آپ بہت مصروف ہیں

ہم معاشی طور پر کمزور ہیں تو ہمیں سب کی باتیں ماننی پڑھتی ہے۔۔۔

muhammad.anis@expressnews.tv

مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمیں پھر سے شروعات کرنے کی ضرورت ہے ۔ لگتا ہے صرف چہرے بدلے ہیں اور عوام خوف میں مبتلا ہیں ۔ میں نے آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے 1947ء میں واضح کیا تھاکہ ''ہم اپنے ملک کی شروعات اس بات سے کر رہے ہیں کہ یہاں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہونگے ... سب برابر کے شہری اور اس ریاست پاکستان کے شہری ہونگے'' اور یہ ہی بات میں نے ایک سال بعد کوئٹہ میں دہرائی تھی کہ ہم بس پاکستانی ہیں اور ہمیں اپنے رویہ اور عمل سے ثابت کرنا ہے ۔ کوئٹہ میں اُس وقت بھی مجھے یہ جملہ کہنا پڑا تھا کہ یہاں کوئی بلوچی نہیں، سندھی نہیں، پنجابی نہیں بلکہ ہم سب پاکستانی ہیں ... مجھے افسوس ہے کہ میری بات پر عمل نہیں کیا گیا۔ بار بار کہنے کے باوجود، سب کو مساوی حقوق نہیں دیے گئے ۔ فرقوں اور لسانی تصادم کی مثال میں نے اُس وقت بھی دی تھی اور11اگست 1947ء کو بھی یہ سمجھایا تھا کہ انگلینڈ کے حالات ہم سے زیادہ بدترین تھے جب رومن کھیتولک اور پروٹیسٹنٹ ایک دوسرے کے دشمن تھے مگر انھوں نے ایک اکائی بن کر خود کو ایک قوم ثابت کیا ۔۔ جو ہمیں بھی کرنا ہو گا۔۔

ایک جانب پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا جا رہا ہے تو دوسری طرف میں نے سنا ہے کہ برطانیہ میں عیسائیوں کے دو فرقوں کے پادریوں نے ایک دوسرے سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ ٹکراؤ بلکل اُس طرح کا نہیں جس طرح کا پنڈی میں لوگ کرنا چاہتے تھے بلکہ چرچ آف انگلینڈ کے پادری اور رومن کیتھولک چرچ کے پادری کرکٹ کے میدان میں ایک دوسرے سے ٹکراؤ کرینگے ۔ کیا سالوں پہلے کوئی یہ سوچ سکتا تھا۔۔؟ ہم آج سے یہ کیوں نہیں سوچ سکتے ۔ کیا پاکستان میں فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے ایسا کچھ ہو سکتا ہے ۔ ؟؟

یک وکیل کی حیثیت سے، میں اپنی دی گئی دلیل کبھی نہیں بھولتا ۔۔ قیام پاکستان کے چھ مہینے بعد میں نے سنا تھا کہ کچھ اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔۔ میں نے واضح کیا تھا کہ ہمارے یہاں بہت سارے غیر مسلم ہیں لیکن یہ سب پاکستانی ہیں اور نھیں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔۔ پاکستان میں کوئی اور نظام نہیں سوائے جمہوریت کے۔ یہاں تھیوکریسی کی کوئی گنجائش نہیں۔

فروری 1948ء کو میں نے پھر دہرایا تھا کہ ۔۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلے گا۔۔ اس میں اب کسی کو کسی طور بھی شک نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔ میں آمریت کے خلاف ہمیشہ کہتا رہا ۔۔ آپ کو یاد ہو گا۔۔میں نے آزادی کے دن ۔۔سب سے کہا تھا کہ فوج پاکستانی عوام کی خادم ہو گئی ۔۔۔ ملیر چھاونی کا وہ دن آپ کو یاد ہو گا ۔ جب میں نے اپنی فوج کے نوجوانوں سے کہا تھا کہ آپ کو جمہوریت کا ساتھ دینا ہے ۔۔ ۔لیکن مجھے افسوس ہے کہ میرے لوگوں کو بوٹوں تلے روندھا گیا ۔


میں نے اپنے ساتھ حکومت کی باگ ڈور چلانے والے سب لوگوں سے کہا تھا ۔۔اور آج بھی کہتا ہوں کہ اگر ہم پاکستان کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں دل کی گہرائیوں سے لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنا ہو گا۔۔ بیوروکرسی کو الزام کب تک دینگے ۔؟۔ مجھے بھی کہا گیا تھا۔۔ کہ بیوروکریسی کام نہیں کرنے دیتی ۔۔اسی لیے میں چٹاگانگ میں اُن سے کہا تھا ۔۔ وہ دن چلے گئے جب بیوروکریسی ملک کو چلاتی تھی۔۔یہ عوام کی حکومت ہے لوگوں کو احساس ہونا چاہیے کہ آپ اُن کے خادم ہیں ۔۔۔۔یہ سیاست دانوں کی نااہلی ہے کہ ۔۔آج بھی یہ بہانہ بنایا جاتا ہے ۔۔ اور اسی لیے ہم یہ ثابت نہ کر سکے کہ وہ عوام کے خادم ہیں ۔۔۔۔

میں نے جو کہا اُس پر ہمیشہ قائم رہا اور ہر صورت میں کوشش کی کہ اپنے اُصولوں پر ڈٹا رہوں۔ یہ غالبا پاکستان کے قیام سے دس سال پہلے کی بات ہے جب میں نے خواتین کے ایک کالج میں خطاب کیا تھا۔ میں نے وہاں واضح طور پر کہا تھا کہ کوئی بھی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اُس کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہ کھڑی ہو ۔ خواتین کو چار دیواری میں مقید کر کے ہم کوئی گول حاصل نہیں کر سکتے۔ میں نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ میری بہن فاطمہ میرے قدم با قدم چلی۔ آپ سب نے دیکھا کہ وہ آپ کی فلاح کے لیے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ میں آج بھی چاہتا ہوں کہ آپ اس ملک میں خواتین کو وہی مقام دیں جو میں چاہتا ہوں۔

آج میں سنتا ہوں امریکا کے سامنے جھکنے کا ،کبھی سعودیہ کی مداخلت کے قصے اور کبھی انڈیا کی کہانیاں ۔ آپ سب کو 23 مارچ 1940ء کا دن تو یاد ہو گا۔ کچھ لوگ اُسے صرف ایک چھٹی کا دن سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ دن نا صرف آپ کے لیے بلکہ اس خطے اور پوری دنیا کے لیے اہم ہے جب ہم نے پاکستان کی قرارداد منظور کی تھی ۔ میں نے اُس ایک اہم دن کو جسے مذاق میں شاید آپ نے اڑا دیا ۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ میں نے کہا تھا کہ اپنی تنظیم اس طرح کیجیے کہ کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے ۔یہی آپ کا واحد اور بہترین تحفظ ہے ۔۔۔اپنے حقوق اور مفاد کے لیے وہ طاقت پیدا کر لیجیے کہ آپ اپنی مدافعت کر سکیں۔۔

میں آج سنتا ہوں کہ ہم معاشی طور پر کمزور ہیں تو ہمیں سب کی باتیں ماننی پڑھتی ہے ۔ آپ نے ابھی میری سالگر منائی مگر میرے ملک کے لیے اور اس کے لوگوں کے لیے کیا کیا ۔ جب پاکستان کی پہلی سالگرہ تھی تو مجھے یاد ہے میں نے آپ پر ان سازشوں کو بے نقاب کیا تھا ۔کہ ہمارے دشمن ہمارا گلا گھونٹنا چاہتے ہیں انھوں نے سمجھا کہ معاشی سازشوں سے وہ مقصد با آسانی حل ہو جائیگا جو اُن کے دل میں ہے تو ناکام ہونگے ۔ مگر دکھ ہوتا ہے کہ تم لوگ میرے بچوں کو خوشحال نا کر سکے اور آج بھی کشکول لے کر دنیا بھر میں گھومتے رہتے ہو ۔ اور اس رقم کے پیچھے چھپی سازشوں کو نہیں پہچان سکتے ۔۔۔۔

ایک زور دار دھماکہ کی آواز آئی ۔اور کانوں میں برا سا شور پریشان کرنے لگا۔ آنکھیں کھلی تو اندازہ ہوا کہ صبح ہو چکی ہے گھڑی پر نگا ہ گئی تو وقت کے ساتھ تاریخ بھی بدل چکی تھی ۔ عادت سی ہے رات کو دیکھے خواب بھول کر دن کے کام میں لگ جاتا ہوں ۔ 25 دسمبر گزر چکی اور آج 26 دسمبر ہے۔ پورے ایک سال بعد پھر ہم قائد کو یاد کرینگے ۔ اس لیے سوچا کہ 25 دسمبر کو قائد سے ہوئی اپنی بات کو کاغذ میں اتار دوں ۔ آپ سب سے معذرت کہ آپ کو قائد اس دن یاد دلا رہا ہوں جب آپ بہت مصروف ہیں۔۔۔
Load Next Story