افغانستان میں آسٹریلوی فوجیوں نے 39 شہری قتل کیے رپورٹ

آسٹریلوی فوجیوں کے خلاف افغانی عوام سے بدسلوکی، بدتمیزی اور تشدد کے سنگین الزامات بھی ریکارڈ پر ہیں


ویب ڈیسک November 19, 2020
آسٹریلوی فوجیوں کے خلاف افغانی عوام سے بدسلوکی، بدتمیزی اور تشدد کے سنگین الزامات بھی ریکارڈ پر ہیں۔ (فوٹو: وکی میڈیا/ وکی پیڈیا)

آسٹریلوی حکومت نے چار سالہ تفتیش کے بعد اقرار کیا ہے کہ افغانستان میں تعینات آسٹریلوی فوجیوں نے وہاں کم از کم 39 افراد کو قتل کیا ہے جن میں قیدیوں کے علاوہ کسان اور عام شہری بھی شامل ہیں۔

2016 میں یہ تفتیش افغانستان میں اتحادی فوجیوں کے جنگی جرائم کے حوالے سے آسٹریلوی میڈیا میں آنے والی خبروں کے بعد شروع کی گئی جو اس ہفتے مکمل ہوئی ہے اور آج اس کی حتمی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔

یہ تفتیش نیو ساؤتھ ویلز سپریم کورٹ کے جج پال بریریٹن کی سربراہی میں کی گئی جس میں چار سال کے دوران 423 گواہوں کے انٹرویو کیے گئے جبکہ 20 ہزار سے زائد دستاویزات اور تقریباً 25 ہزار تصاویر کا تجزیہ کیا گیا۔

آسٹریلوی فوج کے سربراہ جنرل ایگنس کیمبل نے اس تفتیش کی تفصیل بتاتے ہوئے اپنے فوجیوں کے جنگی جرائم کا اعتراف کیا اور افغان عوام سے غیر مشروط معافی بھی مانگی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تعینات ''اسپیشل ایئر سروس رجمنٹ'' کے آسٹریلوی اہلکاروں کو جنگی جرائم میں سب سے زیادہ ملوث پایا گیا۔

آسٹریلین ڈیفنس فورس کے انسپکٹر جنرل جیمس گینور نے بھی اس بارے میں میڈیا کو بتایا کہ ان تمام جرائم کا ارتکاب ''غیر جنگی حالات'' میں کیا گیا جو ہر لحاظ سے غیر قانونی اور غیر انسانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام شہریوں اور زیرِ حراست قیدیوں کو قتل کرنے کے علاوہ آسٹریلوی افواج کے خلاف افغانی عوام سے بدسلوکی، بدتمیزی اور سفاکی جیسے سنگین الزامات بھی ریکارڈ پر ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ان الزامات کی تفتیش کی جائے گی یا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں