انسان کے مقابلے میں سیکڑوں گنا تیزی سے پیکنگ کرنے والا روبوٹ
گوداموں میں اشیا کی شناخت اور اسے ٹھیک مقام پر رکھنے والا روبوٹ بازو 350 گنا تیزی کے ساتھ کام کرسکتا ہے
انجینئروں نے ایک ایسا روبوٹ بازو تیار کیا ہے جو انسانوں کے مقابلے میں 350 گنا تیزی سے اشیا کی شناخت کرتا ہے، انہیں اٹھاکر ایک جگہ رکھتا ہے اور اس طرح برق رفتار پیکنگ میں انقلاب آسکتا ہے۔
یہ روبوٹ نیورل (اعصابی) نیٹ ورک کی طرز پر کام کرتا ہے جسے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کے کین گولڈبرگ اور ان کے ساتھیوں نے ڈیزائن کیا ہے۔ ایمیزون اور سامان بھیجنے والی دیگر کمپنیاں ایک عرصے سے اس کے حل کی تلاش میں تھیں کیونکہ کووڈ 19 کی خوف ناک وبا کی بنا پر دنیا بھر میں گھر بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری کا رجحان کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
قبل ازیں انہی سائنس دانوں کی ٹیم ایک سافٹ ویئر اور ہارڈویئر میں بعض تبدیلیاں کرچکی ہے جس کی بنا پر روبوٹ بازو کی گرفت کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے اور اب وہ کمپیوٹر کی بدولت بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں اور سہ جہتی (تھری ڈائمینشنل) انداز میں اشیا کو اس کے اصل مقام پر دیکھتے ہیں۔ اس طرح وہ رکاوٹوں سے ٹکرائے بغیر کسی بھی شے کو بہتر انداز میں اٹھاسکتے ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ روبوٹ بازو اشیا کو اٹھانے کے لیے بجلی کی رفتار سے حرکت کرتے ہیں۔ اس دوران ان کی رفتار میں اتارچڑھاؤ کی وجہ سے یا تو شے درست انداز میں اٹھ جاتی ہے یا پھر ٹکرا کر نیچے گرجاتی ہے۔ اسی طرح جھٹکے سے روبوٹ بازو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔
ماہرین نے اندازہ لگایا کہ ہر کام کے لیے روبوٹ بازو کی رفتار، تیزی اور گھماؤ کا اندازہ لگانا ضروری ہوتا ہے۔ اس موقع پر کمپیوٹر اور نیورل نیٹ ورک ہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے سائنس دانوں کی ٹیم نے روبوٹک بازو کو نیورل نیٹ ورک سے قابو کرنے کا فیصلہ کیا۔ سافٹ ویئر کو سکھانے کے لیے انہوں نے کئی ماہ تک ہزاروں اشیا رکھیں اور اسے ان پر مشق کروائی گئی۔
اس طرح روبوٹ بازو آخرکار یہ جان گیا کہ وقت بچانے اور محفوظ ترین انداز میں کوئی چیز اٹھانے کے لیے اسے کیا کرنا ہوگا۔ اس طرح کمپیوٹر اب یہ فیصلہ 80 ملی سیکنڈ میں کرسکتا ہے اور اس سے قبل یہی فیصلہ کرنے میں اسے 30 سیکنڈ لگتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمپیوٹر جلدی فیصلہ کرتا ہے اور فوری طور پر روبوٹ بازو کو وہ شے اٹھانے کا حکم دیتا ہے۔ اس طرح پیکنگ کی رفتار کئی سو گنا بڑھ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ اب اگر یہ ٹیکنالوجی آن لائن اشیا فروخت کرنے والی کمپنی اختیار کرتی ہے تو اس کے کام میں بہت تیزی آسکتی ہے۔
یہ روبوٹ نیورل (اعصابی) نیٹ ورک کی طرز پر کام کرتا ہے جسے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کے کین گولڈبرگ اور ان کے ساتھیوں نے ڈیزائن کیا ہے۔ ایمیزون اور سامان بھیجنے والی دیگر کمپنیاں ایک عرصے سے اس کے حل کی تلاش میں تھیں کیونکہ کووڈ 19 کی خوف ناک وبا کی بنا پر دنیا بھر میں گھر بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری کا رجحان کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
قبل ازیں انہی سائنس دانوں کی ٹیم ایک سافٹ ویئر اور ہارڈویئر میں بعض تبدیلیاں کرچکی ہے جس کی بنا پر روبوٹ بازو کی گرفت کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے اور اب وہ کمپیوٹر کی بدولت بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں اور سہ جہتی (تھری ڈائمینشنل) انداز میں اشیا کو اس کے اصل مقام پر دیکھتے ہیں۔ اس طرح وہ رکاوٹوں سے ٹکرائے بغیر کسی بھی شے کو بہتر انداز میں اٹھاسکتے ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ روبوٹ بازو اشیا کو اٹھانے کے لیے بجلی کی رفتار سے حرکت کرتے ہیں۔ اس دوران ان کی رفتار میں اتارچڑھاؤ کی وجہ سے یا تو شے درست انداز میں اٹھ جاتی ہے یا پھر ٹکرا کر نیچے گرجاتی ہے۔ اسی طرح جھٹکے سے روبوٹ بازو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔
ماہرین نے اندازہ لگایا کہ ہر کام کے لیے روبوٹ بازو کی رفتار، تیزی اور گھماؤ کا اندازہ لگانا ضروری ہوتا ہے۔ اس موقع پر کمپیوٹر اور نیورل نیٹ ورک ہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے سائنس دانوں کی ٹیم نے روبوٹک بازو کو نیورل نیٹ ورک سے قابو کرنے کا فیصلہ کیا۔ سافٹ ویئر کو سکھانے کے لیے انہوں نے کئی ماہ تک ہزاروں اشیا رکھیں اور اسے ان پر مشق کروائی گئی۔
اس طرح روبوٹ بازو آخرکار یہ جان گیا کہ وقت بچانے اور محفوظ ترین انداز میں کوئی چیز اٹھانے کے لیے اسے کیا کرنا ہوگا۔ اس طرح کمپیوٹر اب یہ فیصلہ 80 ملی سیکنڈ میں کرسکتا ہے اور اس سے قبل یہی فیصلہ کرنے میں اسے 30 سیکنڈ لگتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمپیوٹر جلدی فیصلہ کرتا ہے اور فوری طور پر روبوٹ بازو کو وہ شے اٹھانے کا حکم دیتا ہے۔ اس طرح پیکنگ کی رفتار کئی سو گنا بڑھ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ اب اگر یہ ٹیکنالوجی آن لائن اشیا فروخت کرنے والی کمپنی اختیار کرتی ہے تو اس کے کام میں بہت تیزی آسکتی ہے۔