بچپن میرا بے مول بہتر مستقبل کیلئے بچوں کو فیصلہ سازی کا حق دینا ہوگا

’’بچوں کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


’’بچوں کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

بچے کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں ۔ جو قومیں اپنے بچوں پر توجہ دیتی ہیں ان کا مستقبل روشن ہوتا ہے اور وہ جلد ترقی کرتی ہیں۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے دنیا بھر میں ہر سال 20 نومبر کو ''بچوں کا عالمی دن'' منایا جاتا ہے۔

اس موقع پر ادارہ ایکسپریس نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ''فیصلہ سازی میں بچوں کی شمولیت کا حق'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور بچوں کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

اعجاز عالم آگسٹین
(صوبائی وزیر برائےانسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)

موجودہ حکومت نے گزشتہ دو برسوں میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کافی کام کیا ہے۔ ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی کمیشن برائے حقوق اطفال میں 2 بچوں کونمائندگی دی ہے جس سے یقینا ان کی آواز مضبوط ہوگی، ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔میں ان بچوں سے خود بھی ملا ہوں، یہ انتہائی پرعزم اور پر اعتماد ہیں جو خود سے متعلق معاملات کو سمجھتے ہیں اور رائے دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ہماری یہ معاشرتی روایت کہ ہے ہم ہر بات میں بچوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔

ان کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے ہم انہیں شامل ہی نہیں کرتے۔ بلکہ انہیں یہ کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں کہ تم ابھی بچے ہو حالانکہ دنیا میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیںجہاں بچوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیا گیا تو انہوں نے بہتر پرفارم کیا۔ بے شمار بچے عالمی سطح پر ایسا کام کر چکے ہیں جو بڑے نہیں کرسکے لہٰذا میرے نزدیک ہمیں بچوں کے حوالے سے اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اسمبلیوںمیں نوجوان اراکین کی پرفارمنس بہت اچھی ہے، اسی طرح جس محکمے میں نوجوان افسر ہے وہاں کی کارکردگی بھی بہتر ہے، ہمیںاس بات کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔

میرے نزدیک قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بچوں اور نوجوانوں کا کوٹہ ہونا چاہیے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انہیں فیصلہ سازی میں شامل کرکے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ سندھ میں 2013ء سے کم عمری کی شادی کا ایکٹ موجود ہے مگر 7 سال گزرنے کے باوجود اس کے رولز نہیں بن سکے۔

ہمارے ہاں قانون سازی تو موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد کا میکانزم نہ ہونے اور مختلف سقم ہونے کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہورہے، اس پر توجہ دینا ہوگی۔ پنجاب کی بات کریں تو یہاں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو نے بچوں کے حوالے سے بہت کام کیا ہے جو قابل تحسین ہے۔

اسے دیکھتے ہوئے اور بچوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا بجٹ بڑھایا جارہا ہے تاکہ مزید بہتر کام کیا جاسکے۔ بچوں کے حوالے سے اقدامات کرنے پر دنیا میں پاکستان کو اچھی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے تاہم ابھی بھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت کی سمت درست ہے لہٰذا بچوں کے حوالے سے مزید بہتر کام کیا جائے گا۔ چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کے حوالے سے سخت قانون موجود ہے، اس پر کارروائی بھی ہوتی ہے تاہم آگاہی نہ ہونے اور ہمارے مجموعی رویوں کی وجہ سے اس میں مسائل پیش آرہے ہیں لہٰذا لوگوں کو بچوں کے حقوق کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔

افتخار مبارک
(نمائندہ سول سوسائٹی )

بچوں کے حقوق میں بچوں کی شمولیت کے مسئلے پر بہت کم بات ہوتی ہے۔ پاکستان میں آج بھی اس موضوع کو نیا سمجھا جاتا ہے حالانکہ دنیا اس پر بہت کام کر چکی ہے۔ رواں برس پاکستان کو اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوق اطفال کی توثیق کیے ہوئے 30 برس مکمل ہوگئے ہیں اور پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے سب سے پہلے اس معاہدے کی توثیق کی ۔ اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق اطفال کے چار ستون ہیں جن میں بچوں کی شمولیت اہم ترین اور اس معاہدے کی بنیاد ہے۔

آرٹیکل 12 اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ بچوں سے متعلق معاملات میں ان کی رائے لیں۔ہمیں اپنے بچوں کی رائے کو مفید بنانے کیلئے ان پر کام کرنا ہوگا۔ اس کیلئے ایک موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں بچوں کو تربیت اور آگاہی دی جائے، انہیں امپاور کیا جائے، خود اعتمادی پیدا کی جائے تاکہ وہ خود سے جڑے معاملات پر موثر انداز میں بات کر سکیں۔ ہمارے گھریلو نظام میں بچوں کی رائے کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بچے جب کسی معاملے پر رائے دینے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ کہہ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے کہ تم ابھی بچے ہو۔

جب بچے کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی، اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تو اس کی شخصیت پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ بچوں کی رائے دیہی کا عمل صرف گھر یا تعلیمی معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی معاہدے اس کے متقاضی ہیں کہ ہماری حکومتیں بچوں سے متعلق فیصلہ سازی میں بچوں کی رائے کو شامل کریں۔ بچوں کے حوالے سے قانون سازی کیلئے ارکان اسمبلی، سینیٹرز و ماہرین اپنی رائے دیتے ہیں مگر جن کیلئے یہ قانون سازی ہورہی ہے ان کی شمولیت کہیں نہیں ہے۔ ان کی رائے کو نہیں سنا جاتا جو ازحد ضروری ہے۔

بدقسمتی سے اس کیلئے ہمارے ہاں کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔ قانون سازی پر بچوں سے رائے لینے کی بات کریں تو سوالات اٹھتے ہیں کہ ان سے رائے کون لے گا؟ کون انہیں اکٹھا کرے گا اور کس پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے گا؟پاکستان میں 2017ء میں نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چلڈرن کا قانون پاس ہوا۔ اس قانون کے تحت موجودہ حکومت نے قومی کمیشن برائے حقوق اطفال بنایا اور اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو ا ہے کہ 2 بچوں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی کو بھی اس میں نمائندگی دی گئی۔اس وقت بعض سیاسی رہنما اور ماہرین یہ سوال کر رہے تھے کہ بچوں کو کمیشن کا حصہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ پھر انہیں سمجھایا گیا کہ یہ بچوں کا کمیشن ہے۔

اس کمیشن کا انتظام ماہرین ہی چلائیں گے تاہم بچوں کو اس کمیشن کا حصہ بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی آراء لی جائیں اور یہ دیکھا جائے کہ کسی معاملے پر بچے کیا سوچتے ہیں تاکہ بڑے ان کی سوچ کے مطابق چیزوں کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ ہر صوبے میں بچوں کے تحفظ کا محکمہ موجود ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے بورڈز میں بھی بچوں کو شامل کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے حوالے سے کیے جانے والے سرکاری منصوبوں میں بھی بچوں کی رائے شامل کی جائے۔

اگر ہم صحیح معنوں میں بچوں کی شمولیت کو یقینی بنانا چاہیں تو اس کے تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ بچوں کو لیڈنگ رول میں لانے کیلئے محکمہ تعلیم کو نوٹیفکیشن جاری کرنا چاہیے کہ تمام سکول، چلڈرن کلب یا سوسائٹی بنائیں جن میں بچوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جائے اور ان کی آواز کو موثر بنایا جائے۔ اس طرح بچوں میں قائدانہ صلاحتیں پیدا ہونگی، ان میں خود اعتمادی آئے گی، اچھے برے کی تمیز پیدا ہوگی، ان میں اپنی آواز اٹھانے اور انکار کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا لہٰذا جب یہ بچے بڑے ہوں گے تو کارآمد شہری بنیں گے اور ملک کو ایک اچھی قیادت مل سکے گی۔

اس طرح سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی روک تھام بھی ہوسکتی ہے۔ ہمیں ایک جامع حکمت عملی بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ لیکن اگر اس کے بغیر صرف دکھاوے کیلئے بچوں کو شامل کیا گیا تو ان کی نمائندگی تو ہوجائے گی مگر اس شمولیت کا فائدہ نہیں ہوگا۔سوئزرلینڈ میں چلڈرن پارلیمنٹ موجود ہے، وہاں بچوں کے حوالے سے قوانین ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، یہاں بھی ایسا نظام بنانا ہوگا۔ ہمارے ملک میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے قوانین موجود ہیں مگر بچوں کا استحصال ہورہا ہے لہٰذا قانون پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ بچوں کی آگاہی کیلئے ان قوانین کو سادہ زبان اور آسان انداز میں پیش کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ چائلڈ فرینڈلی ماحول بنانا ہوگا جس کیلئے بڑوں کو بچوں کے لیول پر جاکر ان کا مددگار بننا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے حقوق اطفال نے حکومت پاکستان کو مختلف سفارشات دی ہیں جن میں اس پر زور دیاگیا کہ بچوں کی شمولیت کو ادارہ جاتی شکل دی جائے اور قومی سطح سے لے کر نچلی سطح تک ان کی شمولیت کے لیے لائحہ عمل بنایا جائے ۔ ملکی سیاست کا جائزہ لیں تو وہ سیاستدان جو طلبہ یونینز سے سیاست میں آئے، ان کا ویژن اور پرفارمنس دوسرے سیاستدانوں سے بہتر ہے لہٰذا جب ہمارے بچے سکول لیول سے ہی اپنے حقوق و دیگر کاموں میں کردار ادا کر رہے ہوں گے تو وہ مستقبل میں بہتر قیادت کے طور پر سامنے آئیں گے۔

حکومت پاکستان نے عالمی معاہدوں کے مطابق بچوں کے حوالے سے کافی کام کیا ہے مگر ابھی بھی بے شمار کام باقی ہے۔ ڈومیسٹک چائلڈ لیبر اور جنسی تشدد کے خلاف بھی کام ہوا، قانون سازی کی گئی مگر اس میں رکاوٹیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ متعلقہ محکموں کے پاس افرادی و مالی وسائل کی کمی ہے۔

پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کو ممنوع قرار دیا کہ 15برس سے کم عمر بچے گھریلو ملازم کے طور بھی کام نہیں کرسکتے۔ اگر محکمہ لیبر کی افرادی قوت کا جائزہ لیا جائے تو صوبے بھر میں صرف 85 انسپکٹرز ہیں جنہوں نے ان قوانین پر عملدرآمد کرانا ہے لہٰذا قانون سازی کے ساتھ ساتھ اب عملدرآمد کے نظام پر توجہ دینا ہوگی۔ انسانی حقوق کی وزارت اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے محکموں کا بجٹ بڑھایا جائے تاکہ بچوں سمیت تمام پاکستانیوں کی حالت بہتر بنائی جاسکے۔

سمیر حیدر
(بچوں کا نمائندہ )

میں 2015 سے چائلڈ ایڈوکیسی کر رہا ہوں اور اس کے لیے ملک کی قومی قیادت سے لیکر نچلی سطح کی قیادت تک، سب سے بات چیت کی اور انہیں بتایا کہ بچوں کے حقوق اور فیصلہ سازی میں شمولیت کتنی اہم ہے۔ میں نے 2017ء میں بلاول بھٹو سے ملاقات کی اور قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کو قومی اسمبلی سے منظور کرانے پر آمادہ کیا ، 2018ء میں اس کا بل منظور ہوااور موجودہ حکومت نے یہ ادارہ قائم کیا۔

میں نے گورنر پنجاب و دیگر اہم شخصیات سے ملاقات کرکے انہیں بھی بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے پر آمادہ کیا۔ گزشتہ برس انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر میںنے صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق کو بچوں کا چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کیا۔ اس کے علاوہ متعدد پریس کانفرنسز بھی کیں تاکہ بچوں کے تحفظ اور فیصلہ سازی میں ان کی شمولیت کے حق کی اہمیت کو اجاگر کیا جاسکے۔ ہمارے ہاں بچوں کی فیصلہ سازی میں شمولیت کی کوئی بات نہیں کرتا لہٰذا میں اس عالمی دن کے موقع پر سب کی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔

سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہ بچے ہیں اور ان کی رائے اہم نہیں ہے حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ بچوں کی فیصلہ سازی میں شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ بچوں سے متعلق معاملات میں ان کی رائے لی جائے۔ گھریلو سطح کی بات کریں تو بہت کم بچے ہیں جن کی مانی جاتی ہے۔ اگر کسی بڑے کی بات گھر میں نہ سنی جائے تو وہ بھی اچھا محسوس نہیں کرتا بلکہ اپنے جذبات کا اظہار کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔

یہی بچوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے ، ان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے اور وہ مختلف مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوق اطفال کے آرٹیکل 12 کے تحت پاکستان، فیصلہ سازی میں بچوں کی شمولیت کا پابند ہے مگر تاحال ایسے اقدامات نہیں ہورہے جن سے بچوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جاسکے۔بچے اپنے مسائل کو جس طرح بیان کر سکتے ہیں، بڑے نہیں کر سکتے، بچوں سے رائے لینے کیلئے لوگوں کو قائل کرنا خاصاََ مشکل ہے تاہم ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ، بہتر زندگی اور مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ ان سے متعلق معاملات میں ان سے رائے لازمی لی جائے۔

بچوں کے حقوق کے حوالے سے قائم قومی کمیشن میں 2 بچوں کو نمائندگی دی گئی ہے جو بارش کا پہلا قطرہ ہے، امید ہے اب یہ سلسلہ یہاں نہیں رکے گا بلکہ اسے مزید پھیلایا جائے گا اور لوگوں کو یہ آگاہی دی جائے گی کہ بچوں کی رائے کا احترام کریں اور ان کے بارے میں فیصلے ان کی رائے کے بغیر نہ کریں۔افسوس ہے کہ بچوں کیلئے کی جانے والی قانون سازی کا بچوں کو ہی معلوم نہیں۔ بچے اپنے حقوق سے لاعلم ہیں بلکہ ان کے والدین کو بھی معلوم نہیں ہے کہ بچوں کے حقوق کیا ہیں۔ اگر والدین کو آگاہی ہوگی تو وہ اپنے بچوں کو سازگار ماحول فراہم کریں گے۔

فیصلہ سازی میں بچوں کی شمولیت یقینی بنانے کیلئے میری چند تجاویز ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ بچوں کی ایک پارلیمنٹ بنائے جس میں انہیں اکٹھا کر کے ان کی رائے لی جائے۔ اسی طرح سکولوں کی سطح پر کلب بنائیں جائیں جن میں بچوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جائے، ان کی تربیت کی جائے اور ان کی آواز کو موثر بنایا جائے۔

سول سوسائٹی ہر بچے تک نہیں پہنچ سکتی مگر حکومت کی سب تک رسائی ہے۔ سکولوں میں کلب بنا کر ہفتہ وار یا ماہانہ بنیادوں پر ایسی سرگرمیاں کرائی جائیں جن میں بچوں کو سیکھنے کو ملے، ان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کی جائیں۔ اس کے ساتھ والدین اور اساتذہ کو بھی بچوں کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جائے تاکہ ان کی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لائی جاسکے۔

لائبہ خان
(بچوں کی نمائندہ )

بچوں کے خلاف تشدد، خصوصاََ جنسی تشدد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں اور سرکاری محکمے بھی کام کر رہے ہیں مگر اس طرح سے کام نہیں ہورہا جس طرح ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک بچوں کے مسائل کا حل انہیں امپاور کرنے میں ہے۔ حکومت اور بڑوں کو چاہیے بچوں کو یہ سکھائیں کہ وہ ان مسائل خصوصاََ جنسی تشدد کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔

اس میں والدین اور اساتذہ کا کردار اہم ہے مگر یہ بھی سوال ہے کہ وہ بچوں سے کس انداز میں اور کیا بات کریں؟میری رائے ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیچرز ٹریننگ کا لازمی حصہ بھی بنایا جائے اور انہیں پابند کیا جائے کہ وہ بچوں سے ا ن حساس معاملات پر بات لازمی کریں، انہیں بتائیں کہ وہ ان خطرات سے کیسے نمٹ سکتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ جنسی تشدد کا شکار ہوجاتا ہے تو اس کی بحالی اور انصاف کا میکانزم ہونا چاہیے۔ سرکاری سطح پر ماہرین نفسیات ہونے چاہئیں جو اس بچے کی فوری کونسلنگ کریں اور اس کے خاندان کی مدد بھی کریں تاکہ بچہ دوبارہ اپنی معمول کی زندگی گزار سکے۔ بدقسمتی سے ہمارے مجموعی رویے درست نہیں۔ بچوں کی رائے کو صرف اس لیے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ وہ بچے ہیں۔

آج ہم یہاں بات کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے حقوق معلوم ہیں اور ان کے بارے میں آواز اٹھانے کا شعور بھی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ آگاہی اور شعور تمام بچوں کو ہونا چاہیے، اس حوالے سے والدین اور معاشرے کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا اور بچوں کی رائے کو اہمیت دینا ہوگی۔ والدین بھی بچوں کے حقوق سے لا علم ہیں لہٰذا بچوں اور بڑوں کو اس بارے میں آگاہی دینا ہوگی، اس کے لیے سکول کی سطح پر بچوں اور والدین کے ساتھ سیشنز رکھے جائیں اور انہیں بچوں کے حقوق و تحفظ کی تربیت دی جائے۔ بچوں کے حوالے موجود قوانین کو سادہ زبان میں شائع کیا جائے،انہیں کارٹون و دیگر اشکال میں بھی بنایا جائے تاکہ بچوں کو درست آگاہی مل سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں