پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیندک معاہدہ خلاف آئین قرار دے دیا
18ویں ترمیم کے تحت یہ معاملہ وفاق کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا بلکہ یہ صوبائی معاملہ ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
ISLAMABAD:
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیندک لیز معاہدے کو آئین کے برخلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت معاہدہ وفاق کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا یہ صوبائی معاملہ ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اختر حسین لانگو زیر صدارت محکمہ معدنیات ومعدنی وسائل کے حکام کے ساتھ اجلاس ہوا جس میں کمیٹی کے ممبران، اسمبلی سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری، چیف اکاؤنٹ آفیسر، ایڈیشنل سیکریٹری قانون، ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے جوائنٹ چیف اکانومسٹ، سیکریٹری مائنز اینڈ منرلز، ڈی جی مائنز اور ڈائریکٹرجنرل آڈٹ اور دیگر بھی موجود تھے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیندک لیز معاہدے کو آئین کے برخلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت معاہدہ صوبے کے دائرہ اختیار میں آتا ہے لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت کے کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کس قانون کے تحت ہو رہے ہیں؟
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اخترحسین لانگو نے کہا کہ جن لوگوں نے فیلڈ آڈیٹر کو ریکارڈ فراہم نہیں کیا ہے، مذکورہ سیکریٹریز ان تمام کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے بیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائیں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو دو ماہ میں رپورٹ جمع کروائیں اور ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی بتائیں کہ سیندک منصوبے سے سالانہ کتنی معدنیات نکل رہی ہے؟
ممبر کمیٹی ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ حالیہ ڈیگاری حادثے میں جب مزدور جاں بحق ہو گئے تھے تو انہیں نکالنے کے لیے دوسرے مزدور انہیں ریسکیو کرنے گئے لیکن وہ بھی جانبر نہ ہوسکے، اُن متاثرہ افراد کی مائنز سے رائلٹی تو کٹتی ہے لیکن مزدوروں کو اسپتال تک پہنچانے کے لیے ایمبولینس تک موجود نہیں جب کہ علاقے کے اسکولوں، اسپتالوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ محکمہ معدنیات اگر کچھ نہیں کرسکتا تو کم از کم اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے کردار ادا کرے اور مائنز کے اندر کام کرنے والوں کے لیے ایک ایمبولینس بھی مہیا کرے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیندک لیز معاہدے کو آئین کے برخلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت معاہدہ وفاق کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا یہ صوبائی معاملہ ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اختر حسین لانگو زیر صدارت محکمہ معدنیات ومعدنی وسائل کے حکام کے ساتھ اجلاس ہوا جس میں کمیٹی کے ممبران، اسمبلی سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری، چیف اکاؤنٹ آفیسر، ایڈیشنل سیکریٹری قانون، ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے جوائنٹ چیف اکانومسٹ، سیکریٹری مائنز اینڈ منرلز، ڈی جی مائنز اور ڈائریکٹرجنرل آڈٹ اور دیگر بھی موجود تھے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیندک لیز معاہدے کو آئین کے برخلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت معاہدہ صوبے کے دائرہ اختیار میں آتا ہے لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت کے کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کس قانون کے تحت ہو رہے ہیں؟
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اخترحسین لانگو نے کہا کہ جن لوگوں نے فیلڈ آڈیٹر کو ریکارڈ فراہم نہیں کیا ہے، مذکورہ سیکریٹریز ان تمام کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے بیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائیں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو دو ماہ میں رپورٹ جمع کروائیں اور ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی بتائیں کہ سیندک منصوبے سے سالانہ کتنی معدنیات نکل رہی ہے؟
ممبر کمیٹی ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ حالیہ ڈیگاری حادثے میں جب مزدور جاں بحق ہو گئے تھے تو انہیں نکالنے کے لیے دوسرے مزدور انہیں ریسکیو کرنے گئے لیکن وہ بھی جانبر نہ ہوسکے، اُن متاثرہ افراد کی مائنز سے رائلٹی تو کٹتی ہے لیکن مزدوروں کو اسپتال تک پہنچانے کے لیے ایمبولینس تک موجود نہیں جب کہ علاقے کے اسکولوں، اسپتالوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ محکمہ معدنیات اگر کچھ نہیں کرسکتا تو کم از کم اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے کردار ادا کرے اور مائنز کے اندر کام کرنے والوں کے لیے ایک ایمبولینس بھی مہیا کرے۔