سے اوپر کنندہ تھا۔
قائد اعظم کی سیاسی زندگی کا آغاز 1904 سے ہوتا ہے جب انہیں بمبئی کارپوریشن کارکن منتخب کیا گیا۔ پہلے انہیں اس عہدے کے لیے نامزد کیا گیا تھا مگر انہوں نے اپنی نامزدگی کو مسترد کردیا اور فرمایا کہ میں انتخاب لڑوںگا۔ چنانچہ انہوں نے اس کے لیے انتخاب لڑا اور کامیاب قرار پائے۔
قائد اعظم نے جب اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ مسلم قانون وقف اولاد کی بحالی تھا جسے برطانوی حکومت ہند نے منسوخ کردیا تھا اور مسلمان اسلامی قانون کے مطابق اپنی جائیداد وقف کرنے سے محروم ہوگئے تھے۔ جسٹس سید امیر علی اور سرسید احمد خان نے بھی مسلم قانون وقف اولاد کی بحالی کے لیے بڑی کوششیں کیں مگر انہیں اس ضمن میں کامیابی نہ ہوئی۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ اس وقت کے مسلمانوں نے ابتداء میں اس کے لیے مسٹر جناح سے رجوع نہیں کیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ مسٹر جناح نے اکتوبر 1906میں کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی تھی (اس وقت تک آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں نہیں آیاتھا) اور مشہور کانگریسی قائدین مثلاً گوپال کرشنا گوکھلے، دادا بھائی نورو جی، فیروز شاہ مہتا اور بدر الدین طیب جی جیسے کانگریسی رہنماؤں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ چنانچہ اس وقت کے مسلمان عام طورپر انہیں کانگریسی لیڈر خیال کرتے تھے لیکن یہ بات بھی بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ مسٹر جناح کی پہلی سیاسی تقریر جو انہوں نے دسمبر 1906میں کانگریس کے اجلاس میں کی وہ مسلمانوں کے حقوق سے متعلق تھی اور وہ تھا مسلم وقف اولاد کا قانون جس پر انہوں نے کانگریس میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد کی بھرپور حمایت کی تھی اور مسٹر جناح کا ہی کارنامہ تھا کہ انہوںنے ہندوستان کی مجلس قانون سازی میں وقف اولاد کا مقدمہ لڑا اور 1913میں مسلمانوں کا مسلم وقف اولاد قانون برطانوی حکومت ہند سے بحال کروایا۔
مسٹر جناح کی پہلی بیوی لندن میں ان کی تعلیم کے دوران ہی وفات پاگئیں تھیں۔ ان کی دوسری شادی کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے، نوعمر رتن پیٹٹ جنہیں بمبئی کا گلاب کہاجاتاتھا۔ بمبئی کے کروڑ پتی سرڈنشاپیٹٹ کی اکلوتی صاحبزادی تھیں۔ محمد علی جناح کے سرڈنشاپیٹٹ سے دوستانہ تعلقات تھے اور وہ ان کے گھر پر بھی اکثر جاتے تھے، ایسے میں رتن پیٹٹ نے خود اپنی مرضی سے مسٹر جناح کو اپنی زندگی کا ساتھی منتخب کرلیا۔ ابتدا میں مسٹر جناح نے انہیں بہت سمجھایا اور اس خیال سے باز رہنے کی تنبیہ بھی کی مگر جب وہ نہ مانیں تو پھر مسئلہ ان کے والدین کو راضی کرنا تھا۔ جوان دونوں کی شادی پر کسی طرح بھی آمادہ نہ ہوسکتے تھے۔ مسٹر جناح کی اکثر سرڈنشاپیٹٹ سے سیاسی موضوعات پر طویل گفتگو ہوتی تھی۔ ایک دن مسٹر جناح نے باتوں باتوں میں سرڈنشاپیٹٹ سے ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ان کی رائے پوچھی جس پر سرڈنشاپیٹٹ نے اچھی خاصی تقریر کر ڈالی پھر مسٹر جناح نے ہندوستان میں مختلف اقلیتوں کے مابین شادی بیاہ کے بارے میں ان کی رائے پوچھی۔ جسے سرڈنشاپیٹٹ نے ایک اچھی پیش رفت قرار دیا جس سے آپس میں اتحاد قائم ہوسکتا تھا۔ اس پر فوراً مسٹر جناح کھڑے ہوگئے اور ان سے کہا بہت اچھی بات ہے پھر اپنی لڑکی کا ہاتھ مجھے دے دیجیے، سرڈنشاپیٹٹ لاجواب ہوگئے اور رتن پیٹٹ رتی جناح بن گئیں۔ شادی سے قبل مسٹر جناح نے انہیں مسلمان کیا اور انہوںنے 18اپریل 1918کو مولانا نظام احمد قدوائی کے ہاتھ پر شہر کی جامع مسجد میں اسلام قبول کیا اور 19اپریل 1918کو مسٹر جناح کے عقد میں آگئیں۔
ڈاکٹر ضیاء الدین قائد اعظم سے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسمبلی میں انشورنس بل زیر بحث تھا۔ ڈاکٹر ضیاء الدین بھی اس وقت اسمبلی کے رکن تھے ایک انشورنس کے متعلق با اثر شخص نے ان سے رابطہ کیا کہ اگر وہ اس بل میں اس کی ایک مطلوبہ ترمیم پیش کردیں تو وہ ان کی علی گڑھ یونیورسٹی کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے کا عطیہ دے گا۔ ڈاکٹر ضیاء الدین اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی تھے۔ انہوں نے اس انشورنس نمائندے سے کہاکہ وہ قائد اعظم سے مشورہ کرکے اس کا جواب دیں گے پھر قائد اعظم سے اس سلسلے میں مشورہ کیا تو قائد اعظم نے ان سے کہاکہ یونیورسٹی کے وقار پر کسی بھی قسم کے سودے بازی نہ کریں۔ چنانچہ ڈاکٹر ضیاء الدین نے انشورنس سے متعلق نمائندے کی پیشکش ٹھکرادی اور اس کی مطلوبہ ترمیم پیش کرنے سے انکار کردیا۔
قائد اعظم نے اپنی زندگی خود بنائی ان کے پاس جو کچھ تھا وہ انہوں نے اپنے محنت سے کمایا وہ کامیاب وکیل اور بیرسٹر تھے، انہوں نے برطانوی حکومت ہند کی کبھی ملازمت نہیں کی، ایک دفعہ انہیں جج کے عہدے پر فائز کیا جارہاتھا جو انہوں نے منظور نہیں کیا۔ اس طرح انہوں نے حکومت کا کوئی ٹائٹل قبول نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے پوری زندگی میں صرف ایک خطاب یا ٹائٹل قبول کیا اور وہ تھا قائد اعظم جو انہیں ان کے عوام یعنی مسلمانوں نے دیا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں کی بے لوث خدمت کی اور بڑی جد وجہد اور انتھک محنت سے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ان کے لیے ایک علیحدہ ملک پاکستان کا قیام عمل میں لائے۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد جب آپ گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تو انہوںنے اس سرکاری عہدے کی کوئی تنخواہ قبول نہیں کی۔
میں اپنا مضمون اس مصرع پر ختم کرتی ہوں:
''اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر''