انصاف دنیا کی ضرورت
اگر بھارت چین سے زیادہ بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت ہوتا تو کب کا چین سے جنگ لڑ کر اپنے علاقے واپس لے لیتا
سیاستدانوں کی سب سے بڑی غلطی یا غلط فہمی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ اب لچھے دار تقاریر سے عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا اور خاص طور پر ایلیٹ کے طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو اب عوام اچھی طرح سے یہ سمجھ گئے ہیں کہ پاکستان کی کرپٹ ایلیٹ ہمیشہ انھیں بے وقوف بناتی آ رہی ہے۔
کروڑوں روپوں خرچ کرکے سیاسی ورکرسپلائی کرنے والے ٹھیکیدار بھاری معاوضے پر انھیں حسب ضرورت مہیا کر دیتے ہیں ان میں ایسے کارکن سب سے آگے ہوتے ہیں جو نعرے لگانے میں ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔ عوام اب خالی خولی نعرے بازی سے سخت الرجک ہیں اور پھر آج کا میڈیا حقائق کے ساتھ ایلیٹ کی تقاریر کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے تو عوام کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور عوام سیاستدانوں کی سیاسی تقاریر کی حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں۔
اب عوام اس قدر قابل اور سمجھدار ہوگئے ہیں کہ وہ اچھے ایماندار اور بے ایمان اور کرپٹ ترین میں فرق کو بھی سمجھنے لگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام اب سیاسی جلسوں میں شرکت کرنے کو وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے عوام سپلائی کرنے والے ٹھیکیداروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے نعرے لگواتے ہیں۔ آج کل ٹی وی پر سیاست دانوں کا کچا چٹھا پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اب ٹی وی ہر گھر کی ضرورت بن گیا ہے۔
گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک عرصے سے یہ بتایا جا رہا تھا کہ یہ دونوں علاقے مسلم لیگ کے چاہنے والوں کے علاقے ہیں اور مسلم لیگ (ن) ان علاقوں سے بہت بڑے پیمانے پر ووٹ لے سکتی ہے لیکن دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ یہاں پر مسلم لیگ (ن) ہار گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بلتستان کے عوام وقت کے ساتھ سیاستدانوں کی حقیقت کو پہچاننے لگے ہیں۔
اب عوام زرق برق کپڑوں سے قطعی متاثر نہیں ہوتے بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کس لیڈر کس پارٹی نے ان کے ملک کے لیے کیا خدمات دی ہیں۔ اسی بنیاد پر تعلقات کی بہتری کی راہ ہموار کرتے ہیں ایک عرصے سے ہندوستان کا لالچی حکمران طبقہ اس قدر زمین کا دیوانہ ہو رہا ہے کہ اب وہ گلگت بلتستان پر نظریں جما رہا ہے۔ گلگت کی علاقے میں بڑی سیاسی اہمیت ہے۔ بھارتی سیاستدان ہمیشہ پڑوسی ملکوں پر ناجائز قبضے کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک عرصے سے بھارتی حکمران طبقے کی نظریں چین کے سرحدی علاقوں پر مرکوز ہو رہی ہیں لیکن بھارتی حکمران طبقہ اس حوالے سے بہت دور اندیش ہے وہ ان ملکوں پر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے جنھیں وہ آسانی سے ہضم کرسکے۔
چین کے ساتھ بھارت کا وہی حال ہے جو پاکستان کا کشمیر کے ساتھ۔ بھارت کو چین سے اپنے اپنے علاقوں کی واپسی کی شکایتیں ہیں۔ چین اور بھارت بڑے ملک ہیں لیکن چین بھارت کے مقابلے میں ایک بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی فوج اور بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار بھی رکھتا ہے۔ بھارت کو پاکستان سے ایک ایسی پرخاش ہے کہ وہ کھلے دل سے اسے ایک آزاد ملک تسلیم نہیں کرتا، بلکہ پاکستان کے وجود کو مٹانے کے لیے ناپاک سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔
اگر بھارت چین سے زیادہ بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت ہوتا تو کب کا چین سے جنگ لڑ کر اپنے علاقے واپس لے لیتا، ثابت یہ ہوا کہ دنیا میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں زیادہ طاقت نا انصافی کو جنم دیتی ہے تو کم طاقت ملکوں کو انصاف سے محرومی پر مجبور کر دیتی ہے۔ دنیا میں طاقت کی کمی ملکوں کو ہی نہیں بلکہ کمزور انسانوں کو بھی ظلم سہنے پر مجبور کر دیتی ہے یعنی طاقت ہی آج کی دنیا کا سب سے بڑا انصاف ہے ۔کیا ایسی دنیا میں کمزور انسان عزت کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہی آج کی دنیا کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔
بد دیانتی ہے جب تک دنیا کے سر پر طاقت کا بھوت بیٹھا رہے گا دنیا میں کبھی مظلوم کو یعنی کمزور کو اس کا حق نہیں مل سکتا کمزور انسان اور کمزور ملک آج کی دنیا میں صرف بے عزتی بے توقیری کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ کہاں ہے اقوام متحدہ کہاں ہیں وہ دانشور جو انسانی زندگی میں انصاف کو سب سے بڑی ضرورت سمجھتے ہیں؟
کروڑوں روپوں خرچ کرکے سیاسی ورکرسپلائی کرنے والے ٹھیکیدار بھاری معاوضے پر انھیں حسب ضرورت مہیا کر دیتے ہیں ان میں ایسے کارکن سب سے آگے ہوتے ہیں جو نعرے لگانے میں ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔ عوام اب خالی خولی نعرے بازی سے سخت الرجک ہیں اور پھر آج کا میڈیا حقائق کے ساتھ ایلیٹ کی تقاریر کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے تو عوام کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور عوام سیاستدانوں کی سیاسی تقاریر کی حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں۔
اب عوام اس قدر قابل اور سمجھدار ہوگئے ہیں کہ وہ اچھے ایماندار اور بے ایمان اور کرپٹ ترین میں فرق کو بھی سمجھنے لگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام اب سیاسی جلسوں میں شرکت کرنے کو وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے عوام سپلائی کرنے والے ٹھیکیداروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے نعرے لگواتے ہیں۔ آج کل ٹی وی پر سیاست دانوں کا کچا چٹھا پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اب ٹی وی ہر گھر کی ضرورت بن گیا ہے۔
گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک عرصے سے یہ بتایا جا رہا تھا کہ یہ دونوں علاقے مسلم لیگ کے چاہنے والوں کے علاقے ہیں اور مسلم لیگ (ن) ان علاقوں سے بہت بڑے پیمانے پر ووٹ لے سکتی ہے لیکن دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ یہاں پر مسلم لیگ (ن) ہار گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بلتستان کے عوام وقت کے ساتھ سیاستدانوں کی حقیقت کو پہچاننے لگے ہیں۔
اب عوام زرق برق کپڑوں سے قطعی متاثر نہیں ہوتے بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کس لیڈر کس پارٹی نے ان کے ملک کے لیے کیا خدمات دی ہیں۔ اسی بنیاد پر تعلقات کی بہتری کی راہ ہموار کرتے ہیں ایک عرصے سے ہندوستان کا لالچی حکمران طبقہ اس قدر زمین کا دیوانہ ہو رہا ہے کہ اب وہ گلگت بلتستان پر نظریں جما رہا ہے۔ گلگت کی علاقے میں بڑی سیاسی اہمیت ہے۔ بھارتی سیاستدان ہمیشہ پڑوسی ملکوں پر ناجائز قبضے کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک عرصے سے بھارتی حکمران طبقے کی نظریں چین کے سرحدی علاقوں پر مرکوز ہو رہی ہیں لیکن بھارتی حکمران طبقہ اس حوالے سے بہت دور اندیش ہے وہ ان ملکوں پر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے جنھیں وہ آسانی سے ہضم کرسکے۔
چین کے ساتھ بھارت کا وہی حال ہے جو پاکستان کا کشمیر کے ساتھ۔ بھارت کو چین سے اپنے اپنے علاقوں کی واپسی کی شکایتیں ہیں۔ چین اور بھارت بڑے ملک ہیں لیکن چین بھارت کے مقابلے میں ایک بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی فوج اور بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار بھی رکھتا ہے۔ بھارت کو پاکستان سے ایک ایسی پرخاش ہے کہ وہ کھلے دل سے اسے ایک آزاد ملک تسلیم نہیں کرتا، بلکہ پاکستان کے وجود کو مٹانے کے لیے ناپاک سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔
اگر بھارت چین سے زیادہ بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت ہوتا تو کب کا چین سے جنگ لڑ کر اپنے علاقے واپس لے لیتا، ثابت یہ ہوا کہ دنیا میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں زیادہ طاقت نا انصافی کو جنم دیتی ہے تو کم طاقت ملکوں کو انصاف سے محرومی پر مجبور کر دیتی ہے۔ دنیا میں طاقت کی کمی ملکوں کو ہی نہیں بلکہ کمزور انسانوں کو بھی ظلم سہنے پر مجبور کر دیتی ہے یعنی طاقت ہی آج کی دنیا کا سب سے بڑا انصاف ہے ۔کیا ایسی دنیا میں کمزور انسان عزت کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہی آج کی دنیا کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔
بد دیانتی ہے جب تک دنیا کے سر پر طاقت کا بھوت بیٹھا رہے گا دنیا میں کبھی مظلوم کو یعنی کمزور کو اس کا حق نہیں مل سکتا کمزور انسان اور کمزور ملک آج کی دنیا میں صرف بے عزتی بے توقیری کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ کہاں ہے اقوام متحدہ کہاں ہیں وہ دانشور جو انسانی زندگی میں انصاف کو سب سے بڑی ضرورت سمجھتے ہیں؟