پشاور جلسہ اپوزیشن ناکام یا حکومت کی حکمت عملی کامیاب

پی ڈی ایم کے قائدین کو اس بات پر سوچنا ہوگا کہ گیارہ پارٹیوں کا مجموعہ متاثر کن جلسے کرنے میں ناکام کیوں ہے؟

پی ڈی ایم کے جلسے کو اپوزیشن کامیاب جبکہ حکومت اسے ناکام جلسہ قرار دے رہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے پشاور میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس جلسے کےلیے پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن نے خوب تیاری کی۔ مختلف کمیٹیاں بنیں، سوشل میڈیا پر خوب تشہیر کی گئی۔ اے این پی، جے یو آئی، جو خیبرپختونخوا میں اسٹریٹ پاور رکھتی ہیں، نے اس جلسے کی میزبانی بھی حاصل کرنے کی کوشش کی، قومی وطن پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ پیپلزپارٹی بھی جلسے کی میزبانی حاصل کرنے کی خواہش مند نظر آئیں۔ لیکن تمام جماعتوں میں اتفاق ہوا کہ جلسے کی میزبانی تمام جماعتیں مشترکہ طور پر کریں گی۔

جلسے کےلیے 22 نومبر کی تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی، کورونا کیسز بھی بڑھتے گئے۔ اپوزیشن کے اس جلسے کا جواب دینے کےلیے ایک روز قبل 21 نومبر کو نوشہرہ میں پی ٹی آئی نے پاور شو کا فیصلہ کیا، جس سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب کرنا تھا لیکن کورونا کیسز کے بڑھنے پر وزیراعظم کو کابینہ نے جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا۔ جلسہ ملتوی کرنے کے مشورے پر وزیر دفاع پرویزخٹک نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا لیکن اکثریت کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔ وزیراعظم نے اپنا جلسہ ملتوی کرنے کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کو بھی صورتحال کے پیش نظر جلسے ملتوی کرنے کا مشورہ دے ڈالا۔ لیکن اپوزیشن نے حکومتی پابندی کو مسترد کردیا اور جلسہ کرنے پر بضد رہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا حکومت کورونا کی آڑ میں ان کی تحریک کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ جلسے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے پشاور کے رنگ روڈ پر پنڈال سجا لیا۔ جلسے کی جگہ کا انتخاب وہیں کیا گیا جہاں کچھ عرصہ قبل جے یو آئی نے ایک بڑے جلسے کا انعقاد کیا تھا اور اس جلسے کو جے یو آئی کی تاریخ کا بڑا جلسہ قرار دیا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے ساری جماعتوں نے اس پر اتفاق کیا کہ اپوزیشن اتحاد اسی طرح لوگوں کا جم غفیر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

تمام سیاسی جماعتوں نے صوبہ بھر میں یونین کونسل سطح پر تیاریاں کیں۔ اور جب 22 نومبر کا دن آیا اور جلسہ گاہ میں ورکرز آنا شروع ہوئے تو جلسہ شروع ہونے سے قبل تک پنڈال میں ورکرز کی تعداد متاثر کن نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بلور ہاؤس میں موجود قیادت کو دوپہر ایک بجے کے بعد جلسے کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا تو مولانا فضل الرحمان نے ناراضگی کا اظہارکیا اور وہ بہت مایوس نظر آئے۔ دوپہر کے کھانے کے فوری بعد پی ڈی ایم کی قیادت بلور ہاؤس سے جلسہ گاہ کےلیے روانہ ہوئی۔

پی ڈی ایم کے جلسے کو اپوزیشن کامیاب جبکہ حکومت اسے ناکام جلسہ قرار دے رہی ہے۔ معاون خصوصی کامران بنگش نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس جلسے سے پی ٹی آئی کی یونین کونسل کا جلسہ بڑا ہوتا ہے۔ حکومت کی کوشش تھی کہ اس جلسے کو کسی طریقے سے روکا جائے۔ اسی لیے جرگہ بھی تشکیل دیا گیا۔ لیکن اپوزیشن جماعتوں کی قیادت نے حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا۔ حکومت کی جانب سے کورونا سے بچاؤ کےلیے بھیڑ میں جانے سے روکنے کی تلقین کی جاتی رہی۔ اور حکومت خوب تشہیر میں مصروف رہی۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جلسے کی جانب جانے والے راستے کنٹینر کئی میل دور کھڑے کرکے بند کردیے گئے، موبائل سروس صبح سے بند رہی اور جلسہ ختم ہونے کے کئی گھنٹوں کے بعد موبائل سروس بحال کی گئی۔ حکومتی ٹیم جلسے کی نگرانی کرتی رہی۔ وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا اور معاون خصوصی کامران بنگش سوشل میڈیا پر بھی متحرک نظر آئے۔ یہاں تک کہ جلسے کے دوران ہی وزرا کی جانب سے سوشل میڈیا پر رش نہ ہونے کی تصاویر جاری کردی گئیں۔ اور جلسے کے فوری بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا بھی ردعمل سامنے آگیا کہ جلسہ ناکام رہا اور خیبرپختونخوا کے عوام نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا ہے۔


پشاور میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے نے اپوزیشن جماعتوں کی سیاست پر بہت سے سوالات چھوڑے ہیں۔ پی ڈی ایم کے قائدین کو اس بات پر سوچنا ہوگا کہ گیارہ پارٹیوں کا مجموعہ متاثر کن جلسے کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ اے این پی اور جے یو آئی جیسی خیبرپختونخوا کی بڑی جماعتیں مل کر بھی کارکنوں کو میدان میں نہ لاسکیں۔ اس جلسے نے اپوزیشن کے مستقبل پر بھی اچھے اثرات نہیں چھوڑے ہیں۔ اب اگلے جلسے کےلیے، جو لاڑکانہ اور پھر ملتان میں ہونے جارہے ہیں، اس کےلیے حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے جلسوں کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت سے لے کر خیبرپختونخوا حکومت جلسے کے حوالے سے مسلسل ردعمل دیتی رہیں۔

خیبرپختونخوا میں اے این پی اور جے یو آئی برسراقتدار رہ چکی ہیں اور ان دونوں کا ایک وسیع حلقہ ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پشاور کا جلسہ متاثر کن نہ ہونا آئندہ الیکشن کے حوالے سے بھی تصویرکشی کرگیا ہے اور خیبرپختونخوا حکومت اپوزیشن کو کاؤنٹر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے فوری وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اسے ملاقات کی اور صوبائی حکومت کی حکمت عملی کو سراہا۔ خیبرپختونخوا کے محاذ کے بعد اب باری پنجاب کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی پنجاب میں میدان گرمانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔

پشاور کے جلسے کی خاص بات ورکرز سے لے کر پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان خصوصی مقابلہ سیلفیوں اور سوشل میڈیا پر ذاتی تشہیر کا تھا۔ جلسہ شروع ہونے سے قبل ہر پارٹی کی جانب سے اپنی تشہیر سوشل میڈیا پر شروع کردی گئی۔ بلور ہاؤس سے شروع ہونے والی تصاویر لوڈ کرنے کا سلسلہ جلسے کے اختتام تک جاری رہا۔ کوئی پارٹی لیڈر سے بغل گیر ہونے کی تصاویر لوڈ کر رہا ہے تو کوئی سیلفی بناکر اپنی موجودگی کو ظاہر کررہا ہے۔ شاید سوشل میڈیا کی تشہیر میں پارٹی کے کرتا دھرتا جلسے کو کامیاب بنانے کا ٹاسک بھول ہی گئے تھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story