کیا 2030 تک تمام اینٹی بائیوٹکس ناکارہ ہوجائیں گی

ہر سال تقریباً 7 لاکھ لوگ اینٹی بائیوٹک کے خلاف مدافعت پیدا ہوجانے کی وجہ سے اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں

پاکستان میں 70 سے 80 فیصد اینٹی بائیوٹک ادویہ کا استعمال غلط طریقے سے ہورہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہر سال نومبر میں عالمی سطح پر لوگوں میں اینٹی بائیوٹکس سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کےلیے ایک ہفتہ مختص کیا جاتا ہے۔ سال 2020 میں آگاہی کی یہ مہم 18 سے 24 نومبر تک چلائی جارہی ہے، جس میں اینٹی بائیوٹکس کے بے جا اور غلط استعمال سے زندگیوں کو لاحق خطرات سے متعلق لوگوں میں شعور اجاگر کیا جارہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اس مسئلے کو دنیا کے 10 بڑے صحت سے متعلق مسائل کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

اینٹی بائیوٹکس کے اس رجحان کی وجہ سے وہ بیماریاں جو پہلے ان دواؤں کے استعمال سے ٹھیک ہوجاتی تھیں، اب اینٹی بائیوٹکس کے بے جا اور غلط استعمال کی وجہ سے اپنی افادیت کھورہی ہیں۔ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف جراثیم کی مدافعت کا مطلب یہ ہے کہ جب جراثیم میں ان کے خلاف قوت پیدا ہوجاتی ہے تو پھر یہ ادویہ ان پر اثرانداز نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے بیماری پر قابو نہیں پایا جاسکتا اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

اینٹی بائیوٹکس کی افادیت ختم ہونے کی اہم وجہ اس کا غلط استعمال ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو نزلہ، زکام اور کھانسی تھی، جو کہ عام دواؤں سے دور ہوسکتی تھی۔ مگر آپ نے غیر ضروری طور پر ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر اینٹی بائیوٹک کا استعمال شروع کردیا، یا ڈاکٹر نے آپ کو 14 دن کی اینٹی بائیوٹک صبح و شام کھانے کو دی تھی مگر آپ نے وہ دوا 5 دن کھا کر چھوڑ دی یا پھر دوا، خوراک میں ناغہ کرکے کھائی اور 14 دنوں کی خوراک 20 دنوں میں پوری کی۔ تو یہ تمام وجوہات اینٹی بائیوٹک ادویہ کا اثر زائل کرنے کےلیے بہت ہیں۔ اور اگر آپ نے دو تین مرتبہ ایک ہی اینٹی بائیوٹک کے ساتھ یہی سلسلہ روا رکھا تو یہ دوا مستقبل میں آپ کے جسم میں موجود بیکٹیریا، وائرس یا فنگس کےلیے کوئی اثر نہیں رکھے گی۔ اس کے بعد یا تو آپ کو اینٹی بائیوٹک تبدیل کرنی پڑے گی یا پھر اس کی مقدار میں اضافہ کرنا ہوگا، جو کہ آپ کی صحت کےلیے مضر ثابت ہوسکتا ہے۔


اس سلسلے میں متعدی امراض کے ڈاکٹر اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ ہر سال تقریباً 7 لاکھ لوگ اینٹی بائیوٹک کے خلاف مدافعت پیدا ہوجانے کی وجہ سے اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں، اسی لیے عالمی ادارہ صحت نے اسے انسانیت کےلیے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اینٹی بائیوٹک کے خلاف مدافعت پیدا ہوجانے کی وجہ سے سال 2030 تک 30 کروڑ (300 ملین) افراد موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے گلوبل ایکشن پلان کے نام سے باقاعدہ مہم کا آغاز کیا ہوا ہے تاکہ اس خطرے سے نمٹا جا سکے۔ پاکستان بھی اس مہم کا حصہ ہے اور یہاں بھی اس حوالے سے کام ہورہا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز نے ایک تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں 70 سے 80 فیصد اینٹی بائیوٹک ادویہ کا استعمال غلط طریقے سے ہورہا ہے، جس کا واضح ثبوت ٹائیفائیڈ کی اینٹی بائیوٹک ادویہ کے خلاف پیدا ہونے والی مدافعت ہے۔ چند سال قبل تک جن دواؤں سے ٹائیفائیڈ کا علاج ممکن تھا وہ اب کارآمد نہیں رہیں اور اب بہت کم اینٹی بائیوٹک ادویہ رہ گئی ہیں جن کی وجہ سے مریض پر مہنگی دواؤں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔

اس صورتحال پر قابو پانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم ڈاکٹر کی مجوزہ ادویہ اور خوراک سے تجاوز نہ کریں۔ دوائیں ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال نہ کیجئے۔ اور جو ادویہ استعمال کریں وہ بلاناغہ مطلوبہ دورانیے تک ضرور استعمال کیجئے، تاکہ آپ اس صورتحال کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔ عین ممکن ہے کہ سال 2030 تک تمام اینٹی بائیوٹکس ناکارہ ہوجائیں اور دنیا کورونا جیسی عالمی وبا کے ساتھ ساتھ عام بیماریوں سے بھی صرف اس بے احتیاطی کی وجہ سے لڑنے سے قاصر ہوجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story