چار دِن
ہم سوائے اپنے خوابوں کی لاشیں گننے کے کچھ نہیں کر پاتے لیکن دیکھا جائے تو یہ سارا کھیل خود ہمارا ہی رچایا ہوا ہے۔
جاتے ہوئے سال یعنی دسمبر کے مہینے کے حوالے سے تو جدید اُردو شاعری بھری پڑی ہے کہ یہ مہینہ ایک طرح سے خواب اورخواہش کے درمیان ایک پُل کا استعارہ ہے اور دُوسری طرف ایک اور سال کے ہاتھوں سے نکل جانے کا نوحہ بھی کہ وقت کا تیز رفتار آرا ہمارے شب و روز کو بے دردی سے کاٹتا چلا جا رہا ہے اور ہم سوائے اپنے خوابوں کی لاشیں گننے کے کچھ نہیں کر پاتے لیکن دیکھا جائے تو یہ سارا کھیل خود ہمارا ہی رچایا ہوا ہے کہ زندگی کو شب و روز اور مہ و سال میں تقسیم کر کے دیکھنے کا سارا حساب کتاب ہم نے ہی اپنی آسانی کے لیے وضع کیا ہے جب کہ اس ''زمان'' کی حقیقت وہی ہے جس کی طرف علامہ اقبال نے یہ کہہ کر اشارہ کیا تھا کہ
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رَو جس میں نہ دن ہے نہ رات
اس وقت مجھے یہ ساری باتیں دو خاص حوالوں سے یاد آ ہی ہیںکہ 20 نومبر جناب احمد ندیم قاسمی کا روزِ پیدائش ہے اور چار دن بعد یعنی 24 نومبر اُن کی منہ بولی بیٹی اور عہد ساز شاعرہ مرحومہ پروین شاکر کا۔۔۔ دونوں سے اپنے ذاتی اور ادبی تعلق کی وجہ سے میں اکثر ان کے بارے میں لکھتا رہتا ہوں کہ یہ اپنی تحریروں کے حوالے سے آج بھی زندہ اور موجود ہیں۔ قاسمی صاحب کو ربِ کریم نے ایک طویل عمر عطا فرمائی جب کہ پروین کو صرف 42 برس ملے۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر غیر معمولی جواں مرگ لوگوں کی طرح اُس کی وفات کے 26 برس بعد بھی اُس کا نقش جدید اُردو شاعری پر قائم و دائم اور تازہ و توانا نظر آتا ہے جس کا ایک ثبوت بھارت میں ادارہ ''نورِ سخن'' کے زیر اہتمام منائی جانے والی اُس کی اڑسٹھویں سالگرہ ہے جس کے منتظمین دو نوجوان شاعر میاں بیوی شاہد نور اور نغمہ نور ہیں۔
کورونا کی وجہ سے اس برس قاسمی صاحب کی سالگرہ اور برسی دونوں خاموشی سے گزر گئے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اُردو زبان و ادب سے دلچسپی اور محبت رکھنے والوں کے دلوں میں اُن کی محبت آج بھی زندہ و تازہ ہے جب کہ اُن سے ہم جیسے فیض حاصل کرنے والوں کے لیے تو وہ کبھی اور کہیں گئے ہی نہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج ان دونوں کو اُن کی اُس شاعری کے حوالے سے یاد کیا جائے جو نہ صرف اُن کی پہچان بنی بلکہ جس کی بازگشت آج بھی بیشتر بعد میں آنے والے اچھے شاعروں کے ہاں صاف اور واضح سنائی دے رہی ہے ۔اقبال نے کہا تھا:
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
قاسمی صاحب کے ہاں یہ مضمون اور خیال ''انسان عظیم ہے خدایا''کی شکل میں کچھ اس طرح سے ظاہر ہوا ہے کہ:
اُس نے تجھے عرش سے بلایا
انسان عظیم ہے خدایا
تو سنگ ہے اور وہ شرر ہے
تُو آگ ہے اور وہ اُجالا
انسان عظیم ہے خدایا
تو جیسا ازل میں تھا سو اب ہے
وہ ایک مسلسل ارتقا ہے
ہر شئے کی پلٹ رہا ہے کایا
انسان عظیم ہے خدایا
مگر جب یہ براہ راست تخاطب کسی اور فضا میں ایک استعارے کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کے کچھ ایسے رُوپ سامنے آتے ہیں جو اُس احمد ندیم قاسمی کے گہرے اور خوب صورت ویژن کے ترجمان بن جاتے ہیں جسے عام طور پر زیادہ توجہ سے نہیں دیکھا جاتا مگر جس کی معنویت بیک وقت پہلودار بھی ہے اور زور دار بھی۔
اگر نجوم میں تُو ہے تو چاند میں ہے کون؟
ترے جمال کی تقسیم ہو نہیں سکتی
ازل ابد کا تصوّر، فقط تصور ہے
ترے وجود کی تقویم ہو نہیں سکتی
حرم میں تُو ہے تو آخر کنشت میں ہے کون؟
کہ ایک ذات تو دو نیم ہو نہیں سکتی
جو قوتیں ہیں تیری منتشر تو سچ کہہ دُوں
کہ اس جہان کی تنظیم ہو نہیں سکتی
اسی طرح ایک ا ور جگہ وہ اس سوال کو ایک اور انداز میں اس طرح سے اُٹھاتے ہیں کہ:
زندگی موت کا عنواں ہے تو ڈرنا کیسا
ایک نقطے پہ تجّلی کا ٹھہرنا کیسا
میں تو یہ پُوچھتا ہوں کیا یہی خلاّقی ہے
یعنی انسان تو فانی ہے، خدا باقی ہے!
جُزو فانی ہے تو پھر کُل کی بقا کیا معنی
یہ بھی فانی ہے تو پھر خوفِ خدا کیا معنی؟
اسی طرح اگر پروین شاکر کی نظموں کے ''بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی'' والے کردار کے ساتھ قائم اُس حسین اور حیران کر دینے والے جذبے کی شدّت کو دیکھا جائے تو سیفو اور مِیرا اُس کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں:
''میں ہر بار بالوں میں کنگھی ادھوری ہی کر پا رہی ہوں
تمہاری محبت بھری انگلیاں روک لیتی ہیں مجھ کو
میں اب مانتی جا رہی ہوں
میرے اندر کی ساری رُتیں اور باہر کے موسم
تمہارے سبب سے، تمہارے لیے تھے''
''اسی راستے پر
میں کب سے سفر کر رہی تھی
مگر آج اک اجنبی کے دلآویز کم بولتے ساتھ میں
ستمبر کی تپتی ہوئی دوپہر میں
میں نے پہلی دفعہ یہ بھی دیکھا
کہ اس راستے پر
دو رویہ گلابوں کے تختے بچھے ہیں''
اور پھر ایک پہلی بار ماں بننے والی عورت کا یہ خوب صورت اور پُرجوش اظہار جو پروین شاکر کے اُس رُوپ کو ہمارے سامنے لاتاہے جس پر گویا اس نے اپنے نام کی مہر لگا دی ہے کہ:
کائنات کے خالق دیکھ تو مرا چہرہ
آج میرے ہونٹوں پر کیسی مسکراہٹ ہے
آج میری آنکھوں میں کیسی جگمگاہٹ ہے
میری مسکراہٹ سے تجھ کو یاد کیا آیا
میری بھیگی آنکھوں میں تجھ کو کیا نظر آیا
اس حسین لمحے کہ تُو تو مانتا ہو گا
ہاں تیرا گماں سچ ہے ٗ ہاں کہ آج میں نے بھیٗ زندگی جنم دی ہے
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رَو جس میں نہ دن ہے نہ رات
اس وقت مجھے یہ ساری باتیں دو خاص حوالوں سے یاد آ ہی ہیںکہ 20 نومبر جناب احمد ندیم قاسمی کا روزِ پیدائش ہے اور چار دن بعد یعنی 24 نومبر اُن کی منہ بولی بیٹی اور عہد ساز شاعرہ مرحومہ پروین شاکر کا۔۔۔ دونوں سے اپنے ذاتی اور ادبی تعلق کی وجہ سے میں اکثر ان کے بارے میں لکھتا رہتا ہوں کہ یہ اپنی تحریروں کے حوالے سے آج بھی زندہ اور موجود ہیں۔ قاسمی صاحب کو ربِ کریم نے ایک طویل عمر عطا فرمائی جب کہ پروین کو صرف 42 برس ملے۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر غیر معمولی جواں مرگ لوگوں کی طرح اُس کی وفات کے 26 برس بعد بھی اُس کا نقش جدید اُردو شاعری پر قائم و دائم اور تازہ و توانا نظر آتا ہے جس کا ایک ثبوت بھارت میں ادارہ ''نورِ سخن'' کے زیر اہتمام منائی جانے والی اُس کی اڑسٹھویں سالگرہ ہے جس کے منتظمین دو نوجوان شاعر میاں بیوی شاہد نور اور نغمہ نور ہیں۔
کورونا کی وجہ سے اس برس قاسمی صاحب کی سالگرہ اور برسی دونوں خاموشی سے گزر گئے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اُردو زبان و ادب سے دلچسپی اور محبت رکھنے والوں کے دلوں میں اُن کی محبت آج بھی زندہ و تازہ ہے جب کہ اُن سے ہم جیسے فیض حاصل کرنے والوں کے لیے تو وہ کبھی اور کہیں گئے ہی نہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج ان دونوں کو اُن کی اُس شاعری کے حوالے سے یاد کیا جائے جو نہ صرف اُن کی پہچان بنی بلکہ جس کی بازگشت آج بھی بیشتر بعد میں آنے والے اچھے شاعروں کے ہاں صاف اور واضح سنائی دے رہی ہے ۔اقبال نے کہا تھا:
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
قاسمی صاحب کے ہاں یہ مضمون اور خیال ''انسان عظیم ہے خدایا''کی شکل میں کچھ اس طرح سے ظاہر ہوا ہے کہ:
اُس نے تجھے عرش سے بلایا
انسان عظیم ہے خدایا
تو سنگ ہے اور وہ شرر ہے
تُو آگ ہے اور وہ اُجالا
انسان عظیم ہے خدایا
تو جیسا ازل میں تھا سو اب ہے
وہ ایک مسلسل ارتقا ہے
ہر شئے کی پلٹ رہا ہے کایا
انسان عظیم ہے خدایا
مگر جب یہ براہ راست تخاطب کسی اور فضا میں ایک استعارے کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کے کچھ ایسے رُوپ سامنے آتے ہیں جو اُس احمد ندیم قاسمی کے گہرے اور خوب صورت ویژن کے ترجمان بن جاتے ہیں جسے عام طور پر زیادہ توجہ سے نہیں دیکھا جاتا مگر جس کی معنویت بیک وقت پہلودار بھی ہے اور زور دار بھی۔
اگر نجوم میں تُو ہے تو چاند میں ہے کون؟
ترے جمال کی تقسیم ہو نہیں سکتی
ازل ابد کا تصوّر، فقط تصور ہے
ترے وجود کی تقویم ہو نہیں سکتی
حرم میں تُو ہے تو آخر کنشت میں ہے کون؟
کہ ایک ذات تو دو نیم ہو نہیں سکتی
جو قوتیں ہیں تیری منتشر تو سچ کہہ دُوں
کہ اس جہان کی تنظیم ہو نہیں سکتی
اسی طرح ایک ا ور جگہ وہ اس سوال کو ایک اور انداز میں اس طرح سے اُٹھاتے ہیں کہ:
زندگی موت کا عنواں ہے تو ڈرنا کیسا
ایک نقطے پہ تجّلی کا ٹھہرنا کیسا
میں تو یہ پُوچھتا ہوں کیا یہی خلاّقی ہے
یعنی انسان تو فانی ہے، خدا باقی ہے!
جُزو فانی ہے تو پھر کُل کی بقا کیا معنی
یہ بھی فانی ہے تو پھر خوفِ خدا کیا معنی؟
اسی طرح اگر پروین شاکر کی نظموں کے ''بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی'' والے کردار کے ساتھ قائم اُس حسین اور حیران کر دینے والے جذبے کی شدّت کو دیکھا جائے تو سیفو اور مِیرا اُس کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں:
''میں ہر بار بالوں میں کنگھی ادھوری ہی کر پا رہی ہوں
تمہاری محبت بھری انگلیاں روک لیتی ہیں مجھ کو
میں اب مانتی جا رہی ہوں
میرے اندر کی ساری رُتیں اور باہر کے موسم
تمہارے سبب سے، تمہارے لیے تھے''
''اسی راستے پر
میں کب سے سفر کر رہی تھی
مگر آج اک اجنبی کے دلآویز کم بولتے ساتھ میں
ستمبر کی تپتی ہوئی دوپہر میں
میں نے پہلی دفعہ یہ بھی دیکھا
کہ اس راستے پر
دو رویہ گلابوں کے تختے بچھے ہیں''
اور پھر ایک پہلی بار ماں بننے والی عورت کا یہ خوب صورت اور پُرجوش اظہار جو پروین شاکر کے اُس رُوپ کو ہمارے سامنے لاتاہے جس پر گویا اس نے اپنے نام کی مہر لگا دی ہے کہ:
کائنات کے خالق دیکھ تو مرا چہرہ
آج میرے ہونٹوں پر کیسی مسکراہٹ ہے
آج میری آنکھوں میں کیسی جگمگاہٹ ہے
میری مسکراہٹ سے تجھ کو یاد کیا آیا
میری بھیگی آنکھوں میں تجھ کو کیا نظر آیا
اس حسین لمحے کہ تُو تو مانتا ہو گا
ہاں تیرا گماں سچ ہے ٗ ہاں کہ آج میں نے بھیٗ زندگی جنم دی ہے