کورونا وبا میں اشیائے خوردونوش کی ڈلیوری کا کام چمک گیا
لاک ڈاؤن میں گھروں پراشیائے صرف و خورونوش ڈلیوری کی سہولت نے لاتعدادافرادکوروزگارکے مواقع فراہم کیے
کورونا کی وبا نے جہاں دنیا بھر میں معیشت کا پہیہ جام کردیا اور بڑی صنعتوں کو تاریخی خسارے سے دوچار کیا ہے وہیں نئی طرح کی خدمات اور کاروبار بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران گھروں پر روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی اشیا پہنچانے (ڈلیوری) کی سہولت نے لاتعداد افراد کو روزگار کے مواقع مہیا کیے ہیں، اس رجحان نے کراچی کے ایک نوجوان کی زندگی بدل کر رکھ دی، 25سالہ شاہد بابل نے لاک ڈاؤن کے دوران گھر پر تیار فرائی مچھلی اور دیگر کھانوں کی ہوم ڈلیوری شروع کی۔
شاہد بابل کے والد شیف تھے اور ایک گھر میں خانساماں کا کام کرتے تھے تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی ملازمت چلی گئی اور 4 بچوں کی کفالت مشکل ہوگئی اس صورتحال میں بڑے بیٹے کی حیثیت سے شاہد بابل نے اپنی ذمے داریاں اداکرنے کا فیصلہ کیا، شاہد بابل نوعمری سے جدوجہداور عملی زندگی گزارنے کے لیے پرجوش رہے تھے۔
ان کا تعلق بنگالی برادری سے ہے اور پاکستان میں پیدا ہونے والے دیگر بنگالیوں کی طرح انھیں بھی اپنی شناخت کے حصول میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے ہار نہ مانی اور اپنی جدوجہد جاری رکھی اور اس مسئلے کو مختلف فورمز پر موثر انداز میں اجاگر کیا، شاہد لاک ڈاؤن سے قبل 7سال سے پی ای سی ایچ ایس کے ایک معروف اسکول میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے اس کے ساتھ وہ بچوں کو گھروں پر ٹیوشن دیتے اور وڈیو ایڈیٹنگ کا کام کرکے بھی والد کا ہاتھ بٹارہے تھے۔
لاک ڈاؤن کی مشکلات کے باعث ان کا اسکول کی ملازمت پر انحصار بڑھ گیا اور اسکول بند ہونے سے یہ ملازمت بھی مشکل میں پڑتی دکھائی دینے لگی جس پر شاہد نے اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر گھر سے کھانے ڈی لیور کرنے کے کام کو منظم کاروبار کی شکل دینے کا ارادہ کیا اور سی فوڈ بابو کے نام سے تازہ مچھلی اور مچھلی کے پکوان گھروں پر ڈی لیور کرنے کا کام شروع کردیا، شاہد بابل کے مطابق بنگالی گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے انھوں نے مچھلی کی سپلائی کے کاروبار کا انتخاب کیا دوسری وجہ یہ تھی کہ دیگر تمام ضرورت کی اشیا کی آن لائن فروخت کی لاتعداد کمپنیاں کام کررہی ہیں لیکن سی فوڈ کی سپلائی کرنیو الی کوئی کمپنی مارکیٹ میں نہیں تھی۔
شاہدنوجوانوں کیلیے موٹیویشنل وڈیوزسے پہلے ہی مشہورتھے
شاہد بابل نوجوانوں کو کامیاب بنانے اور محنت کے ذریعے اپنی زندگی بہتر بنانے کے مشورے دینے کی وجہ سے پہلے ہی سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا پر جگہ بناچکے تھے اور مختلف پلیٹ فارمز پر ان کی صلاحیتوں اور جدوجہد کو سراہا جاتا رہا تاہم جس انداز میں انھوں نے ایک چھوٹے سے کاروبار کا منظم انداز میں آغاز کیا اس پر وہ ایک بار پھر سوشل میڈیا پر مقبول ہوگئے ہیں، شاہد نے اپنی کمپنی سی فوڈ بابو کے نام پر ایف بی آر سے این ٹی این رجسٹرڈ کرایا اور اس سرٹیفکیٹ کو اس ٹھیلے پر چسپاں کردیا جس پر ان کے والد ان دنوں مچھلی فروخت کرتے ہیں۔
شاہد خود بھی اس ٹھیلے پر اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں، صاف ستھرے لباس میں بات کرنے کا سلیقہ رکھنے والے شاہد نے ثابت کردیا ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان کوئی بھی کام کریں تو دوسروں کے لیے مثال بن جاتے ہیں، شاہد بابل کہتے ہیں کہ این ٹی این رجسٹریشن اس لیے کرائی کے اپنے ذمے تمام محصولات باقاعدگی کے ساتھ ایمانداری سے ادا کرتے رہیں کیونکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے حکومت کے پاس وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے اور یہ وسائل اسی وقت مہیا ہوں گے جب عوام اپنے ذمہ ٹیکس ایمانداری سے قومی فریضہ سمجھ کر انجام دیں۔
کام پرسرمایہ کاری نہیں کی،رقم ویب سائٹ پرخرچ ہوئی
کام کے لیے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی زیادہ تر پیسے ویب سائٹ تیار کرنے پر خرچ ہوئے انھوں نے ملنے والے پہلے آرڈر کے لیے 500 روپے کی مچھلی خریدی جس پرکٹنگ پیکنگ اور ڈی لیوری پر مزید 200 روپے خرچ ہوئے اور 300روپے کا منافع ہوا، منافع کے اس تناسب کو دیکھ کر شاہد نے اسکول میں اپنی ملازمت ترک کردی اور تمام وقت کاروبار کو دینے کا فیصلہ کرلیا۔
شاہد نے مچھلی کے اس آن لائن کاروبار کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے تشہیر کی جو جلد ہی پورے شہر میں پھیل چکا ہے وہ روزانہ 3 گھنٹے فشریز سے مچھلی کی خریداری کٹنگ اور پیکنگ پر صرف کرتے ہیں اور باقی 3 گھنٹوں میں مچھلی کی ڈی لیوری کا انتظام کرتے ہیں ان کے پاس ایک کل وقتی رائیڈر موجود ہے۔
آج کا نوجوان سہل پسند ہوگیا ہےمحنت سے اس کا جی کتراتاہے،شاہد
شاہد بابل کہتے ہیں کہ آج کا نوجوان سہل پسند ہے اور محنت سے اس کا جی کتراتا ہے اور جب محنت کے بغیر کامیابی نہیں ملتی تو مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے ایسے نوجوانوں کو شاہد مشورہ دیتے ہیں کہ کم عمری میں تھوڑی محنت کریں تاکہ باقی زندگی آسان گزرسکے اگر آج کچھ محنت کرکے اپنا مقام بنالیا تو باقی زندگی میں اتنی مشکلات نہیں ہوں گی اور محنت کرکے کامیابی حاصل کرنے کا پھل مل جائے تو نوجوان کامیابی کے راستے پر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔
سی فوڈ بابو آئندہ ماہ لاہور سے اپنی فرنچائز شروع کررہی ہے
سی فوڈ بابو کے مالک شاہد کہتے ہیں کہ ابھی گاہکوں اور آرڈرز کی تعداد کم ہے لیکن اپنا کاروبار ہونے کی وجہ سے وہ مطمئن ہیں اور کاروبار کو ترقی دینے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں وہ اپنا کاروبار لاہور اسلام آباد تک پھیلانے کے خواہش مند ہیں اور آئندہ ماہ سے لاہور سے اپنی فرنچائز کا آغاز کررہے ہیں جو تازہ مچھلی آن لائن فروخت کرے گی۔
میرے آن لائن کاروبار کو دیکھ کر 150 افرادنے ایساکاروبار شروع کیا
شاہد بابل کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کراچی میں مچھلی کی آن لائن فروخت کے کاروبار کی بنیاد رکھی جس وقت انہوں نے کاروبار شروع کیا کوئی قابل ذکر سپلائر مارکیٹ میں موجود نہ تھے اب 150کے لگ بھگ افراد یہ کام کررہے ہیں جن میں سے 38 نوجوانوں نے شاہد بابل کی مشاورت اور رہنمائی میں کاروبار شروع کیا اور اپنا روزگار کمانے کے ساتھ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کررہے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران گھروں پر روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی اشیا پہنچانے (ڈلیوری) کی سہولت نے لاتعداد افراد کو روزگار کے مواقع مہیا کیے ہیں، اس رجحان نے کراچی کے ایک نوجوان کی زندگی بدل کر رکھ دی، 25سالہ شاہد بابل نے لاک ڈاؤن کے دوران گھر پر تیار فرائی مچھلی اور دیگر کھانوں کی ہوم ڈلیوری شروع کی۔
شاہد بابل کے والد شیف تھے اور ایک گھر میں خانساماں کا کام کرتے تھے تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی ملازمت چلی گئی اور 4 بچوں کی کفالت مشکل ہوگئی اس صورتحال میں بڑے بیٹے کی حیثیت سے شاہد بابل نے اپنی ذمے داریاں اداکرنے کا فیصلہ کیا، شاہد بابل نوعمری سے جدوجہداور عملی زندگی گزارنے کے لیے پرجوش رہے تھے۔
ان کا تعلق بنگالی برادری سے ہے اور پاکستان میں پیدا ہونے والے دیگر بنگالیوں کی طرح انھیں بھی اپنی شناخت کے حصول میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے ہار نہ مانی اور اپنی جدوجہد جاری رکھی اور اس مسئلے کو مختلف فورمز پر موثر انداز میں اجاگر کیا، شاہد لاک ڈاؤن سے قبل 7سال سے پی ای سی ایچ ایس کے ایک معروف اسکول میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے اس کے ساتھ وہ بچوں کو گھروں پر ٹیوشن دیتے اور وڈیو ایڈیٹنگ کا کام کرکے بھی والد کا ہاتھ بٹارہے تھے۔
لاک ڈاؤن کی مشکلات کے باعث ان کا اسکول کی ملازمت پر انحصار بڑھ گیا اور اسکول بند ہونے سے یہ ملازمت بھی مشکل میں پڑتی دکھائی دینے لگی جس پر شاہد نے اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر گھر سے کھانے ڈی لیور کرنے کے کام کو منظم کاروبار کی شکل دینے کا ارادہ کیا اور سی فوڈ بابو کے نام سے تازہ مچھلی اور مچھلی کے پکوان گھروں پر ڈی لیور کرنے کا کام شروع کردیا، شاہد بابل کے مطابق بنگالی گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے انھوں نے مچھلی کی سپلائی کے کاروبار کا انتخاب کیا دوسری وجہ یہ تھی کہ دیگر تمام ضرورت کی اشیا کی آن لائن فروخت کی لاتعداد کمپنیاں کام کررہی ہیں لیکن سی فوڈ کی سپلائی کرنیو الی کوئی کمپنی مارکیٹ میں نہیں تھی۔
شاہدنوجوانوں کیلیے موٹیویشنل وڈیوزسے پہلے ہی مشہورتھے
شاہد بابل نوجوانوں کو کامیاب بنانے اور محنت کے ذریعے اپنی زندگی بہتر بنانے کے مشورے دینے کی وجہ سے پہلے ہی سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا پر جگہ بناچکے تھے اور مختلف پلیٹ فارمز پر ان کی صلاحیتوں اور جدوجہد کو سراہا جاتا رہا تاہم جس انداز میں انھوں نے ایک چھوٹے سے کاروبار کا منظم انداز میں آغاز کیا اس پر وہ ایک بار پھر سوشل میڈیا پر مقبول ہوگئے ہیں، شاہد نے اپنی کمپنی سی فوڈ بابو کے نام پر ایف بی آر سے این ٹی این رجسٹرڈ کرایا اور اس سرٹیفکیٹ کو اس ٹھیلے پر چسپاں کردیا جس پر ان کے والد ان دنوں مچھلی فروخت کرتے ہیں۔
شاہد خود بھی اس ٹھیلے پر اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں، صاف ستھرے لباس میں بات کرنے کا سلیقہ رکھنے والے شاہد نے ثابت کردیا ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان کوئی بھی کام کریں تو دوسروں کے لیے مثال بن جاتے ہیں، شاہد بابل کہتے ہیں کہ این ٹی این رجسٹریشن اس لیے کرائی کے اپنے ذمے تمام محصولات باقاعدگی کے ساتھ ایمانداری سے ادا کرتے رہیں کیونکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے حکومت کے پاس وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے اور یہ وسائل اسی وقت مہیا ہوں گے جب عوام اپنے ذمہ ٹیکس ایمانداری سے قومی فریضہ سمجھ کر انجام دیں۔
کام پرسرمایہ کاری نہیں کی،رقم ویب سائٹ پرخرچ ہوئی
کام کے لیے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی زیادہ تر پیسے ویب سائٹ تیار کرنے پر خرچ ہوئے انھوں نے ملنے والے پہلے آرڈر کے لیے 500 روپے کی مچھلی خریدی جس پرکٹنگ پیکنگ اور ڈی لیوری پر مزید 200 روپے خرچ ہوئے اور 300روپے کا منافع ہوا، منافع کے اس تناسب کو دیکھ کر شاہد نے اسکول میں اپنی ملازمت ترک کردی اور تمام وقت کاروبار کو دینے کا فیصلہ کرلیا۔
شاہد نے مچھلی کے اس آن لائن کاروبار کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے تشہیر کی جو جلد ہی پورے شہر میں پھیل چکا ہے وہ روزانہ 3 گھنٹے فشریز سے مچھلی کی خریداری کٹنگ اور پیکنگ پر صرف کرتے ہیں اور باقی 3 گھنٹوں میں مچھلی کی ڈی لیوری کا انتظام کرتے ہیں ان کے پاس ایک کل وقتی رائیڈر موجود ہے۔
آج کا نوجوان سہل پسند ہوگیا ہےمحنت سے اس کا جی کتراتاہے،شاہد
شاہد بابل کہتے ہیں کہ آج کا نوجوان سہل پسند ہے اور محنت سے اس کا جی کتراتا ہے اور جب محنت کے بغیر کامیابی نہیں ملتی تو مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے ایسے نوجوانوں کو شاہد مشورہ دیتے ہیں کہ کم عمری میں تھوڑی محنت کریں تاکہ باقی زندگی آسان گزرسکے اگر آج کچھ محنت کرکے اپنا مقام بنالیا تو باقی زندگی میں اتنی مشکلات نہیں ہوں گی اور محنت کرکے کامیابی حاصل کرنے کا پھل مل جائے تو نوجوان کامیابی کے راستے پر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔
سی فوڈ بابو آئندہ ماہ لاہور سے اپنی فرنچائز شروع کررہی ہے
سی فوڈ بابو کے مالک شاہد کہتے ہیں کہ ابھی گاہکوں اور آرڈرز کی تعداد کم ہے لیکن اپنا کاروبار ہونے کی وجہ سے وہ مطمئن ہیں اور کاروبار کو ترقی دینے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں وہ اپنا کاروبار لاہور اسلام آباد تک پھیلانے کے خواہش مند ہیں اور آئندہ ماہ سے لاہور سے اپنی فرنچائز کا آغاز کررہے ہیں جو تازہ مچھلی آن لائن فروخت کرے گی۔
میرے آن لائن کاروبار کو دیکھ کر 150 افرادنے ایساکاروبار شروع کیا
شاہد بابل کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کراچی میں مچھلی کی آن لائن فروخت کے کاروبار کی بنیاد رکھی جس وقت انہوں نے کاروبار شروع کیا کوئی قابل ذکر سپلائر مارکیٹ میں موجود نہ تھے اب 150کے لگ بھگ افراد یہ کام کررہے ہیں جن میں سے 38 نوجوانوں نے شاہد بابل کی مشاورت اور رہنمائی میں کاروبار شروع کیا اور اپنا روزگار کمانے کے ساتھ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کررہے ہیں۔