ریاست اور سیاست
اگر مذہبی فکر کا یہی حال رہا تو پھر بھارت چین کے خلاف اسلحے پرگوبرکی کوٹنگ کرے گا۔
جب ہندوستان آزاد ہوا تو وہاں کی ریاست میں مسلمانوں کے خلاف کوئی سیاست نہ تھی کیونکہ بھارت کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی بیش بہا خدمات تھیں اور جب جنگ آزادی کا دوسرا دور شروع ہوا، جس میں آزادی کو سیاسی طریقے سے حاصل کرنا تھا تو وہاں بھی مسلمانوں کا بہترین کردار تھا۔
جب آزادی پایہ تکمیل کو پہنچی یعنی 1940کے بعد کا عشرہ جسے کہیں تو اس بات کے شبہات بڑھنے لگے کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے ثمرات ملیں گے یا نہیں؟ تو آزادی کے ایک لیڈر گاندھی جی نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھا اور جب بھی پنڈت نہرو کے ساتھ کوئی تکرار ہوئی تو انھوں نے یہی کوشش کی کہ مسلمانوں کا حق نہ مارا جائے اور تقسیم ہند میں ان کے واجبات مناسب طریقے سے دیے جائیں لیکن بھارت کی ایک پارٹی راشٹریہ سیوک سنگھ کے نمایاں کارکن نتھورام گوڈسے نے گاندھی جی پر گولیاں چلائیں کیونکہ گاندھی جی حیدرآباد دکن اور کشمیر کے معاملے میں اپنا الگ نقطہ نظر رکھتے تھے۔ اسی نقطہ نظر پر شیخ عبداللہ کے صاحبزادے فاروق عبداللہ کو اپنے حالیہ انٹرویو میں یہ کہنا پڑا کہ شاید ہم سے ماضی میں کانگریس کو سمجھنے میں کوئی غلطی ہو گئی۔
دراصل شیخ عبداللہ کو کانگریس پارٹی کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہ ہوئی بلکہ کانگریس والے کسی حد تک جموں و کشمیر کی آزادی کے لیے استصواب رائے کروانے کو تیار ہو گئے تھے البتہ وہ اس بات پر تیار نہ تھے کہ اس کا الحاق پاکستان سے ہو جائے اور مجبوراً شیخ عبداللہ یہاں تک جانے کو تیار تھے کہ کشمیر کا بھارت سے آزاد ریاست کے طور پر کنفیڈریشن ہو جائے لیکن انھیں بھی زندگی نے مہلت نہ دی اور پنڈت نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی سخت گیر حکمران کے طور پر ابھریں اور ان کی موت بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ اندرا گاندھی کے بعد کانگریس کے جو بھی حکمران آئے وہ سب کے سب کشمیرکو اپنا اٹوٹ انگ ہی کہتے رہے۔
کانگریس کے من موہن سنگھ جن کے دور میں بھارت نے فقید المثال مادی ترقی کی وہ بھی پاکستان سے بات چیت کے لیے کسی حد تک تیار تھے کیونکہ ان کے فلسفہ زندگی میں جنگ نامی کوئی چیز نہ تھی۔ لہٰذا اس وقت جو حکمران بھارت میں اعلیٰ منصب پر براجمان ہیں وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو نتھورام گوڈسے کی سالگرہ مناتے ہیں، اسی لیے انھوں نے اپنی دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا اور بھارتی مسلمانوں کو جو تیس فیصد ہیں ان کو وہ کم اقلیت میں ظاہر کرنا چاہتے ہیں اسی لیے انھوں نے قانون کی نئی نئی شقیں نکالی ہیں تاکہ کم پڑھے لکھے افراد قانون کے شکنجے میں آجائیں اور کم علمی کی بنیاد پر ملک بدر کر دیے جائیں۔ اس طرح مسلمانوں کو مزید کم کرکے دنیا میں پیش کیا جاسکے۔
بھارت کے موجودہ وزیر اعظم مسلمانوں کو عام گفتگو میں پچیس تیس فیصد کہا کرتے ہیں تعداد دانستہ کم دکھا کر وہ حقیقت میں مسلمانوں کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اس عمل کو سب سے پہلے جواہر لال یونیورسٹی دہلی کے صدر کنہیا کمار نے یونیورسٹی کے ایک بڑے جلسے میں اجاگر کرکے کہا کہ مسلمان ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جنھوں نے جنگ آزادی میں ہمارے ساتھ جان دی ہے جیسے ٹیپو سلطان نے ہماری تاریخ کو سدابہار اور رنگین کر دیا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ جھانسی کی رانی کے توپچی غلام غوث نے بھی لازوال قربانی دی ہے۔ جب کنہیا کمار تقریرکر رہے تھے تو جا بجا آوازیں بلند ہوتی تھیں۔ ہندو مسلم بھائی بھائی، گوڈسے کی ہوئی تباہی۔ دہلی کے اس پہلے جلسے کے بعد پورے دہلی کے کالجوں اور اسکولوں میں یہ نعرہ بگل کی طرح بجنے لگا۔ کنہیا کمار تو اپنے صوبے بہار چلے گئے اور بہار میں فساد کی مہم کو زک پہنچاتے رہے۔ اسی اثنا میں بھارت کی تمام یونیورسٹیوں میں فیض احمد فیضؔ اور حبیب جالبؔ کی نظمیں پڑھی جانے لگیں۔ دلی کے شاہین باغ میں عورتوں کا بھی ایک بڑا اجتماع تھا۔
جن کے قیام و طعام کا انتظام پنجاب یونیورسٹی کی یونین کے عہدیداروں نے سنبھال رکھا تھا۔ تحریک پھیلتی جا رہی تھی۔ ہر شہر اور ہر گاؤں میں ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے بلند ہو رہے تھے اور گوڈسے کی برتھ ڈے منانے والوں کی قوت میں کمی آتی جا رہی تھی۔ اگر چند ماہ یہ تحریک اور چلتی تو مودی کو اپنا مسلم دشمن قانون واپس لینا پڑتا مگر افسوس کہ چین کے بعد بھارت اور پاکستان میں بھی کورونا کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان نے تو اس وبا کو خاصی حد تک کنٹرول کر لیا مگر بھارت میں یہ وبا تلاطم خیز طریقے سے جاری رہی۔
اسی لیے شاہین باغ کے جلسے کو جسے حکومت درہم برہم نہ کر سکی بتدریج کورونا نے تحریک کو مدھم کر دیا اور اب مسلم دشمن قانون کو وہ ختم ہونے سے بچا گیا۔ مگر جوں ہی یہ وبا اپنا زور کم کرے گی ویسے ہی جلسے جلوس پوری قوت سے ابھر کر آئیں گے اور اب تو ابھرنا ہی ہو گا کیونکہ امریکا اور روس نے کووڈ 19 کی ویکسین تیار کر لی ہے۔ امریکی ویکسین کا نام (Modrena) ہے جب کہ روسی ویکسین کو اسپٹنک فائیو (Sputinc-5) کا نام دیا گیا ہے۔
ویکسین کی آمد کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلم دشمن لیڈر کی روانگی قریب ہے ویسے بھی بھارتی لیڈر نریندر مودی بڑے پیمانے پر بیرونی دنیا میں اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں۔ اب یہ خبر گرم ہے کہ عربستان کے پڑھے لکھے نوجوان بھارت کی مسلم دشمنی کا پردہ چاک کر رہے ہیں اگر یوں ہی صورتحال میں بدلاؤ آتا رہا اور عرب ریاستوں کو ان کے پڑھے لکھے نوجوان ریاستوں کے امرا کو ان کی خارجہ پالیسی کی تبدیلی پر زور دیتے رہے اور پاکستان کے خارجہ امور کے دیدہ ور موقع سے فائدہ اٹھاتے رہے تو یقینا مودی اینڈ کمپنی کو خسارے کا سفر کرنا ہی پڑے گا۔
کشیدگی کی چینی صورتحال تو دنیا پر نمایاں ہے، لیکن پاکستان کے عام عوام جو بارڈر کے پاس رہتے ہیں ان کو جس مشکل سے گزرنا پڑ رہا ہے وہ ایک جنگی صورتحال سے کم نہیں۔ اس لیے اب ضرورت یہ ہے کہ جس طرح مسٹر ٹرمپ کی شکست میں بھارت اور پاکستان کے حقیقی ساکنوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے اسی طرح انھیں بھارت کی داخلی صورتحال اور نسلی اور مذہبی صورتحال کو اخبارات اور میڈیا میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
بلکہ انھیں مل کر بھارت کے غیر انسانی سیاسی سلوک اور کشمیر میں مجرمانہ سرگرمیوں کو میڈیا میں فوکس کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عالمی صورتحال میں بھارت کی نئی حکومت کے ساتھ امریکا کا رویہ یقیناً بدلا ہوا نظر آئے۔ لیکن امریکا میں بھارت اور پاکستان کے نوجوان خصوصاً ڈاکٹر صاحبان اپنے مسائل پر تو مل جل کر کام کرتے ہیں تو یہ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ وہ نسلی اور مذہبی امتیاز روا رکھنے پر بھارت اور پاکستان کے اسٹوڈنٹس اور دیگر ساکن ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر پڑھے لکھے باسیوں کی طرح بیرون ملک میں یکجا نظر آئیں۔
جہاں تک میری اطلاع ہے ڈاکٹری کے محاذ پر امریکا میں مل جل کر اکثر پروگرام کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی اور ہندوستانی طلبا کو مل کر حق کا ساتھ دینا چاہیے۔ بھارت نے چین سے جو سرحدی جھگڑا مول لیا ہے اس سے بھی بھارت کو چین کی سرحد پر جو نقصان ہو رہا ہے اس کے علاوہ سیاسی طور پر بھی دنیا میں اختلافی فکر پر دو آرا سامنے آ چکی ہیں۔ پاکستان کے خارجہ امور کے دانشوروں کو بھی بیرون ممالک میں بھارت کی سیکولر دشمنی جو اس نے روا رکھی ہوئی ہے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ عام لوگوں کو بھارت کی داخلہ جعلسازی کا علم ہو سکے جو مسلمان بھارت میں موجود نئے داخلی قانون پر اپنی آرا کا اظہار کرتے ہیں ان پر کوشش کرکے پاکستان کا باشندہ ظاہر کرنے کی حتمی کوشش کی جاتی ہے۔
جب سے مودی حکومت نے بھارت کی باگ ڈور سنبھالی ہے، وہاں آر ایس ایس کا نمایاں اثر پریس اور پورے میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی میڈیا تقریباً حکومت نے خرید لیا ہے کیونکہ بھارتی حکومت کے خلاف معاشی میدان میں بھی کوئی نکتہ چینی نمایاں نہیں حالانکہ من موہن سنگھ کے دور اقتدار کے مقابلے میں بھارتی جی ڈی پی سات فیصد سے زیادہ گر چکا ہے اور لگتا یہ ہے کہ مزید گر جائے گا۔ کیونکہ کورونا وبا کا علاج گائے کے پیشاب سے کیا جا سکتا ہے بقول وہاں کے نمایاں سیاستدانوں کے۔
اگر مذہبی فکر کا یہی حال رہا تو پھر بھارت چین کے خلاف اسلحے پرگوبرکی کوٹنگ کرے گا۔ بھارت جیسے ترقی یافتہ ملک میں اپنے ملک کے کم پڑھے لکھے عوام کو بے وقوف بنانے کا یہ انداز اس لیے ہے کہ مذہبی جنونیوں کو اپنی مٹھی میں بند کیا جائے تو ایسی حکومت سے ہم کس طرح یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ کورونا کی ویکسین کی آمد پر اپنی کس فکر کا استعمال کرے گی اور یہیں پر اس کو مجبوراً کورونا کے لیے ویکسین کا مشورہ دینا ہو گا تو اس تضاد میں اس کو فکری محاذ پر بڑے پیمانے پر شکست ہو گی۔
ایسی ریاست میں آلودہ سیاست کس طرح کارگر ہو سکتی ہے۔ آج کی دنیا میں جب بھی کوئی نئی پروڈکٹ یا نیا کاروباری فورم لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو اس میں جدید فیشن، خوشبو اور پرفیومزکا عنصر موجود ہوتا ہے تو بھلا ایسی صورت میں مغلظ چیزیں کیوں کر ترقی پا سکتی ہیں؟