اسرائیل غلطی ہے یہ تسلیم کیجیے
اسرائیل نام رکھنے کے باوجود کہ جس کے معنی ’’اﷲ کا بندہ‘‘ ہے۔
کون کہتا ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے؟
اسرائیل یعنی سیدنا یعقوب علیہ السلام کے لقب کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور تعظیم بھی کرتے ہیں، یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے تذکروں کواﷲ کی کتاب بلاغت سے سورت و آیات کی محبت لازوال امثال کی طرح تلاوت بھی کرتے ہیں...لیکن اسرائیل نام رکھنے کے باوجود کہ جس کے معنی ''اﷲ کا بندہ'' ہے۔
اﷲ کے بندوں کوجنون ودیوانگی سے اﷲ کی زمین سے بے دخل کرنے والے صیہونی کہنی مارنے والوں کو جب قائد اعظم محمد علی جناح نے تسلیم نہیں کیا تو پاکستان کیا کسی دیوانے کی بڑ ہے کہ جب کوئی بڑبڑایا تو ہم یکایک، یک لخت اور اچانک تاریخ ہی بھول جاتے ہیں۔
بے شک احادیث پاک میں آنے والی مساجد میں مسجد اقصی بھی ہے لیکن جنھیں اچانک مسجد اقصی کی محبت جاگی ہے وہ پہلے معراج شریف تو منانا شروع کریں کیونکہ اقتدائے مصطفیؐ میں انبیائے کرام علیہ السلام نے اسی مقدس مقام پرزیارت ختمی مرتبت کی تھی ، مسجد اقصی کا سہارا اور دہائیاںدے کراسرائیل کو تسلیم کرانے والے جانتے بھی ہیں کہ اسرائیل کے اولین ایجنڈوں میں انہدام مسجداقصی ہے جسے پہلے ہی نئی نئی بے تکی تعمیرات کے نام پر اتنا پیچھے کردیا گیا ہے کہ جانے والے ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں کہ مسجد اقصی آخرہے کہاں؟
ہمارے ہاں دراصل سارے نظریاتی چاول چپ چاپ پکا کرکھا لیے کسی نے کاش کہ کوئی وہاں ایک لانگ رکھ دی ہوتی تاکہ نظریاتی چاول تو بچ جاتے،اب تو''باسمتی'' بھی ''کرنل'' نہیں ملتے ورنہ شاید ایسے بیانات کی نوبت ہی نہ آتی...ملک اسرائیل ایک حرف غلط ہے جسے غلط طریقے سے غلط انداز میں غلط جغرافیے میں غلط فٹ کیا گیا۔
آج مسجد اقصی میں نماز کی ادائیگی کے لیے تڑپنے والے پہلے ان دو مساجد کو تو ایک مرتبہ دیکھ لیں جنھیں اﷲ نے ہم سب کے لیے سبق کے طور پر ایک مثال بنادیا، سود کھائیں گے، غیبتیں دین سمجھیں گے، بدگمانی پر مسلمان بھائی کی قبر بنائیں گے، حسد کی آگ میں پہلے خود جلیں گے پھر گناہوں کو جلائیں گے اور آخر میں کہیں گے بیت المقدس جانا ہے ''اتحاد'' میں کوئی سیٹ ہے؟ مجھے دیگر ممالک سے کیا لینا، میرا لیڈر تو قائد اعظم ہے جب تک اس کی تصویر سلامت ہے، میرا وطن بھی تاقیامت ہے... پاکستان کے ابھی اتنے بْرے دن بھی نہیں آئے اور الحمد للہ کبھی نہیں آئے نہ آئیں گے، ان شا ا ﷲ کہ ہم اسرائیل (ملک) کو تسلیمات کہیں...
ایک تو یہاں کسی کو بولنا درست نہیں آتا، کوئی اسرائیل کو ''عزرائیل'' کہتا ہے تا کہ انگریزی کی عزت برقرار رہے حالانکہ عزرائیل علیہ السلام تو سب کے پاس آئیں گے، اس وقت بڑے صحافی، صدور، وزرا تلفظ ضرور پوچھ لیں... رہ گیا اسرائیل تو وہ سیدنا یعقوب ہیں جنھوں نے ایشتر (جعلی معبود) کے خلاف آواز بلند کی، بینائی جاتی رہی، بیٹا مصر کے بازار میں بیچ دیا گیا اور پھر اسی مصر کا اﷲ نے اسے بادشاہ بنادیا، سلام ہو سیدنا اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام پر اور لعنت ہو نبی کے لقب پر ناجائز طریقوں سے زمین پر قبضہ کرکے اسرائیل نامی ایک ناخلف، بدتمیز اور غاصب ملک بنانے والوں اور ان کے کرائے کے نام نہاد مسلمان حامیوں یعنی خلافت راشدہ کے دشمن بادشاہوں پر۔
لبیک یا رسول اﷲ
اسرائیل یعنی سیدنا یعقوب علیہ السلام کے لقب کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور تعظیم بھی کرتے ہیں، یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے تذکروں کواﷲ کی کتاب بلاغت سے سورت و آیات کی محبت لازوال امثال کی طرح تلاوت بھی کرتے ہیں...لیکن اسرائیل نام رکھنے کے باوجود کہ جس کے معنی ''اﷲ کا بندہ'' ہے۔
اﷲ کے بندوں کوجنون ودیوانگی سے اﷲ کی زمین سے بے دخل کرنے والے صیہونی کہنی مارنے والوں کو جب قائد اعظم محمد علی جناح نے تسلیم نہیں کیا تو پاکستان کیا کسی دیوانے کی بڑ ہے کہ جب کوئی بڑبڑایا تو ہم یکایک، یک لخت اور اچانک تاریخ ہی بھول جاتے ہیں۔
بے شک احادیث پاک میں آنے والی مساجد میں مسجد اقصی بھی ہے لیکن جنھیں اچانک مسجد اقصی کی محبت جاگی ہے وہ پہلے معراج شریف تو منانا شروع کریں کیونکہ اقتدائے مصطفیؐ میں انبیائے کرام علیہ السلام نے اسی مقدس مقام پرزیارت ختمی مرتبت کی تھی ، مسجد اقصی کا سہارا اور دہائیاںدے کراسرائیل کو تسلیم کرانے والے جانتے بھی ہیں کہ اسرائیل کے اولین ایجنڈوں میں انہدام مسجداقصی ہے جسے پہلے ہی نئی نئی بے تکی تعمیرات کے نام پر اتنا پیچھے کردیا گیا ہے کہ جانے والے ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں کہ مسجد اقصی آخرہے کہاں؟
ہمارے ہاں دراصل سارے نظریاتی چاول چپ چاپ پکا کرکھا لیے کسی نے کاش کہ کوئی وہاں ایک لانگ رکھ دی ہوتی تاکہ نظریاتی چاول تو بچ جاتے،اب تو''باسمتی'' بھی ''کرنل'' نہیں ملتے ورنہ شاید ایسے بیانات کی نوبت ہی نہ آتی...ملک اسرائیل ایک حرف غلط ہے جسے غلط طریقے سے غلط انداز میں غلط جغرافیے میں غلط فٹ کیا گیا۔
آج مسجد اقصی میں نماز کی ادائیگی کے لیے تڑپنے والے پہلے ان دو مساجد کو تو ایک مرتبہ دیکھ لیں جنھیں اﷲ نے ہم سب کے لیے سبق کے طور پر ایک مثال بنادیا، سود کھائیں گے، غیبتیں دین سمجھیں گے، بدگمانی پر مسلمان بھائی کی قبر بنائیں گے، حسد کی آگ میں پہلے خود جلیں گے پھر گناہوں کو جلائیں گے اور آخر میں کہیں گے بیت المقدس جانا ہے ''اتحاد'' میں کوئی سیٹ ہے؟ مجھے دیگر ممالک سے کیا لینا، میرا لیڈر تو قائد اعظم ہے جب تک اس کی تصویر سلامت ہے، میرا وطن بھی تاقیامت ہے... پاکستان کے ابھی اتنے بْرے دن بھی نہیں آئے اور الحمد للہ کبھی نہیں آئے نہ آئیں گے، ان شا ا ﷲ کہ ہم اسرائیل (ملک) کو تسلیمات کہیں...
ایک تو یہاں کسی کو بولنا درست نہیں آتا، کوئی اسرائیل کو ''عزرائیل'' کہتا ہے تا کہ انگریزی کی عزت برقرار رہے حالانکہ عزرائیل علیہ السلام تو سب کے پاس آئیں گے، اس وقت بڑے صحافی، صدور، وزرا تلفظ ضرور پوچھ لیں... رہ گیا اسرائیل تو وہ سیدنا یعقوب ہیں جنھوں نے ایشتر (جعلی معبود) کے خلاف آواز بلند کی، بینائی جاتی رہی، بیٹا مصر کے بازار میں بیچ دیا گیا اور پھر اسی مصر کا اﷲ نے اسے بادشاہ بنادیا، سلام ہو سیدنا اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام پر اور لعنت ہو نبی کے لقب پر ناجائز طریقوں سے زمین پر قبضہ کرکے اسرائیل نامی ایک ناخلف، بدتمیز اور غاصب ملک بنانے والوں اور ان کے کرائے کے نام نہاد مسلمان حامیوں یعنی خلافت راشدہ کے دشمن بادشاہوں پر۔
لبیک یا رسول اﷲ