بالآخر نونہال بدل گیا

نونہال نے کئی نسلوں کی تعلیم وتربیت میں اہم کر دار ادا کیا، بہت سارے ادیب و شاعر ہمدرد نونہال ہی کے ذریعے قلمکار بنے


حکیم محمد سعید کا بچوں سے خصوصی لگاؤ عملی شکل کی صورت ہمدرد نونہال میں نظر آتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اور ہمدرد نونہال بدل گیا۔ اکتوبر 2020 کا شمارہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ حیرت کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ نونہال اتنے برس تک ایک ہی روٹین میں چلتا رہا۔ گزشتہ سال اس میں چند تبدیلیاں آئیں، لیکن وہ تبدیلیاں زیادہ اچھی نہیں تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی رسالے سے ذاتی انتقام لینے پر اُتر آیا ہے۔ سلیم مغل صاحب مدیراعلیٰ بنادیے گئے تھے، لیکن ان سے بات کرکے لگتا تھا کہ اختیارات کے مسائل سے نبردآزما ہیں۔ حتیٰ کہ نونہال جیسے ادارے میں ایک ڈھنگ کا ڈیزائنر تک موجود نہیں۔

اکتوبر میں ایک پرائیوٹ ادارے کے زیر سایہ ہمدرد کا شمارہ چھپ کر آیا۔ پہلی نظر میں تو ہم سمجھے کہ شاید ریڈرز ڈائجسٹ اٹھا لائے ہیں۔ سرورق کی ترتیب سے لے کر اس پر موجود ہیڈنگز کی ترتیب یوں تھی جیسے ریڈرز ڈائجسٹ کی ہوتی ہے یا پھر پاکستان کا اردو ڈائجسٹ (اردو ڈائجسٹ بھی ریڈرز ڈائجسٹ کے تتبع میں نکالا گیا تھا)۔

نونہال کے صفحات بڑھا کر اسے مکمل رنگین کردیا گیا اور سب سے بڑا کام یہ ہوا کہ اس کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھوتی ہوئی 100 روپے کردی گئی۔ جیسے پورے ملک میں ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اس کا اثر اگر یہاں آیا تو اس میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اکتوبر کا شمارہ چونکہ اس کمپنی کا پہلا شمارہ تھا، اس لیے اردو فونٹ کا مسئلہ رہا، جسے نومبر کے شمارے میں پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ البتہ نونہال کی لوح کا آئیڈیا تو عمدہ ہے لیکن لوگو کسی پروفیشنل سے بنوانا چاہیے تھا۔ اردو کتابت کرنے والے کم تو ہوئے ہیں لیکن ختم نہیں ہوئے اور اب تو انیس بیگ جیسے لوگ بہت ہی عمدہ قسم کے لوگو بنا رہے ہیں۔

رسالے کو تقریباً کہانیوں سے مضامین میں تبدیل کردیا گیا۔ کہانیاں کم اور مضامین کی تعداد زیادہ رکھی گئی ہے۔ ہمارے خیال میں کہانیوں کا حصہ ہر صورت زیادہ ہونا چاہیے۔ اس کی ایک وجہ ہے کہ ہمارے ہاں نونہال کہانیوں پر مشتمل رسالہ رہا ہے۔ ڈیزائننگ کے اعتبار سے تبدیلیاں ٹھیک ہیں لیکن اندر کا مواد کہانیوں ہی کے ذریعے پرکشش ہوتا ہے۔

انگریزی حصے میں بھی یہ صورت حال ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ انگریزی اور اردو میگزین ایک ساتھ نکالنے کے بجائے اردو اور انگریزی رسالہ الگ الگ نکالا جاتا۔ ابھی ایک عجیب قسم کا ملغوبہ لگ رہا ہے۔ پرکشش ڈیزائننگ اگرچہ رسالے کا مجموعی طور پر اچھا تاثر بنارہی ہے، لیکن اس چکر میں اس کی روح متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ حکیم محمد سعید کے انگریزی نام کو بھی معروف طریقے سے لکھنے کے بجائے غیر معروف طریقے سے لکھا جارہا ہے، اس کی کیا توجیہہ ہے، معلوم نہیں۔

میرا تعلق چونکہ بچوں کے ادب سے ہے، اس لیے بچوں کے ادب میں آج کل کیا چل رہا ہے، جاننے کی کوشش رہتی ہے اور نونہال ان رسائل میں شامل ہے جسے میں آج بھی پورا پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس رسالے میں ہونے والی تبدیلیوں سے آہستہ آہستہ بچے مانوس ہوجائیں گے، بشرطیکہ اس میں قارئین کی دلچسپی کا خیال رکھا جائے۔

ہمدرد نونہال کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ کو تقریباً ستر سال کا عرصہ ہونے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکیم محمد سعید کو بچوں سے خصوصی لگاؤ تھا اور یہ لگاؤ عملی شکل کی صورت ہمدرد نونہال میں نظر آتا ہے۔ ہمدرد نونہال کا آغاز ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی حکیم محمد سعید نے 1953 میں کیا اور اس کے پہلے مدیران میں فریدہ ہمدرد، ثریا ہمدرد اور مسعود احمد برکاتی کا نام شمار ہوتا ہے۔ مسعو احمد برکاتی تاحیات مدیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ مسعود احمد برکاتی کو دو اعزازحاصل ہوئے، ایک یہ کہ وہ کسی بھی رسالے کے سب سے زیادہ عرصہ رہنے والے مدیر رہے۔ دوم یہ کہ نومبر 1982 میں انھوں نے نونہال ہی میں بچوں کےلیے پہلا سفر نامہ ''دو مسافر، دو ملک'' کے نام سے لکھا، جو قسط وار شائع ہوا۔

نونہال کا سائز وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہا اور اب ایک طویل عرصے سے وہ ٹیکسٹ بک سائز میں شائع ہورہا ہے۔ رسالے کا ابتدا میں نام صرف نونہال تھا، جو اپریل 1956 میں معمولی اضافے کے ساتھ ہمدرد نونہال ہوگیا۔ آج کل ہمدرد نونہال ایک طویل عرصے سے خاص نمبر کے عنوان سے صرف سال نامے شائع کررہا ہے، لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب نونہال نے بھی موضوعاتی خاص نمبرز شائع کیے۔ ان خاص نمبرز میں آزادی کے علم بردار نمبر، افریشیا کی کہانیاں نمبر، غالب نمبر، اقبال نمبر، پاکیزہ نمبر وغیرہ بھی شامل ہیں۔

نونہال نے کئی نسلوں کی تعلیم وتربیت میں اہم کر دار ادا کیا ہے اور بہت سارے ادیب و شاعر ہمدرد نونہال ہی کے ذریعے بڑے قلمکار بنے ہیں۔ ابتدا میں بڑے ادیبوں نے ہمدرد نونہال کو اپنی تحریروں اور نظموں سے سجایا۔ ان بڑے ناموں میں مسعود احمد برکاتی کے علاوہ رئیس امروہوی، آغا اشرف، ملا واحدی، قمر ہاشمی، محشر بدایونی، رشید احمد بٹ، محمد انور بھوپالی، کشور ناہید، رئیس فاطمہ، معراج، ڈاکٹر رؤف پاریکھ وغیرہ کے نام نظر آتے ہیں۔

ایک اہم چیز جو اس تبدیلی کی لہر میں نہیں آئی، وہ اس رسالے کا سائز ہے۔ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں چھوٹی عمر کے بچوں کےلیے جو رسالے نکالے جاتے ہیں، ان کے سائز قارئین کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کےلیے عموماً بڑے سائز میں رسالہ شائع کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تعلیم و تربیت، پھول، ذوق و شوق، الف نگر، اقرا وغیرہ بڑے سائز میں شائع ہوتے ہیں، جو قریباً قریباً اے فور سائز (میگزین سائز) ہوتا ہے۔ تھوڑے بڑے بچوں کےلیے جو رسالے نکلتے ہیں اس کا سائز اے فور کا آدھا یعنی ڈائجسٹ سائز ہوتا ہے۔ ماہنامہ ساتھی اس کی مثال ہے۔

نونہال بھی اب تک چھوٹے بچوں کا رسالہ شمار ہوتا ہے۔ اس کا سائز اس کے قارئین کے مطابق نہیں ہے۔ اب جبکہ اتنی ساری تبدیلیاں کر ہی دی گئی تھیں تو رسالے کے سائز کو بھی دیکھ لینے میں بھلا کیا حرج تھا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں