شاہ صاحب کی ’فقیر نگری‘ میں
دلوں کا حال جاننے والے خطرناک لوگ ہوتے ہیں،ان کی خوشنودی بھی انعامات میں سے ہے اور ان سے کچھ چھپانا ایک خطرہ۔
اسلام ایک نظرئیے کا نام ہے اور اس نظرئیے کے ماننے والے اپنے جذبات کو تحریروں میں ظاہر کرتے ہیں یا وعظ و نصیحت کی مجلسوں میں۔ اسی لیے علماء و مشائخ اور صوفیا نے اپنے خیالات پر مشتمل کتابوں کے انبار لگا دیے۔ کتب خانے ان کی کتابوں سے بھرے پڑے ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک روایت ہے جس کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ تحریریں تو ان صوفیا نے خود مرتب کیں اور کچھ ان کے عقیدت مندوں نے اور شاید ہی کوئی صوفی ایسا گزرا ہو جس کے جذبات اور قلبی کیفیات سے ہم مطلع نہ ہوں۔ ان خوبصورت ذہن والوں نے انسانوں کے لطیف جذبات سے بات کرنے کے لیے شاعری بھی کی ہے دیوان مرتب کیے ہیں اور مثنویاں بھی۔ حضرت داتا صاحب کا دیوان تو لاہور میں کسی نے چرا لیا تھا جس کا انھیں دکھ رہا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی اشاعت اور اس کے ماننے والوں میں صوفیاء کا بہت بڑا حصہ ہے اور خوش نصیب ہیں اس خطے کے ہم لوگ جو صوفیائے کرام کے فیض سے اسلام کی سیدھی راہ پر چلے اور ان راہوں کو مزید کشادہ کیا۔ نہیں معلوم ہم اس نعمت کے حقدار تھے یا نہیں لیکن واقع ہے کہ دنیائے تصوف کی پانچ بڑی کتابوں میں سب سے بڑی کتاب کا مصنف لاہور میں محو خواب ہے اور اس خطے کے ایک بڑے صوفی کے بقول وہ مظہر نور خدا ہے اور عالم کے لیے فیض کا سر چشمہ ہے۔ ہم ان کے عرس سے دو چار دن پہلے فارغ ہوتے ہیں۔ علی ہجویری عرف حضرت داتا گنج بخش۔ ان کے دربار پر خزانے اور فیض کے سرچشمے کا منہ کھلا ہے اور اس فیض سے جھولی بھرنا اپنی اپنی قسمت۔
صوفیاء کی تحریر وتصنیف کی یہ قدیم روایت ہمارے سامنے نئی زندگی پا رہی ہے میرے کرم فرماء اور رہنما سید سرفراز شاہ کی اس سلسلے کی تیسری تصنیف میرے سامنے ہے۔ 'فقیر نگری' جو ملک بھر کے کتب خانوں میں موجود ہے۔ قبلہ شاہ صاحب کی پہلے کی دو کتابوں کی طرح یہ بھی ان کے لیکچروں پر مشتمل ہے۔ شکریہ شاہ صاحب کے ان عقیدت مندوں کا جنہوں نے ان کے ملفوظات کو سلیقے سے جمع کر دیا ہے اور انھیں ہم لوگوں کے سپرد کر دیا ہے اس صوفی کی تصدیق کے ساتھ۔ میں قبلہ شاہ صاحب سے اپنے پہلے تعلق کی روداد بیان کر چکا ہوں جس کی حیرت اب تک میرے دل و دماغ میں باقی ہے میرے حواس پر چھائی ہوئی ہے۔ انھوں نے میرے ایک دوست کے ذریعے مجھے طلب کیا اور حضور پاک ﷺ کی بار گاہ میں میری فریاد کو میرے سامنے بیان کیا۔
حضورﷺ کے حجرے کی جالی کے سامنے میں نے جو کچھ عرض کیا تھا جو داد و فریاد کی جس طرح میں نے پگھل کر رحمت اللعالمین سے رحمت کی بھیک مانگی تھی یہ سب میری ذات تک محدود تھا بلکہ یہاں متعین سعودی اہلکار مجھے یہاں سے ہٹا کر میرا رخ دوسری طرف موڑتے رہے کہ قبلہ میرے پیچھے ہے صرف روضہ مبارک میرے سامنے ہے لیکن میں نے کسی کی ایک نہ مانی، میں اس کیفیت میں ہی نہیں تھا کہ کچھ اور سن پاتا یا کسی دوسری طرف توجہ کر سکتا چنانچہ کچھ وقت ان جالیوں کے سامنے روتے پیٹتے گزر گیا اور واپس لاہور آگیا۔
روضہ مبارک کی زیارت کی سرشاری سے نہال اور نڈھال۔ مجھے نہیں معلوم اس وقت سید سرفراز شاہ نامی کوئی شخص وہاں موجود تھا یا نہیں اگر تھا بھی تو کس کو اتنی ہوش کہاں کہ وہ کسی دوسرے کی فریاد سن سکے لیکن قبلہ شاہ صاحب نے اس کے کچھ وقت بعد مجھے اصرار کر کے بلایا اور بتایا کہ آپ کی دعا قبول کر لی گئی ہے۔ اب میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ قبولیت کی اس نعمت نے مجھے کیا کیا جلوے دکھائے ہیں لیکن بات قبلہ شاہ صاحب کی ہے کہ انھوں نے مجھ سے اس طرح میری فریاد اور طلب کو بیان کیا جیسے وہ سن رہے تھے۔ اس دن پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ جو لوگ صاحب کشف ہوتے ہیں وہ کیا ہوتے ہیں اور ان کی دربار نبوت تک بھی رسائی ہوتی ہے۔
شاہ صاحب کا میرے دل میں جو بے پایاں احترام ہے بلکہ جو رعب ہے وہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ میں ان کی خدمت میں زیادہ حاضری نہیں دیتا لیکن جب کوئی مشکل ہوتی ہے تو حاضری دیتا ہوں اور ان سے رہنمائی حاصل کر کے مطمئن ہوتا ہوں۔ میں نے شاہ صاحب سے پہلی ملاقات کا جو واقعہ بیان کیا ہے اس کے بعد ان کے بارے میں مزید کچھ عرض کرنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے مگر مجھے ایک اطمینان ہے کہ شاہ صاحب اپنی ہفت وار مجلس میں عوام کے اشکال اور مسائل کا جو حل پیش کرتے ہیں وہ اب تحریری صورت میں ہمارے سامنے تین جلدوں میں موجود ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ میں شاہ صاحب کو اس نئی کتاب فقیر نگری کے بارے میں کچھ عرض نہیںکر سکتا ایسی کتابیں تبصرے کے لیے نہیں بلکہ ان کے طلب گاروں کی اطلاع کے لیے ہوتی ہیں کہ ان کی اشاعت ہو گئی ہے۔
کتاب کے پبلشر جہانگیر بکس والے بڑی احتیاط کے ساتھ کتاب شایع کرتے ہیں اچھی طباعت اور اچھی شکل و صورت۔ قیمت 625 روپے ڈی وی ڈی کے ساتھ۔ میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جن کو شاہ صاحب نہ صرف کتاب کا تحفہ ارسال کرتے ہیں بلکہ میرے نام چند سطریں بھی لکھ دیتے ہیں اور اس طرح میری نیاز مندی کو قبول کرتے ہیں۔ ویسے مجھے ان سے ڈر بھی لگتا ہے کہ دلوں کا حال جاننے والے خطرناک لوگ ہوتے ہیں۔ ایک بار ملنے تشریف آئے اور میں نے گھر کا پتہ بتانے کی کوشش کی تو کہا میں آ جاؤں گا۔ ایسے صاحبان کشف کا آپ بے پناہ احترام بھی کرتے ہیں اور ان سے احتیاط بھی۔ ان کی خوشنودی بھی انعامات میں سے ہے اور ان سے کچھ چھپانا ایک خطرہ۔