چاندنی راتوں میں بیس بیس صفحے لکھا کرتا تھا کوثر برڑو
کراچی سے اُنس ہے، حیدرآباد اسٹیشن سے سنہری یادیں وابستہ ہیں، کوثر برڑو
مطالعے کا شوق رات رات بھر جگائے رکھتا۔ گاؤں میں بجلی نہیں تھی۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں خیالات کو الفاظ کا پیراہن دیتے۔ لالٹین میں تیل نہ ہو، تو چاند سے رجوع کیا جاتا۔
چاندنی راتوں میں بیس بیس صفحے لکھ ڈالتے۔ اسکول جانے کے لیے سات کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا جاتا۔ گاؤں سے مرکزی شاہ راہ چار کلومیٹر دور تھی۔ بس میں لٹک کر شہر پہنچتے۔ اسکول کے لیے مزید تین کلومیٹر طے کرنے پڑتے۔ بڑی کٹھناؤں میں تعلیمی سفر طے کیا۔ اور اِن ہی کٹھناؤں نے اس شاعر تک رسائی فراہم کی، جو اندر بولتا تھا۔
یہ سندھی کے معروف شاعر اور براڈ کاسٹر، کوثر برڑو کی کہانی ہے۔ ایک کاشت کار گھرانے میں آنکھ کھولنے والے کوثر صاحب اِس وقت ریڈیو پاکستان، کراچی کے اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس شہر اور اُن کے درمیان اُنس کا رشتہ ہے۔ پہلی پوسٹنگ یہیں ہوئی تھی۔ آبائی وطن خیرپور ہے۔ جب کبھی گاؤں جاتے ہیں، تو پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیے زمینوں کا ضرور رخ کرتے ہیں۔ پورا نام غلام قاسم کوثر برڑو ہے۔ تین شعری مجموعوں سمیت اُن کی بارہ کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ اس سفر میں جو یادگار انٹرویوز کیے، اُنھیں تین کتابوں میں سمویا۔ شخصیات پر بھی قلم اٹھایا۔ لوک داستانیں اکٹھی کیں۔ یادداشتیں قلم بند کرچکے ہیں۔ اپنے کیمپئرنگ کے سفر کو بھی ایک کتاب میں ڈھالا۔
اِس شاعر کا قصّۂ زندگی کچھ یوں ہے:
کھجور کے باغات سے گھرے، تحصیل کوڈ ڈیجی کے گاؤں جانی برڑو میں اُنھوں نے یکم ستمبر 1968 کو آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، نبی بخش برڑو بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ والد کے مزاج میں سختی تھی۔ غلطیوں کا نتیجہ سزا کی صورت سامنے آتا۔ چھے بہنوں، چار بھائیوں میں وہ چھٹے ہیں۔ بچپن میں خاصے شرارتی تھے۔ بچوں کو تنگ کرتے۔ دن بھر پتنگ اڑاتے۔ اوائل عمری میں گلی ڈنڈا کھیلا۔ بعد میں کرکٹ کا تجربہ کیا۔ گاؤں کی مسجد میں وہ جمعے کا خطبہ دیا کرتے۔ اُس زمانے میں مولانا کوثر نیازی کا شہرہ تھا۔ گاؤں والے اُنھیں جانی برڑو کا کوثر نیازی کہا کرتے۔
قابل طالب علموں میں گنتی ہوتی تھی۔ پرائمری تعلیم گاؤں ہی سے حاصل کی۔ قریب ہی لیاری نامی گاؤں تھا۔ وہاں سے مڈل کا مرحلہ طے کرنے کے بعد کمپری ہینسو ہائی اسکول، خیرپور سے 75ء میں میٹرک کیا۔ وہ بے حد مشکل دن تھے۔ میلوںکا فاصلہ پیدل طے کیا کرتے، مگر ایک لمحے کے لیے بھی تعلیم ترک کرنے کا خیال ذہن میں نہیں آیا۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ سپیریر سائنس کالج، خیرپور میں داخلہ لے لیا۔ پری میڈیکل کے طالب علم تھے۔ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں کچھ عرصے سائنس کے مضمون سے بندھے رہے، مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی۔ کہتے ہیں،''اگرچہ پیار کے معاملے میں مَیں حساب کتاب نہیں کرتا، مگر حساب میں بہت کم زور ہوں (قہقہہ)۔ اِسی لیے سائنس چھوڑ کر آرٹس میں آگیا۔'' شعبہ برائے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں داخلہ لیا۔ 83ء میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی میں خاصے فعال تھے۔ سندھی ادبی سنگت کی سرگرمیوں میں آگے آگے رہے۔ ادبی نشستوں میں باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے۔ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں سندھی ادبی سنگت کی شاخ کے پہلے سیکریٹری تھے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریس کا پیشہ اختیار کرنے کا سودا سمایا۔ اُسی زمانے میں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان نے اسامیوں کا اعلان کیا۔ ٹیسٹ اور انٹرویوز کے مرحلے سے گزرے۔ پی ٹی وی سے بلاوا آگیا۔ ابھی سفر کی تیاری میں جُٹے تھے کہ اطلاع ملی، ریڈیو پاکستان بھی اُن صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کا خواہش مند ہے۔ اُنھوں نے براڈ کاسٹنگ کے میدان کا انتخاب کیا۔ اِس کا بنیادی سبب ریڈیو سے جُڑی بچپن کی یادیں تھیں۔ ریڈیو جانی برڑو کے اِس نوجوان کو دنیا بھر کی سیر کروایا کرتا تھا۔
ٹریننگ کے چھے ماہ اسلام آباد میں گزرے۔ اپریل 84ء میں کراچی پوسٹنگ ہوئی۔ نوجوان کوثر برڑو کے لیے وہ لمحات یادگار تھے کہ ریڈیو ان دنوں ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا۔ قمر جمیل، اقبال جعفری، یاور مہدی، عنایت بلوچ، رضی اختر شوق جیسے براڈکاسٹرز کی صحبت میسر آئی۔ سندھی سیکشن میں وہ تعینات تھے۔ خود کو منوانے کے لیے دن رات محنت کی۔ بچوں کا پروگرام کیا۔ بزم طلبا سنبھالا۔ جب خیرپور تبادلے کا آرڈر آیا، تو اُس وقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر نے یہ کہتے ہوئے روک لیا کہ ''پروڈیوسرز تو بہت ہیں، لیکن کام کرنے والے کم ہیں!'' لگ بھگ چار برس کراچی اسٹیشن پر گزرے۔ اُن ہی دنوں حیدرآباد اسٹیشن کا آغاز ہوا۔ عنایت بلوچ کو اس کی ذمے داریاں سونپی گئیں۔ وہ کوثر صاحب کی صلاحیتوں کے قائل تھے، فوراً اُنھیں بلوا لیا۔ آٹھ برس حیدرآباد اسٹیشن پر بیتے، جسے وہ اپنے کیریر کا سنہری دور قرار دیتے ہیں۔
وہاں ہر طرح کے پروگرام کیے۔ ''صبح مہران'' تو اُن کی پہچان بن گیا۔ 95ء میں لاڑکانہ اسٹیشن قائم ہوا۔ وہ اُس کی ذمے داری سنبھالنے والے پہلے پروڈیوسر تھے۔ تربت میں بھی کام کیا۔ 2001 میں لاہور کا رخ کیا۔ بتاتے ہیں، وہ لاہور میں تعینات ہونے والے پہلے سندھی پروڈیوسر تھے۔ وہ تجربہ یادگار رہا۔ ڈپٹی کنٹرولر ہونے کے بعد خیرپور اسٹیشن کے ڈائریکٹر ہوگئے۔ ساڑھے چار برس اس حیثیت میں کام کیا۔ لاڑکانہ میں مصروف رہے۔ کنٹرولر ہونے کے بعد مئی 2013 میں کراچی میں ایس ڈی کا عہدہ سنبھالا۔ بہ قول اُن کے،''حالاں کہ اسلام آباد کا بھی آپشن تھا، مگر میں نے کراچی کا چناؤ کیا۔ کیوں کہ اِس سے میری ابتدائی یادیں وابستہ تھیں۔''
ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد کوثر صاحب نے ڈراموں پر توجہ مرکوز کی۔ یہ سلسلہ شروع ہوگیا، تو ایف ایم 98 کے ٹرانسمیٹر کی جانب متوجہ ہوئے۔ دفتر میں ریڈیو سیٹ رکھا ہوا ہے۔ تمام پروگرامز باقاعدگی سے مانیٹر کرتے ہیں۔
ایک زمانے میں ریڈیو پاکستان کا شہرہ تھا، مقابلے کی موجودہ فضا میں آپ اِسے کہاں دیکھتے ہیں؟ اِس بابت وہ کہتے ہیں،''ایک زمانے میں ریڈیو اکیلا تھا، پھر پی ٹی وی آگیا۔ اس عرصے میں بھی ریڈیو کی حیثیت قائم رہی۔ اب کئی پرائیویٹ ٹی وی اور ریڈیو چینلز ہیں۔ سامعین تقسیم ہوگئے ہیں۔ وہ دیگر چینلز بھی سنتے ہیں۔ البتہ یہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جو ریڈیو پاکستان کا عادی ہے، وہ دیگر چینلز نہیں سنتا۔ یہ ہی ریڈیو پاکستان کی کام یابی ہے۔''
ریڈیو پاکستان کو ایف ایم 93 کی فریکوینسی سے نشر کرنا ایک اہم پیش رفت تھی، مگر سگنلز کم زور ہونے کے باعث سامعین کو دشواری پیش آتی ہے۔ کوثر صاحب کے مطابق اب اِس ٹرانسمیٹر پر کام ہورہا ہے، آنے والے عرصے میں واضح بہتری دیکھنے میں آئے گی۔ MW نشریات کے لیے دس کلوواٹ کا ٹرانسمیٹر لانڈھی میں نصب ہوگا، جس سے سگنلز مزید بہتر ہوجائیں گے۔
پیشہ ورانہ سفر کے بعد ادب کہانی شروع ہوئی۔ ماضی کھوجتے ہوئے کہتے ہیں، مطالعے کا آغاز امر جلیل، تنویر عباسی اور نسیم کھرل جیسے ادیبوں سے ہوا۔ لکھنے کا آغاز بچوں کی شاعری سے کیا۔ سندھی ادبی سنگت کی نشستوں نے اِس عمل کو مہمیز کیا۔ تخلیقات نے جراید میں بھی جگہ حاصل کی۔ معروف ماہر لسانیات، اﷲ داد بوہیو کمپری ہینسو اسکول میں اُن کے پرنسپل ہوا کرتے تھے۔ اُنھوں نے بہت حوصلہ افزائی اور راہ نمائی کی۔ شکارپور کے معروف سندھی شاعر، نثار بزمی سے اصلاح لی۔ یوں شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ رجحان غزل کی جانب تھا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں جم کر مضامین لکھے۔ انٹرنیشنل ریلیشنز کے موضوع پر تحریرکردہ اُن کے مضامین مختلف اخبارات اور رسائل میں قسط وار شایع ہوا کرتے۔ عام قارئین کے علاوہ اساتذہ بھی اُنھیں سراہتے۔
''اوجاگا ایئں خواب'' (رت جگے) اُن کا پہلا شعری مجموعہ تھا، جو 2000 میں خیرپور سے شایع ہوا۔ ردعمل بہت ہی مثبت رہا۔ 2002 میں اگلی کتاب ''یاد گھر'' کی اشاعت عمل میں آئی، جو یادداشتوں پر مشتمل تھی۔ 2005 میں شایع ہونے والی ''تنہں عشق کھے شاباس'' پاکستان کی 32 لوک اور رومانوی داستانوں پر محیط تھی۔ اِس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اسی برس ''امر راگی امر گیت'' شایع ہوئی، جو معروف گلوکار، سرمد سندھی سے متعلق تھی۔
2003-4 میں اُنھوں نے ایک گیت ''توں منھنجو صنم آھیں'' (تو میرا صنم ہے) لکھا۔ برکت علی کی آواز میں ریکارڈ ہونے والے اِس گیت نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ کوثر برڑو کی پہچان بن گیا۔ اگلا شعری مجموعہ اِسی عنوان سے 2005 میں شایع ہوا۔ تیسرا مجموعہ ''سفر چاہتن جو'' (سفر چاہتوں کا) 2012 میں منظر عام پر آیا۔ ممتاز کلاسیکی فن کار، استاد منظور علی خان پر بھی تحقیق کی۔ ان کے فن اور شخصیت سے متعلق ایک کتاب لکھی، جو اس عظیم فن کار کی بابت سندھی میں شایع ہونے والی پہلی کتاب تھی۔ ستر فن کاروں کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ''فن ایئں فنکار'' کا پہلا والیوم 2007 اور دوسرا 2012 میں شایع ہوا۔ دوسرا والیوم 65 فن کاروں کے انٹرویوز پر مشتمل تھا۔ کلچرل ڈیپارٹمنٹ آف سندھ کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب کی بہت پزیرائی ہوئی۔
کتاب ''سفر جنہار'' (تخلیق کار) میں خیرپور کے بیس شعرا کا احاطہ کیا گیا۔ ایک کتاب ''پیشکار'' کے عنوان سے منصۂ شہود پر آئی، جو ممتاز براڈکاسٹرز کے انٹرویوز پر مبنی تھی۔آج کل سندھ کے معروف صوفی فن کار، سہراب فقیر کی شخصیت پر کام کر رہیں۔
اپنی کتاب ''تنہں عشق کھے شاباس'' کو اردو میں ڈھالنے کا ارادہ ہے، مگر وقت کی کمی آڑے آجاتی ہے۔ یہی معاملہ استاد منظور علی خان سے متعلق لکھی کتاب کا ہے۔ آرزو ہے کہ اردو کے قارئین کو منظور علی اور سہراب فقیر جیسے قدآور فن کاروں سے متعارف کروائیں۔
سندھی ادب کا مستقبل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے؛ سفر جاری ہے، کتابیں چھپ رہی ہیں، اور دیگر علاقائی زبانوں سے زیادہ چھپ رہی ہیں۔ کچھ یہی معاملہ اخبارات کا ہے۔ کتب میلوں میں ریکارڈ تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ البتہ معیار کے معاملے پر، ان کے نزدیک، بحث ہوسکتی ہے۔ ادب کا مستقبل وہ لکھاری کے بجائے قاری سے جوڑتے ہیں۔ ''اگر آپ لکھتے چلے جائیں، اور پڑھنے والے نہ ہیں، تو کتابیں بے معنی ہیں۔ خوش قسمتی سے سندھی ادب پڑھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ نئی نسل کے ہاتھوں میں کتاب نظر آتی ہے۔ اور یہ خوش آیند ہے۔''
بہترین پروڈیوسر کے، حکومتی اور نجی تنظیموں سے، 75 ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ بیش تر حیدرآباد میں تعیناتی کے زمانے میں ان کے حصے میں آئے۔ البتہ وہ اعزازات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ دوستوں اور سامعین کی محبت اُن کے نزدیک سب سے بڑا اعزاز ہے۔
بیٹی کی پیدایش زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ نام کائنات رکھا کہ وہ ان کی کُل کائنات ہے۔ دُکھ بھری یادیں زیر بحث آئیں، تو کہنے لگے کہ یوں تو اِس عہد نے انسان کو اتنے غم دیے کہ وہ ''غم پروف'' ہوگیا، مگر جواں سال بیٹے کے انتقال پر گہرے کرب سے گزرے۔
وہ براڈکاسٹنگ کی جانب آنے والے افراد کو مثبت روایات کی پاس داری کا پیغام دیتے ہیں۔ زبان کی پختگی شرط ہے۔ اُن کے نزدیک ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اسکرپٹ باقاعدہ جانچا جاتا ہے۔ پھر صداکار کی باری آتی ہے، جب کہ پرائیویٹ چینلز میں اسکرپٹ کو کُلی طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ بہ قول ان کے،''کسی زمانے میں ریڈیو سے وابستہ بیش تر افراد ادیب اور شاعر ہوا کرتے تھے۔ اب فقط اِسے نوکری کے طور پر لیا جارہا ہے۔ اِس کی وجہ سے معیار گرا ہے۔''
سردی کا موسم بھاتا ہے۔ شلوار قمیص میں وہ خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ سوائے کریلے کے ہر ڈش کھا لیتے ہیں۔ اچھے شعرا سے زیادہ اچھی شاعری پسند ہے۔ استاد بخاری سے بہت متاثر ہیں۔ فکشن نگاروں میں امر جلیل کا نام لیتے ہیں۔ کسی زمانے میں باقاعدگی سے فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ ''دل لگی'' من پسند فلم ہے، جسے دیکھ کر آنسو رواں ہوگئے۔ گائیکی کے میدان میں مہدی حسن اور سرمد سندھی کے مداح ہیں۔ عشق کا تجربہ کیا۔ یہ یونیورسٹی کا تذکرہ ہے۔ گھر والوں کو بھنک پڑ گئی۔ فوراً گاؤں بلوایا، اور خاندان کی ایک لڑکی سے رشتۂ ازدواج میں باندھ دیا۔ یہ 82ء کا واقعہ ہے۔ خدا نے دو بیٹیوں، چار بیٹوں سے نوازا۔ بچوں میں بھی ادبی ذوق منتقل ہوا۔ خیرپور میں اُن کے کتب خانے میں پانچ ہزار کتابیں ہیں۔
چاندنی راتوں میں بیس بیس صفحے لکھ ڈالتے۔ اسکول جانے کے لیے سات کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا جاتا۔ گاؤں سے مرکزی شاہ راہ چار کلومیٹر دور تھی۔ بس میں لٹک کر شہر پہنچتے۔ اسکول کے لیے مزید تین کلومیٹر طے کرنے پڑتے۔ بڑی کٹھناؤں میں تعلیمی سفر طے کیا۔ اور اِن ہی کٹھناؤں نے اس شاعر تک رسائی فراہم کی، جو اندر بولتا تھا۔
یہ سندھی کے معروف شاعر اور براڈ کاسٹر، کوثر برڑو کی کہانی ہے۔ ایک کاشت کار گھرانے میں آنکھ کھولنے والے کوثر صاحب اِس وقت ریڈیو پاکستان، کراچی کے اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس شہر اور اُن کے درمیان اُنس کا رشتہ ہے۔ پہلی پوسٹنگ یہیں ہوئی تھی۔ آبائی وطن خیرپور ہے۔ جب کبھی گاؤں جاتے ہیں، تو پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیے زمینوں کا ضرور رخ کرتے ہیں۔ پورا نام غلام قاسم کوثر برڑو ہے۔ تین شعری مجموعوں سمیت اُن کی بارہ کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ اس سفر میں جو یادگار انٹرویوز کیے، اُنھیں تین کتابوں میں سمویا۔ شخصیات پر بھی قلم اٹھایا۔ لوک داستانیں اکٹھی کیں۔ یادداشتیں قلم بند کرچکے ہیں۔ اپنے کیمپئرنگ کے سفر کو بھی ایک کتاب میں ڈھالا۔
اِس شاعر کا قصّۂ زندگی کچھ یوں ہے:
کھجور کے باغات سے گھرے، تحصیل کوڈ ڈیجی کے گاؤں جانی برڑو میں اُنھوں نے یکم ستمبر 1968 کو آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، نبی بخش برڑو بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ والد کے مزاج میں سختی تھی۔ غلطیوں کا نتیجہ سزا کی صورت سامنے آتا۔ چھے بہنوں، چار بھائیوں میں وہ چھٹے ہیں۔ بچپن میں خاصے شرارتی تھے۔ بچوں کو تنگ کرتے۔ دن بھر پتنگ اڑاتے۔ اوائل عمری میں گلی ڈنڈا کھیلا۔ بعد میں کرکٹ کا تجربہ کیا۔ گاؤں کی مسجد میں وہ جمعے کا خطبہ دیا کرتے۔ اُس زمانے میں مولانا کوثر نیازی کا شہرہ تھا۔ گاؤں والے اُنھیں جانی برڑو کا کوثر نیازی کہا کرتے۔
قابل طالب علموں میں گنتی ہوتی تھی۔ پرائمری تعلیم گاؤں ہی سے حاصل کی۔ قریب ہی لیاری نامی گاؤں تھا۔ وہاں سے مڈل کا مرحلہ طے کرنے کے بعد کمپری ہینسو ہائی اسکول، خیرپور سے 75ء میں میٹرک کیا۔ وہ بے حد مشکل دن تھے۔ میلوںکا فاصلہ پیدل طے کیا کرتے، مگر ایک لمحے کے لیے بھی تعلیم ترک کرنے کا خیال ذہن میں نہیں آیا۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ سپیریر سائنس کالج، خیرپور میں داخلہ لے لیا۔ پری میڈیکل کے طالب علم تھے۔ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں کچھ عرصے سائنس کے مضمون سے بندھے رہے، مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی۔ کہتے ہیں،''اگرچہ پیار کے معاملے میں مَیں حساب کتاب نہیں کرتا، مگر حساب میں بہت کم زور ہوں (قہقہہ)۔ اِسی لیے سائنس چھوڑ کر آرٹس میں آگیا۔'' شعبہ برائے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں داخلہ لیا۔ 83ء میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی میں خاصے فعال تھے۔ سندھی ادبی سنگت کی سرگرمیوں میں آگے آگے رہے۔ ادبی نشستوں میں باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے۔ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں سندھی ادبی سنگت کی شاخ کے پہلے سیکریٹری تھے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریس کا پیشہ اختیار کرنے کا سودا سمایا۔ اُسی زمانے میں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان نے اسامیوں کا اعلان کیا۔ ٹیسٹ اور انٹرویوز کے مرحلے سے گزرے۔ پی ٹی وی سے بلاوا آگیا۔ ابھی سفر کی تیاری میں جُٹے تھے کہ اطلاع ملی، ریڈیو پاکستان بھی اُن صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کا خواہش مند ہے۔ اُنھوں نے براڈ کاسٹنگ کے میدان کا انتخاب کیا۔ اِس کا بنیادی سبب ریڈیو سے جُڑی بچپن کی یادیں تھیں۔ ریڈیو جانی برڑو کے اِس نوجوان کو دنیا بھر کی سیر کروایا کرتا تھا۔
ٹریننگ کے چھے ماہ اسلام آباد میں گزرے۔ اپریل 84ء میں کراچی پوسٹنگ ہوئی۔ نوجوان کوثر برڑو کے لیے وہ لمحات یادگار تھے کہ ریڈیو ان دنوں ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا۔ قمر جمیل، اقبال جعفری، یاور مہدی، عنایت بلوچ، رضی اختر شوق جیسے براڈکاسٹرز کی صحبت میسر آئی۔ سندھی سیکشن میں وہ تعینات تھے۔ خود کو منوانے کے لیے دن رات محنت کی۔ بچوں کا پروگرام کیا۔ بزم طلبا سنبھالا۔ جب خیرپور تبادلے کا آرڈر آیا، تو اُس وقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر نے یہ کہتے ہوئے روک لیا کہ ''پروڈیوسرز تو بہت ہیں، لیکن کام کرنے والے کم ہیں!'' لگ بھگ چار برس کراچی اسٹیشن پر گزرے۔ اُن ہی دنوں حیدرآباد اسٹیشن کا آغاز ہوا۔ عنایت بلوچ کو اس کی ذمے داریاں سونپی گئیں۔ وہ کوثر صاحب کی صلاحیتوں کے قائل تھے، فوراً اُنھیں بلوا لیا۔ آٹھ برس حیدرآباد اسٹیشن پر بیتے، جسے وہ اپنے کیریر کا سنہری دور قرار دیتے ہیں۔
وہاں ہر طرح کے پروگرام کیے۔ ''صبح مہران'' تو اُن کی پہچان بن گیا۔ 95ء میں لاڑکانہ اسٹیشن قائم ہوا۔ وہ اُس کی ذمے داری سنبھالنے والے پہلے پروڈیوسر تھے۔ تربت میں بھی کام کیا۔ 2001 میں لاہور کا رخ کیا۔ بتاتے ہیں، وہ لاہور میں تعینات ہونے والے پہلے سندھی پروڈیوسر تھے۔ وہ تجربہ یادگار رہا۔ ڈپٹی کنٹرولر ہونے کے بعد خیرپور اسٹیشن کے ڈائریکٹر ہوگئے۔ ساڑھے چار برس اس حیثیت میں کام کیا۔ لاڑکانہ میں مصروف رہے۔ کنٹرولر ہونے کے بعد مئی 2013 میں کراچی میں ایس ڈی کا عہدہ سنبھالا۔ بہ قول اُن کے،''حالاں کہ اسلام آباد کا بھی آپشن تھا، مگر میں نے کراچی کا چناؤ کیا۔ کیوں کہ اِس سے میری ابتدائی یادیں وابستہ تھیں۔''
ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد کوثر صاحب نے ڈراموں پر توجہ مرکوز کی۔ یہ سلسلہ شروع ہوگیا، تو ایف ایم 98 کے ٹرانسمیٹر کی جانب متوجہ ہوئے۔ دفتر میں ریڈیو سیٹ رکھا ہوا ہے۔ تمام پروگرامز باقاعدگی سے مانیٹر کرتے ہیں۔
ایک زمانے میں ریڈیو پاکستان کا شہرہ تھا، مقابلے کی موجودہ فضا میں آپ اِسے کہاں دیکھتے ہیں؟ اِس بابت وہ کہتے ہیں،''ایک زمانے میں ریڈیو اکیلا تھا، پھر پی ٹی وی آگیا۔ اس عرصے میں بھی ریڈیو کی حیثیت قائم رہی۔ اب کئی پرائیویٹ ٹی وی اور ریڈیو چینلز ہیں۔ سامعین تقسیم ہوگئے ہیں۔ وہ دیگر چینلز بھی سنتے ہیں۔ البتہ یہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جو ریڈیو پاکستان کا عادی ہے، وہ دیگر چینلز نہیں سنتا۔ یہ ہی ریڈیو پاکستان کی کام یابی ہے۔''
ریڈیو پاکستان کو ایف ایم 93 کی فریکوینسی سے نشر کرنا ایک اہم پیش رفت تھی، مگر سگنلز کم زور ہونے کے باعث سامعین کو دشواری پیش آتی ہے۔ کوثر صاحب کے مطابق اب اِس ٹرانسمیٹر پر کام ہورہا ہے، آنے والے عرصے میں واضح بہتری دیکھنے میں آئے گی۔ MW نشریات کے لیے دس کلوواٹ کا ٹرانسمیٹر لانڈھی میں نصب ہوگا، جس سے سگنلز مزید بہتر ہوجائیں گے۔
پیشہ ورانہ سفر کے بعد ادب کہانی شروع ہوئی۔ ماضی کھوجتے ہوئے کہتے ہیں، مطالعے کا آغاز امر جلیل، تنویر عباسی اور نسیم کھرل جیسے ادیبوں سے ہوا۔ لکھنے کا آغاز بچوں کی شاعری سے کیا۔ سندھی ادبی سنگت کی نشستوں نے اِس عمل کو مہمیز کیا۔ تخلیقات نے جراید میں بھی جگہ حاصل کی۔ معروف ماہر لسانیات، اﷲ داد بوہیو کمپری ہینسو اسکول میں اُن کے پرنسپل ہوا کرتے تھے۔ اُنھوں نے بہت حوصلہ افزائی اور راہ نمائی کی۔ شکارپور کے معروف سندھی شاعر، نثار بزمی سے اصلاح لی۔ یوں شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ رجحان غزل کی جانب تھا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں جم کر مضامین لکھے۔ انٹرنیشنل ریلیشنز کے موضوع پر تحریرکردہ اُن کے مضامین مختلف اخبارات اور رسائل میں قسط وار شایع ہوا کرتے۔ عام قارئین کے علاوہ اساتذہ بھی اُنھیں سراہتے۔
''اوجاگا ایئں خواب'' (رت جگے) اُن کا پہلا شعری مجموعہ تھا، جو 2000 میں خیرپور سے شایع ہوا۔ ردعمل بہت ہی مثبت رہا۔ 2002 میں اگلی کتاب ''یاد گھر'' کی اشاعت عمل میں آئی، جو یادداشتوں پر مشتمل تھی۔ 2005 میں شایع ہونے والی ''تنہں عشق کھے شاباس'' پاکستان کی 32 لوک اور رومانوی داستانوں پر محیط تھی۔ اِس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اسی برس ''امر راگی امر گیت'' شایع ہوئی، جو معروف گلوکار، سرمد سندھی سے متعلق تھی۔
2003-4 میں اُنھوں نے ایک گیت ''توں منھنجو صنم آھیں'' (تو میرا صنم ہے) لکھا۔ برکت علی کی آواز میں ریکارڈ ہونے والے اِس گیت نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ کوثر برڑو کی پہچان بن گیا۔ اگلا شعری مجموعہ اِسی عنوان سے 2005 میں شایع ہوا۔ تیسرا مجموعہ ''سفر چاہتن جو'' (سفر چاہتوں کا) 2012 میں منظر عام پر آیا۔ ممتاز کلاسیکی فن کار، استاد منظور علی خان پر بھی تحقیق کی۔ ان کے فن اور شخصیت سے متعلق ایک کتاب لکھی، جو اس عظیم فن کار کی بابت سندھی میں شایع ہونے والی پہلی کتاب تھی۔ ستر فن کاروں کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ''فن ایئں فنکار'' کا پہلا والیوم 2007 اور دوسرا 2012 میں شایع ہوا۔ دوسرا والیوم 65 فن کاروں کے انٹرویوز پر مشتمل تھا۔ کلچرل ڈیپارٹمنٹ آف سندھ کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب کی بہت پزیرائی ہوئی۔
کتاب ''سفر جنہار'' (تخلیق کار) میں خیرپور کے بیس شعرا کا احاطہ کیا گیا۔ ایک کتاب ''پیشکار'' کے عنوان سے منصۂ شہود پر آئی، جو ممتاز براڈکاسٹرز کے انٹرویوز پر مبنی تھی۔آج کل سندھ کے معروف صوفی فن کار، سہراب فقیر کی شخصیت پر کام کر رہیں۔
اپنی کتاب ''تنہں عشق کھے شاباس'' کو اردو میں ڈھالنے کا ارادہ ہے، مگر وقت کی کمی آڑے آجاتی ہے۔ یہی معاملہ استاد منظور علی خان سے متعلق لکھی کتاب کا ہے۔ آرزو ہے کہ اردو کے قارئین کو منظور علی اور سہراب فقیر جیسے قدآور فن کاروں سے متعارف کروائیں۔
سندھی ادب کا مستقبل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے؛ سفر جاری ہے، کتابیں چھپ رہی ہیں، اور دیگر علاقائی زبانوں سے زیادہ چھپ رہی ہیں۔ کچھ یہی معاملہ اخبارات کا ہے۔ کتب میلوں میں ریکارڈ تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ البتہ معیار کے معاملے پر، ان کے نزدیک، بحث ہوسکتی ہے۔ ادب کا مستقبل وہ لکھاری کے بجائے قاری سے جوڑتے ہیں۔ ''اگر آپ لکھتے چلے جائیں، اور پڑھنے والے نہ ہیں، تو کتابیں بے معنی ہیں۔ خوش قسمتی سے سندھی ادب پڑھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ نئی نسل کے ہاتھوں میں کتاب نظر آتی ہے۔ اور یہ خوش آیند ہے۔''
بہترین پروڈیوسر کے، حکومتی اور نجی تنظیموں سے، 75 ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ بیش تر حیدرآباد میں تعیناتی کے زمانے میں ان کے حصے میں آئے۔ البتہ وہ اعزازات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ دوستوں اور سامعین کی محبت اُن کے نزدیک سب سے بڑا اعزاز ہے۔
بیٹی کی پیدایش زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ نام کائنات رکھا کہ وہ ان کی کُل کائنات ہے۔ دُکھ بھری یادیں زیر بحث آئیں، تو کہنے لگے کہ یوں تو اِس عہد نے انسان کو اتنے غم دیے کہ وہ ''غم پروف'' ہوگیا، مگر جواں سال بیٹے کے انتقال پر گہرے کرب سے گزرے۔
وہ براڈکاسٹنگ کی جانب آنے والے افراد کو مثبت روایات کی پاس داری کا پیغام دیتے ہیں۔ زبان کی پختگی شرط ہے۔ اُن کے نزدیک ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اسکرپٹ باقاعدہ جانچا جاتا ہے۔ پھر صداکار کی باری آتی ہے، جب کہ پرائیویٹ چینلز میں اسکرپٹ کو کُلی طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ بہ قول ان کے،''کسی زمانے میں ریڈیو سے وابستہ بیش تر افراد ادیب اور شاعر ہوا کرتے تھے۔ اب فقط اِسے نوکری کے طور پر لیا جارہا ہے۔ اِس کی وجہ سے معیار گرا ہے۔''
سردی کا موسم بھاتا ہے۔ شلوار قمیص میں وہ خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ سوائے کریلے کے ہر ڈش کھا لیتے ہیں۔ اچھے شعرا سے زیادہ اچھی شاعری پسند ہے۔ استاد بخاری سے بہت متاثر ہیں۔ فکشن نگاروں میں امر جلیل کا نام لیتے ہیں۔ کسی زمانے میں باقاعدگی سے فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ ''دل لگی'' من پسند فلم ہے، جسے دیکھ کر آنسو رواں ہوگئے۔ گائیکی کے میدان میں مہدی حسن اور سرمد سندھی کے مداح ہیں۔ عشق کا تجربہ کیا۔ یہ یونیورسٹی کا تذکرہ ہے۔ گھر والوں کو بھنک پڑ گئی۔ فوراً گاؤں بلوایا، اور خاندان کی ایک لڑکی سے رشتۂ ازدواج میں باندھ دیا۔ یہ 82ء کا واقعہ ہے۔ خدا نے دو بیٹیوں، چار بیٹوں سے نوازا۔ بچوں میں بھی ادبی ذوق منتقل ہوا۔ خیرپور میں اُن کے کتب خانے میں پانچ ہزار کتابیں ہیں۔