مانچسٹر فیصل آباد اور آج کی دنیا
مانچسٹر کہے گا کہ فیصل آباد ہم سے آگے نکل گیا لیکن وہ مانچسٹر تو کب کا تاریخ کے حافظے میں ایک یاد کے طور پر رہ گیا۔
ایک دن آئے گا کہ مانچسٹر کہے گا کہ فیصل آباد ہم سے آگے نکل گیا۔ انسان کو سوچ بڑی رکھنی چاہیے۔ 60 کی دِہائی میں پاکستان کی ترقی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ الیکشن سے پہلے فیصل آباد آیا تو صنعتیں بند ہو رہی تھیں اور مشکل حالات تھے، لیکن آج اتنا کام ہے کہ لیبر نہیں مل رہی۔ وزیر اعظم عمران خان کی اس ہفتے فیصل آباد میں صنعتکاروں سے گفتگو کا یہ ایک نمایاں نکتہ تھا۔
پاکستان دنیا بھر میں کپاس پیدا کرنے والا کسی زمانے میں چوتھا بڑا ملک تھا۔ اسّی کی دہائی میں کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن کے ذریعے تین ملین گانٹھوں سے بڑھ کر نوّے کے شروع میں پونے تیرہ ملین گانٹھیں پیداوار ہوئی۔ یہ ایک ریکارڈ تھا، بعد ازاں زیادہ تر سالوں میں کپاس کی پیداوار اس سے کہیں کم ہوئی۔ نئی ٹیکسٹائل اسپننگ ملز لگیں تو کپاس کی مانگ میں اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن کپاس کی پیداوار کو بڑھنا تھا نہ بڑھی۔ اِس سال پاکستان میں تاریخ کی کپاس کی کم ترین فصل ہونے کا امکان ہے یعنی بمشکل ستر لاکھ گانٹھیں!
مایوس کن پیداوار کے بعد اب ملکی ضروریات کے لیے روئی درآمد کرنے کی دوڑ شروع ہے۔ اندازہ ہے کہ اس سال کم از کم ایک ارب ڈالر کی کاٹن امپورٹ کرنی پڑے گی۔ ملکی خزانہ پہلے ہی زیادہ امپورٹ کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے، اب دنیا میں کپاس کا گھر سمجھا جانے والا ملک اپنی انڈسٹری کا پہیہ چلانے کے لیے کاٹن امپورٹ کرنے پر مجبور ہے۔
اس صورتحال تک کیسے پہنچے، یہ بھی ایک دکھ بھری کہانی ہے۔ پاکستان کی کپاس کی ترقی اور دنیا بھر میں اس کی مارکیٹنگ کرنے والے ادارے کو اسّی کی دِہائی میں سیاسی اور کاروباری مفادات کے لیے بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر بے جان کر دیا گیا۔ اس ادارے کی چھتر چھاؤں سے کروڑ پتی اور ارب پتی بننے والے بعد میں اقتدار کے ایوانوں میں اسے بند کرنے کے لیے ہلکان ہونے لگے تا کہ کاٹن ٹریڈ پر ان کا اور ان کے بھائی بندوں کا قبضہ ہو سکے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے اور کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن بند کر دی گئی۔
ادارے بنانا مشکل اور صبر آزما کام ہے لیکن انھیں گرانا بہت آسان ہے۔ کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن کا ادارہ ایک عمدہ مقصد کے لیے بنایا گیا، اسے چلانے والوں نے اسے کامیابی سے چلایا مگر بعد میں ان اداروں پر نااہل لوگ مسلط ہو گئے اور کاروباری مفادات کی خاطر ان کا خون چوسا گیا۔ اس دوران جب کہ ہم کاٹن ٹریڈ کے ساتھ یہ کھلواڑ کر رہے تھے، انڈیا میں مشن آن کاٹن کے نام سے کھیت سے فیبرکس تک ایک ہمہ جہت پالیسی1999میں نافذ کی گئی۔ صوبائی ریاستیں، مرکزی حکومت، ویلیو چین میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند سالوں میں کاٹن کی پیداوار دگنا سے زائد ہوگئی۔ اس کے ساتھ کوالٹی میں بھی انقلاب آ گیا۔ کئی سال تک انڈیا دنیا میں کاٹن برآمد کرنے والا دوسرا یا تیسرا بڑاملک رہا۔
پاکستان میں بار بار کپاس کی خراب فصل کی وجہ سے پاکستان انڈین کاٹن کا باقاعدہ اور بڑا خریدار رہا ہے۔ جب کہ پاکستان میں پانچ چھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہونے کے باوجود معیاری اور تصدیق شدہ بیجوں کا بحران مسلسل رہا ہے۔ جو مسائل نوے کی دہائی میں تھے، وہی کوالٹی کے مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔
دنیا میں ٹیکسٹائل کی صنعت کا جنم برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ہوا۔ پہلی بار اٹھارویں صدی میں بھاپ اور بعد میں اسٹیم انجنوں کے ذریعے پیدا کی گئی توانائی سے کاٹن دھاگے کی پیداوار شروع کی گئی۔ ماڈرن صنعتی ترقی کا یہ ابتدائی نمونہ قابل دید تھا،کاٹن امپورٹ کی جاتی۔ اسٹیم بنانے کے لیے کوئلہ حاصل کیا جاتا۔ لیورپول کاٹن امپورٹ کی بندرگاہ تھی۔ لنکا شائر اور مانچسٹر میں نہروں کے جال کی مدد سے خام مال، کو ئلہ منگوایا اور تیار مصنوعات برآمد کی جاتی تھیں۔
مانچسٹر دنیا میں صنعتی انقلاب کا پہلا کامیاب باب تھا۔ اس سبب یہاں پہلی کاٹن ایکسچیج بنی، بینکوں نے فروغ پایا، انفرااسٹرکچر بنا۔ اسی وجہ سے اس میٹروپولیٹن شہر کا نام کاٹن کے ساتھ یوں جڑا کہ اسے دنیا میں کاٹن پولس یعنی Cottonpolis کا نام بھی دیا گیا۔ پاکستان میں فیصل آباد میں کاٹن انڈسٹری کے پھیلاؤ کی وجہ سے اسے پاکستان کا مانچسٹر کہا جانے لگا۔
پھر یوں ہوا کہ بیسیویں صدی کے آغاز میں رنگ اسپننگ کی نئی ٹیکنالوجی ایجاد ہو گئی۔ مانچسٹر کی انڈسٹری نے اس نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے میں گریز کیا۔ اس کے بعد دنیا میں دیگر ممالک کہیں آگے نکل گئے، مانچسٹر شہر کی فیکٹریاں ایک ایک کرکے بند ہوتی گئیں، بڑے بڑے وئیر ہاؤ سز بھائیں بھائیں کرنے لگے۔
اس شہر میں کاٹن صنعت کے اس انجام میں دنیا بھر کی صنعتوں اور بزنس کے لیے سبق ہے، پہلا یہ کہ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں یعنی کوئی بھی کاروباری ایڈوانٹیج ہمیشہ حاصل نہیں رہتا۔ دوم نئی ٹیکنالوجی سے گریز یا منہ موڑ لینے سے آنے والی حقیقت ٹلتی نہیں۔ سوم؛ کاروبار میں ٹیکنالوجی، مصنوعات اور مقابلے کی فضا ہر آن بدلتی رہتی ہے۔ اپنے آپ کو اس بدلتی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں ہی کامیابی اور بقاء ہے۔ ورنہ کل کا مانچسٹر کاٹن میں مناپلی رکھ سکا اور نہ فیصل آباد یا پاکستان اپنا مقام قائم رکھ سکے اگر ٹیکنالوجی، جدت،ایجادات، نئی مصنوعات اور تجارت کے عالمی میدان میںہمقدم نہ ہو سکا۔
خواہش دلچسپ ہے کہ ایک دن آئے گا کہ مانچسٹر کہے گا کہ فیصل آباد ہم سے آگے نکل گیا لیکن وہ مانچسٹر تو کب کا تاریخ کے حافظے میں ایک یاد کے طور پر رہ گیا۔ اب تو جاپان، چین، جنوبی کوریا، ویت نام ، بنگلہ دیش وغیرہ ٹیکسٹائل کے گولڈ اسٹینڈرڈ ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ آج بھی ایک متروک مثال کو اپنا نصب العین قرار دے کر اپنا لہو گرما رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے آسیان اور چین کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی ٹریڈ ڈیل ہوئی یعنی RCEP، دنیا کس رفتار سے اور کہاں جا رہی ہے اور ہم ابھی تک فیصل آباد کو مانچسٹر سے داد دلوانے کے مشن پر ہیں ۔
پاکستان دنیا بھر میں کپاس پیدا کرنے والا کسی زمانے میں چوتھا بڑا ملک تھا۔ اسّی کی دہائی میں کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن کے ذریعے تین ملین گانٹھوں سے بڑھ کر نوّے کے شروع میں پونے تیرہ ملین گانٹھیں پیداوار ہوئی۔ یہ ایک ریکارڈ تھا، بعد ازاں زیادہ تر سالوں میں کپاس کی پیداوار اس سے کہیں کم ہوئی۔ نئی ٹیکسٹائل اسپننگ ملز لگیں تو کپاس کی مانگ میں اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن کپاس کی پیداوار کو بڑھنا تھا نہ بڑھی۔ اِس سال پاکستان میں تاریخ کی کپاس کی کم ترین فصل ہونے کا امکان ہے یعنی بمشکل ستر لاکھ گانٹھیں!
مایوس کن پیداوار کے بعد اب ملکی ضروریات کے لیے روئی درآمد کرنے کی دوڑ شروع ہے۔ اندازہ ہے کہ اس سال کم از کم ایک ارب ڈالر کی کاٹن امپورٹ کرنی پڑے گی۔ ملکی خزانہ پہلے ہی زیادہ امپورٹ کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے، اب دنیا میں کپاس کا گھر سمجھا جانے والا ملک اپنی انڈسٹری کا پہیہ چلانے کے لیے کاٹن امپورٹ کرنے پر مجبور ہے۔
اس صورتحال تک کیسے پہنچے، یہ بھی ایک دکھ بھری کہانی ہے۔ پاکستان کی کپاس کی ترقی اور دنیا بھر میں اس کی مارکیٹنگ کرنے والے ادارے کو اسّی کی دِہائی میں سیاسی اور کاروباری مفادات کے لیے بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر بے جان کر دیا گیا۔ اس ادارے کی چھتر چھاؤں سے کروڑ پتی اور ارب پتی بننے والے بعد میں اقتدار کے ایوانوں میں اسے بند کرنے کے لیے ہلکان ہونے لگے تا کہ کاٹن ٹریڈ پر ان کا اور ان کے بھائی بندوں کا قبضہ ہو سکے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے اور کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن بند کر دی گئی۔
ادارے بنانا مشکل اور صبر آزما کام ہے لیکن انھیں گرانا بہت آسان ہے۔ کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن کا ادارہ ایک عمدہ مقصد کے لیے بنایا گیا، اسے چلانے والوں نے اسے کامیابی سے چلایا مگر بعد میں ان اداروں پر نااہل لوگ مسلط ہو گئے اور کاروباری مفادات کی خاطر ان کا خون چوسا گیا۔ اس دوران جب کہ ہم کاٹن ٹریڈ کے ساتھ یہ کھلواڑ کر رہے تھے، انڈیا میں مشن آن کاٹن کے نام سے کھیت سے فیبرکس تک ایک ہمہ جہت پالیسی1999میں نافذ کی گئی۔ صوبائی ریاستیں، مرکزی حکومت، ویلیو چین میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند سالوں میں کاٹن کی پیداوار دگنا سے زائد ہوگئی۔ اس کے ساتھ کوالٹی میں بھی انقلاب آ گیا۔ کئی سال تک انڈیا دنیا میں کاٹن برآمد کرنے والا دوسرا یا تیسرا بڑاملک رہا۔
پاکستان میں بار بار کپاس کی خراب فصل کی وجہ سے پاکستان انڈین کاٹن کا باقاعدہ اور بڑا خریدار رہا ہے۔ جب کہ پاکستان میں پانچ چھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہونے کے باوجود معیاری اور تصدیق شدہ بیجوں کا بحران مسلسل رہا ہے۔ جو مسائل نوے کی دہائی میں تھے، وہی کوالٹی کے مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔
دنیا میں ٹیکسٹائل کی صنعت کا جنم برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ہوا۔ پہلی بار اٹھارویں صدی میں بھاپ اور بعد میں اسٹیم انجنوں کے ذریعے پیدا کی گئی توانائی سے کاٹن دھاگے کی پیداوار شروع کی گئی۔ ماڈرن صنعتی ترقی کا یہ ابتدائی نمونہ قابل دید تھا،کاٹن امپورٹ کی جاتی۔ اسٹیم بنانے کے لیے کوئلہ حاصل کیا جاتا۔ لیورپول کاٹن امپورٹ کی بندرگاہ تھی۔ لنکا شائر اور مانچسٹر میں نہروں کے جال کی مدد سے خام مال، کو ئلہ منگوایا اور تیار مصنوعات برآمد کی جاتی تھیں۔
مانچسٹر دنیا میں صنعتی انقلاب کا پہلا کامیاب باب تھا۔ اس سبب یہاں پہلی کاٹن ایکسچیج بنی، بینکوں نے فروغ پایا، انفرااسٹرکچر بنا۔ اسی وجہ سے اس میٹروپولیٹن شہر کا نام کاٹن کے ساتھ یوں جڑا کہ اسے دنیا میں کاٹن پولس یعنی Cottonpolis کا نام بھی دیا گیا۔ پاکستان میں فیصل آباد میں کاٹن انڈسٹری کے پھیلاؤ کی وجہ سے اسے پاکستان کا مانچسٹر کہا جانے لگا۔
پھر یوں ہوا کہ بیسیویں صدی کے آغاز میں رنگ اسپننگ کی نئی ٹیکنالوجی ایجاد ہو گئی۔ مانچسٹر کی انڈسٹری نے اس نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے میں گریز کیا۔ اس کے بعد دنیا میں دیگر ممالک کہیں آگے نکل گئے، مانچسٹر شہر کی فیکٹریاں ایک ایک کرکے بند ہوتی گئیں، بڑے بڑے وئیر ہاؤ سز بھائیں بھائیں کرنے لگے۔
اس شہر میں کاٹن صنعت کے اس انجام میں دنیا بھر کی صنعتوں اور بزنس کے لیے سبق ہے، پہلا یہ کہ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں یعنی کوئی بھی کاروباری ایڈوانٹیج ہمیشہ حاصل نہیں رہتا۔ دوم نئی ٹیکنالوجی سے گریز یا منہ موڑ لینے سے آنے والی حقیقت ٹلتی نہیں۔ سوم؛ کاروبار میں ٹیکنالوجی، مصنوعات اور مقابلے کی فضا ہر آن بدلتی رہتی ہے۔ اپنے آپ کو اس بدلتی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں ہی کامیابی اور بقاء ہے۔ ورنہ کل کا مانچسٹر کاٹن میں مناپلی رکھ سکا اور نہ فیصل آباد یا پاکستان اپنا مقام قائم رکھ سکے اگر ٹیکنالوجی، جدت،ایجادات، نئی مصنوعات اور تجارت کے عالمی میدان میںہمقدم نہ ہو سکا۔
خواہش دلچسپ ہے کہ ایک دن آئے گا کہ مانچسٹر کہے گا کہ فیصل آباد ہم سے آگے نکل گیا لیکن وہ مانچسٹر تو کب کا تاریخ کے حافظے میں ایک یاد کے طور پر رہ گیا۔ اب تو جاپان، چین، جنوبی کوریا، ویت نام ، بنگلہ دیش وغیرہ ٹیکسٹائل کے گولڈ اسٹینڈرڈ ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ آج بھی ایک متروک مثال کو اپنا نصب العین قرار دے کر اپنا لہو گرما رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے آسیان اور چین کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی ٹریڈ ڈیل ہوئی یعنی RCEP، دنیا کس رفتار سے اور کہاں جا رہی ہے اور ہم ابھی تک فیصل آباد کو مانچسٹر سے داد دلوانے کے مشن پر ہیں ۔