جنگ ستمبر اور بچپن کی کچھ یادیں

میں ریڈیو پاکستان لاہور سے نظام دین کی گھن گرج، یاسمین طاہر کی فوجی بھائیوں سے گفتگو اور نور جہاں کے ترانے سنتا رہتا


Nusrat Javeed September 07, 2012
[email protected]

KARACHI: 6 ستمبر کی اس صبح کاایک ایک لمحہ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔

میری عمر دس سال سے کچھ زیادہ تھی۔ اسکول جانے کے لیے نیکر والا یونیفارم پہن کر گھر سے نکل آیا تھا۔ ناشتہ ابھی کرنا تھا اور میں لال حلوائی کی دوکان کے سامنے کھڑا تھا۔ پوریاں اور چنے کھانے والوں کی وہاں بھیڑ تھی۔ مجھے دیکھ کر لال حلوائی نے سامنے کھڑے گاہکوں کو بتایا کہ چونکہ اس بچے کو اسکول جانا ہے، اس لیے اب وہ کڑاہی سے نکلنے والی گرما گرم پوریاں سب سے پہلے مجھے دے گا۔

لوگ اس زمانے میں شفیق ہوا کرتے تھے۔ اگرچہ زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے اپنی عمر کا ایک دن بھی کسی اسکول میں نہیں گزارا تھا۔ مگر وہ اسکول جانے والے بچوں سے شفقت برتا کرتے تھے۔ میٹرک پاس کر لینے کے بعد ہر نوجوان''بائو'' کہلوانے کا حقدار بن جایا کرتا اور اس کی کسی بھی موضوع پر رائے بڑے احترام سے سنی جاتی۔

لال حلوائی نے پوریاں اُترنے سے ذرا پہلے میرے ہاتھ میں گرما گرم اور چٹ پٹے چنوں کا ''دونا'' تھما دیا۔ آج کی نسل کو شاید یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ''دونا'' پتوں سے بنایا ایک پیالہ ہوا کرتا تھا۔ انسانی ہاتھوں کی بنائی Disposable کراکری کا ایک جزو جو آج کے ''شاپروں'' کی طرح فطرت کے عطاء کردہ صاف ستھرے ماحول کو آلودہ نہیں کرتا تھا۔ مگر میں وہ ''دونا'' اپنے ہاتھوں میں تھام ہی نہ سکا۔ ایک کان پھاڑ نوعیت کا دھماکا ہوا جس سے اِردگرد کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بھی ہل کر بج اُٹھے۔ خوف وتحیر سے ہر شخص مبہوت اور ساکت ہو کر رہ گیا۔ یہ تو بہت بعد میں سمجھ آئی کہ دھماکے کی وجہ پاکستان ایئرفورس کے ایک سپر سونک طیارے کی اُڑان تھی جو شاید واہگہ محاذ کی جانب گیاتھا۔

میرے ایک بزرگ ہمسائے نے فوراََ میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر واپس پہنچا دیا۔ ''اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔ اس نے مجھے اطلاع دی۔ ''بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے اور اس کی فوجیں لاہور پر قبضے کے لیے آگے بڑھنا چاہ رہی ہیں۔ ہمارے جوان انھیں کسی صورت نہر پار کرنے نہیں دیں گے۔'' میں گھر پہنچا تو ماں نے گھر میں مجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔ مگر چند ہی گھنٹوں بعد اطلاع آئی کہ لاہوری نوجوانوں کی ایک بے پناہ تعداد محاذ پر جانے کو بے چین ہے۔ بزرگ انھیں یہ سمجھاکر روکتے رہے کہ آج کل کی جنگیں صرف تربیت یافتہ فوجی ہی لڑ سکتے ہیں۔ بزرگوں کے سمجھانے کے باوجود چند نوجوان اس بات پر بضد رہے کہ اور کچھ نہ سہی وہ اپنی فوج کی مورچے کھودنے میں مدد تو کر سکتے ہیں۔

میں یہ کہانیاں سن کر اپنی ماں سے ضد کرنا شروع ہوگیا۔ اپنی کم عمری کے باوجود مورچے کھودنے والوں کے کسی کام تو آ سکتا تھا۔ ماں نے مگر مان کر نہ دیا۔ پھر ریڈیو پاکستان پر اس وقت کے صدر کی آواز سنائی دی۔ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا جسے دشمن کی تباہی تک جاری رکھنے کے عزم کا اظہار ہوا اور پوری قوم یکسو ہوکر اپنی بساط کے مطابق اس جنگ میں حصہ دار بن گئی۔ ان ہی دنوں میں یہ قصے سننے کو ملے کہ صرف پاکستان کے شہری ہی نہیں چند ''سبز پوش'' بھی کہیں سے نمودار ہو کر ان بموں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہیں لے جاتے ہیں جو دشمن راوی کے پل پر ا پنے طیاروں کے ذریعے پھینکنے کی کوشش کرتا۔

ہمارے محلے میں نوجوانوں کی ٹولیاں پوری رات لاٹھیوں، ہاکیوں اور جو بھی ''ہتھیار'' انھیں میسر ہوا کرتے اپنے ہاتھوں میں لیے ''پہرہ'' دیتے رہتے۔ انھیں خطرہ تھا کہ دشمن اپنے جاسوس پیراشوٹوں کے ذریعے رات کے اندھیروں میں ہمارے لاہور شہر پر اُتار رہا ہے۔ کئی ایک کو ''گرفتار'' کر لینے کی داستانیں بھی سننے کو ملتیں۔ مگر میں ریڈیو پاکستان لاہور سے نظام دین کی گھن گرج، یاسمین طاہر کی فوجی بھائیوں سے گفتگو اور صوفی تبسم کے ساتھ مل کر نور جہاں کے ترانے کرفیو اور بلیک آئوٹ کی راتوں میں اپنے خون کو کھولاتے ہوئے سنتا رہتا۔ دن کے کافی اوقات میں نے یکّی گیٹ اور شیرانوالہ دروازے کے باہر پھیلے باغات میں خندقیں کھودنے والوں کے ساتھ مل کر بھی گزارے۔ بڑی ضد کر کے اپنے سے کہیں زیادہ عمر والے نوجوانوں کے اس گروہ میں بھی شامل ہوا جو سول ڈیفنس کی تربیت لے رہا تھا۔ سات کے قریب دن اسی طرح گزرگئے۔

پھر یوں ہوا کہ رات کو کوئی بھی نہ سو سکتا۔ وقفے وقفے سے دہلادینے والی گھن گرج کے ساتھ توپیں اپنے پورے جوبن کے ساتھ دشمن کی صفوں پر بم پھینکتی محسوس ہوتیں۔ مجھے بتایا گیا کہ راتوں کی نیند اُڑا دینے والی آوازوں میں سے سب سے دہشت خیز آواز ہماری اپنی ''رانی توپ'' کی ہے۔ مگر ہمارے ہی محلے میں ایک خبطی سا بوڑھا شخص ہوا کرتا تھا۔ بزرگ بتایا کرتے تھے کہ وہ اپنی جوانی میں ایک کامیاب پہلوان بننے کے جنون میں مبتلا تھا۔ اسے مگر ایک بھی ''دنگل'' جیتنا نصیب نہ ہوا۔

مسلسل شکستوں سے دل ہار بیٹھا۔ ساری عمر شادی نہ کی۔ گزارے کے لیے سگریٹ کا کھوکھا لگاتا تھا۔ وہاں بیٹھا سارے وقت اپنے ٹرانسسٹرکو کانوں سے لگائے دُنیا بھر کی خبریں سنتا رہتا۔ میں اس کم گوشخص سے کوئی سوال کرتا تو وہ جواب ضرور دے دیا کرتا تھا۔ ایک صبح میں نے اس کے پاس بیٹھ کر ''رانی توپ'' کی گھن گرج کا ذکر کیا تو اس نے بڑی بے اعتنائی سے جواب دیاکہ گزشتہ چند روز سے راتوں کو جگانے والی توپوں کی شدت اس بات کا اشارہ کر رہی ہے کہ جلد ہی جنگ بندی ہونے والی ہے۔ میں نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی کہ ہمارے صدر نے تو آخری فتح تک جنگ جاری رکھنے کا عہدکر رکھا ہے۔ اس نے مجھے کوئی جواب تو نہ دیا مگر کچھ ایسی نظروں سے دیکھا جو کہہ رہی تھیں کہ ''تم ابھی بچے ہو۔ ایسی باتیں سمجھ نہیں پائو گے۔''

پھر جنگ واقعی بند ہو گئی۔ ہمارے نوجوان خندقیں کھودتے اور سول ڈیفنس کی تربیت لیتے رہے۔ اس زمانے کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے روز نامہ نے بتایا کہ اگر ایک شہری صرف ایک پیسہ،جسے ان دنوں ہم ''ٹیڈی پیسہ'' کہا کرتے تھے بچاکر دفاعی فنڈ میں جمع کرا دے تو ساری قوم کے دیے ہوئے ٹیڈی پیسوں سے روزانہ ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے۔ بہت سارے بچوں کی طرح اسکول سے واپس آنے کے بعد میں بھی ہاتھ میں مٹی کا بنا''غلہ'' لیے آتے جاتے لوگوں سے دفاعی فنڈ کے لیے ٹیڈی پیسے اکٹھے کیا کرتا رہتا۔ مگر پھر معاہدہ تاشقند ہو گیا اور مجھے محلے کے بزرگوں نے بتایا کہ ایوب خان کا ایک بھٹو نام کا وزیر اس معاہدے سے خوش نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ فوج جو کچھ میدانِ جنگ میں جیت رہی تھی، ایوب خان نے تاشقند کی ایک میز پر ہار دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک طویل داستان ہے۔

مجھے تو یہ کالم صرف اس بات پر ختم کرنا ہے کہ 1989ء میں جنرل اسلم بیگ کی سربراہی میں ہماری فوج کو آج کے دور کی جنگ کے لیے تیار کرنے کے لیے ''ضربِ مومن'' نامی جنگیں مشقیں ہوئی تھیں۔ میں اب بچہ نہیں اپنی دانست میں خاصہ ''تجربہ کار'' اور عقل کُل قسم کا رپورٹر بن چکا تھا۔ اپنی اسی حیثیت میں مجھے جی ایچ کیو میں باقی صحافیوں کے ساتھ اس بریفنگ میں مدعو کیا گیا تھا جو جنرل بیگ نے ''ضربِ مومن'' کی ضرورت کو اُجاگر کرنے کے بارے میں دینا تھی۔ جنرل صاحب نے اس طویل بریفنگ میں بہت کچھ کہا۔

مگر جو با تیں آج تک اپنی یادداشت سے نکال نہیں پایا، وہ 65ء کی جنگ کے بارے میں ان کا وہ فقرہ تھا جس میں جنرل اسلم بیگ نے سپاہیانہ درشتگی کے ساتھ اعتراف کیا کہ وہ ایک لاحاصل اور بے نتیجہ جنگ تھی۔ جی ایچ کیو سے اپنے دفتر لوٹتے ہوئے میں ان کے اسی فقرے کو یاد کرتا رہا۔ مجھے دُکھ ہوا۔ ان کے 1965ء کی جنگ کے بارے میں ادا کیے کلمات نے مجھ سے میرے بچپن کی وہ بہت ہی جذباتی یادیں دل ودماغ سے گویا نکال کر زمین پر پٹخ دی تھیں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اس دن سے وہ پہلوان کیوں بہت یاد آتا ہے جس نے ''رانی توپ'' کی گھن گرج کو مجھے کچھ اور طرح سمجھانے کی کوشش کی تھی اور اس کی آنکھوں کا دیا وہ پیغام جس نے کہا تھا ''تم ابھی بچے ہو۔ ایسی باتیں سمجھ نہیں پائو گے''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں