ن لیگ کی سیاسی سمت
چوہدری نثار کی کڑوی کسیلی باتیں اور شہباز شریف کے ہوا میں لہراتے ہوئے مکّے محض ایک افسانہ بن گئے ہیں
www.facebook.com/syedtalathussain.official
پاکستان مسلم لیگ (ن) تمام تر وضاحتوں کے باوجود اُن نقادوں کو غلط ثابت نہیں کر پائی جنہوں نے اِس پر دوستانہ حزبِ اختلاف کا تسلسل سے الزام لگایا ہے۔
اگرچہ اِس الزام کے دہرانے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں ہر درجے کا نمایندہ سیخ پا ہو کر چلانے لگتا ہے مگر آواز بلند کر کے وہ اِس تنقید کو خاموش نہیں کر پاتا۔ پاکستان میں سیاسی تسلسل اور جمہوری نظام کو ظاہری طور پر چلانے کے لیے جو اتفاق رائے عرصہ دراز سے موجود نہیں تھا، یقیناً پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پالیسی کے ذریعے پچھلے ساڑھے چار برسوں میں دیکھنے میں آیا۔ میاں نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت پر حملہ آور نہ ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے طور طریقے تبدیل کر دیے ہیں۔
اس تبدیلی کے توسط سے اب یہ حکومت نئے انتخابات کرانے کے عمل کا آغاز کر چکی ہے۔ اگر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نظام میں موجود سب سے بڑی حزب اختلاف کے خلاف ایسی محاذ آرائی میں پھنس جاتی جس کا نتیجہ سڑکوں پر احتجاج، لڑائی مارکٹائی ، گھیرائو اور طاقت سے بھگائو کی صورت میں نکلتا تو نہ یہ نظام الیکشن کے قریب آ پاتا اور نہ ہی حکومتِ وقت اپنی کامیابیوں کے دعوے کر پاتی۔
مگر پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی اس پالیسی کو ایک خاص حد سے آگے مشتہر بھی نہیں کرتی کیونکہ اُس کو معلوم ہے کہ حکومت کی نالائقیاں بالواسطہ طور پر اُس کے گلے میں پڑجائیں گی۔ یعنی ایک طرف وہ جمہوریت کے محافظ کے طور پر تاریخ میں اپنا نام لکھوانا چاہتی ہے اور دوسری طرف سے الزام بھی سر نہیں لینا چاہتی کہ اُس کے لائحہ عمل کا ایک نتیجہ ایک ناپسندیدہ حکومت کے اقتدار میں پانچ سالوں کی صورت میں نکلا۔
لہذا پچھلے چند سال میں (ن) لیگ نے ایک دہرا طریقہ کار اختیار کیا جس میں میاں محمد نواز شریف، صدر آصف علی زرداری اور اُن کے قریبی ساتھیوں کے ساتھ کسی نہ کسی طور پر معاملات کو سنبھالنے کا کردار ادا کرتے رہے جب کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار لٹھ بردار گروپ کی طرز پر اپنی پالیسی چلاتے رہے۔ اگر یہ دہری پالیسی اختیار نہ کی جاتی تو یقیناً آئینی ترامیم کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی اور آنے والے دنوں میں عبوری حکومت کے قیام جیسے سنجیدہ معاملات خوش اسلوبی سے طے نہ پاتے۔ اب یہ دہری پالیسی مکمل طور پر مفاہمت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔
چوہدری نثار کی کڑوی کسیلی باتیں اور شہباز شریف کے ہوا میں لہراتے ہوئے مکّے محض ایک افسانہ بن گئے ہیں جس کے بھاری بھرکم الفاظ بے لذت داستان کو مزے دار بنانے کا کردار ادا کرنے کے سوا کسی اور کام کے نہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ (ن) لیگ کی موجودہ پالیسی پیپلز پارٹی اور اِس نظام کو سہارا دینے کے مرکزی نقطے پر مرکوز ہو گئی ہے۔ میاں محمد نواز شریف نے جس راستے پر قدم اُٹھایا تھا، اپنی پارٹی سمیت اُس کی آخری منزل کے سامنے کھڑے ہیں۔ چو دھری نثار محض ہوائی فائر کر رہے ہیں، ان کے استعمال میں موجود کارتوس بارود سے خالی ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کو آنے والے دنوں میں حکومت کے ساتھ سیاسی تعاون کے فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی برداشت کرنا ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اِس نقصان کا وزن اُٹھا سکتے ہیں یا نہیں۔ پہلا نقصان آصف علی زرداری کو قبول کرنے کا ہے۔ خورشید شاہ ہوں یا نوید قمر، پیپلز پارٹی اپنے آقا کے حکم کے بغیر نہ بات چیت کرتی ہے اور نہ احتجاج۔ اب آصف علی زرداری کو اپنی تمام ناکامیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ قبول کرنا پڑے گا۔ اِس کے بغیر پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنے سے قاصر ہوگی۔
میاں محمد نواز شریف ایک مرتبہ پھر آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔ اُن کو بطور صدر مانتے ہوئے اُن کے تابع چلنے والا عبوری نظام بنوائیں گے جس کے تحت آیندہ الیکشن ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) میں جن سیاستدانوں کا یہ خیال تھا کہ وہ اپنے حلقوں میں صدر زرداری حکومت کی ناکامیوں کی تشہیر کر کے آنے والے انتخابات میں اپنی مہم چلا پائیں گے، اُن کو اب کوئی اور ہدف ڈھونڈنا پڑے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ میاں نواز شریف زرداری صاحب سے پچھلے دروازے سے معاملات طے کر کے باہر نکلیں اور اُن کے سامنے اُن کی سیاسی جماعت زرداری صاحب کو کچوکے لگانے کے لیے تلواریں تانے کھڑی ہو۔
ایک اور نقصان مسلم لیگ (ن) کے اندر اُس غصے اور بے چینی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے جو پیپلز پارٹی کے ساتھ پنجاب میں مسلسل لڑائی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ (ن) لیگ کے صوبائی اراکین اور پارٹی ممبران اپنے غصے کے اظہار کے لیے انتخابات کا انتظار کر رہے تھے مگر اب چونکہ مفاہمت کی روشنی انتخابات کے میدان تک بھی پہنچ گئی ہے لہذا پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں شائد ایک شدید احتجاج کی صورت میں سامنے آئیں۔ اگرچہ شریف خاندان کا (ن) لیگ پر غلبہ اتنا مکمل ہے کہ الیکشن کے دنوں میں شاید ہی کوئی اُن کو چھوڑ کر جانے کی سوچے، مگر پھربھی پیپلز پارٹی کے مخالفین الیکشن کے دنوں میں اپنی پارٹی کی مفاہمتی پالیسی کو اپنی مقامی سیاست کے لیے نقصان دہ پائیں گے۔
مگر سب سے بڑا نقصان میاں نواز شریف کو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے آنے والی تنقید کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا۔ عمران خان کے جملے اور اُن کی پارٹی کی قیادت کی طرف سے یہ تنقید کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری ایک ہی قسم کے دو سیاستدان ہیں، مسلم لیگ کو بہت چبھتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آصف علی زرداری کے قریب بیٹھنے کے پس پردہ ایک ذاتی مقصد عمران خان کے لیے سیاسی زمین تنگ کرنا تھا۔ مگر اس قربت کا ایک نتیجہ اس توقع کے بالکل اُلٹ سامنے آ سکتا ہے۔
موجودہ حکومت کے ساتھ سیاسی سلام دعا اور پھر خاموش گرم جوشی سے عبوری نظام کی تخلیق پی ٹی آئی کو نواز شریف کی طرف توپیں داغنے کے کئی مواقع فراہم کرے گی۔ اگر انتخابات ہوئے اور اُس وقت تک یہ سیاسی ترتیب تحلیل نہ ہوئی تو میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے ساتھ اور پی ٹی آئی اِن دونوں کے خلاف کھڑی ہوئی نظر آئے گی۔ عمران خان اور اس کے ساتھی اِسی قسم کا ماحول چاہتے ہیں۔ معلوم نہیں نواز شریف یہ چاہتے تھے یا نہیں مگر اِس وقت وہ اور صدر آصف علی زرداری ایک ہی کشتی میں سوار ایک ہی سمت میں جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔