راہ بَر و راہ نمائے کامل ﷺ

مومن کے لیے اﷲ کی رضا کو پانے کا ذریعہ اطاعت اور اتّباع رسولؐ ہی ہے۔ جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی، اُس نے اﷲ کی اطاعت کی۔

مومن کے لیے اﷲ کی رضا کو پانے کا ذریعہ اطاعت اور اتّباع رسولؐ ہی ہے۔ جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی، اُس نے اﷲ کی اطاعت کی۔ فوٹو : فائل

خاتم النبیین حضرت محمّد ﷺ تاریخ انسانی میں بلاشبہ واحد ہستی ہیں جن پر آج تک سب سے زیادہ لکھا گیا اور جن کی سب سے زیادہ مدح کی گئی۔

آپ ﷺ کا ذکر خیر مسلمانوں کے لیے دل کی راحت کا سامان ہے اور دنیا و آخرت کی کام یابی کا راز بھی آپؐ ہی کے اسوۂ مُطہّرہ میں مضمر ہے۔ اس لیے ہر راست و پاک باز انسان کے لیے معرفت سیرت طیبہؐ سے آگاہی نہایت ضروری ہے، بلاشبہ کام یاب زندگی کے ہر پہلو پر آپؐ کی زندگی کامل اور تشفی بخش راہ نمائی پیش کرتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ آپؐ کی پوری زندگی کو خالق کائنات کی طرف سے اسوۂ حسنہ کی سند حاصل ہے۔

انسانی تاریخ میں رسول کریمؐ وہ واحد ہستی ہیں جن کی زندگی کا ہر ایک گوشہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپؐ کا حلیۂ مبارک، عادات و اطوار، رہن سہن، سفر و ہجر، خلوت اور جلوت سب ہمارے سامنے بے شمار کتب میں موجود ہیں۔ قرآن کی حفاظت تو اﷲ نے اپنے ذمے لی مگر اپنے حبیبؐ کی زندگی کا ہر پہلو اپنے پاکیزہ بندوں سے اس طرح سے محفوظ کروایا کہ آپؐ کی ہر ادا بھی قلم بند ہوگئی۔

ناصرف آپؐ کی زندگی بل کہ جن اشخاص نے آپؐ کی زندگی کو بیان اور قلم بند کیا ان سب کی زندگی، عادات و خصائل بھی محفوظ ہوگئے۔ اسمائے الرجال کا علم مسلمانوں کے ہاں اسی لیے ایجاد ہوا کہ جن اصحابؓ نے احادیث روایت کیں ان کی ساری زندگی بھی واضح ہو تاکہ ان سے احادیث کی قبولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے لیے سخت ترین اصول وضع کیے گئے، کڑی جانچ کے بعد اسوۂ رسول ﷺ کو تحریری شکل میں امّت کے حوالے کیا گیا۔

جب اﷲ نے خود ہی نجات کا ضامن اسوۂ رسول ﷺ کو قرار دیا تو پھر یہ ممکن نہ تھا کہ آپؐ کی زندگی کا کوئی ایک لمحہ بھی امّت کے لیے محفوظ نہ ہو، الغرض راہ و راہ نما کامل ﷺ کی تمام زندگی پوری طرح سے روشن اور واضح ہے۔ رسول کریم ﷺ خاتم النبیین ہیں اور قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی راہ نمائی کا ذریعہ بھی آپؐ ہی کا اسوۂ مُطہّرہ ہے۔

آپ ﷺ کو خالق کائنات نے '' رول ماڈل'' بنا کر بھیجا ہے۔ آپ ﷺ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے چناں چہ آپؐ کی ذات زندگی کے ہر روپ میں راہ نمائی کرتی نظر آتی ہے۔


یتیم ہو تو آمنہؓ کے لعلؐ کو دیکھو، تنہاء اور بے کس ہو تو اپنے آبائی شہر میں اجنبی ہوتے ابن عبداﷲ ؐ کو دیکھو، غریب ہو تو پیٹ پر پتھر بندھے مزدور کو دیکھو، دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور خزینہ دار کو دیکھو، استاد ہو تو صفّہ کے معلمؐ کو دیکھو، بادشاہ ہو تو سلطان عربؐ کو دیکھو، فاتح ہو تو بدر و حنین اور مکہ کے فاتح کو دیکھو، قیدی ہو تو شعب ابی طالب کے فاقہ کش کو دیکھو، کاروباری منتظم ہو تو فدک اور خیبر کی زمینوں کا نظم و نسق سنبھالنے والے کو دیکھو، جج ہو تو مسجد میں بیٹھے منصفؐ کو دیکھو، حکومت میں ہو تو مدینہ کے تاج دارؐ کو دیکھو، ریاست میں امن چاہتے ہو تو مواخات کے بانی کو دیکھو۔ ال غرض جس پہلو پر بھی راہ نمائی درکار ہے وہ صرف محمّد رسول اﷲ ﷺ کی زندگی سے مل کر رہے گی۔

ہمارے نبی کریم ﷺ کی شان بہت ہی بلند ہے، ایسی ہمہ گیر ہستی اس فلک نے نہ پہلے دیکھی اور نہ بعد میں کبھی دیکھ پائے گا۔ ایسے باکمال تھے ہمارے نبی ﷺ، معلّم و مرّبی اور ہادی جن سے صحابہؓ نے بہ راہ راست علم و آگہی اور تزکیہ حاصل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں الگ الگ فنون کے لیے الگ درس گاہیں موجود ہیں لیکن صرف رسول کریم ﷺ کی واحد درس گاہ ایسی ہے جو ہر علم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

اسی درس گاہ نے عرب کے گلہ بانوں کو فن و ہنر کے ساتھ کردار کی بلندی سے بھی سرفراز کیا۔ بلال حبشی غلام سے سیّدی بن گئے اور عمر فاروقؓ خلیفۂ وقت ہوتے ہوئے غلام کو سوار کیے اونٹ کی نکیل تھامے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ خالد بن ولیدؓ کی سجدوں کی لذّت اور جذبۂ جہاد ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ تمام صحابہ کرامؓ روشن ستاروں کی مانند چمکتے نظر آتے ہیں اور اسی روشنی سے انہوں نے دنیا کو منور کیا جو انہوں نے رسول کریم ﷺ سے حاصل کی تھی۔

رسول کریم ﷺ کی سنّت کی حد درجہ حفاظت کا مقصد امّت کے لیے اس سنّت کی پیروی کو ممکن بنانا ہے۔ ایک مومن کے لیے اﷲ کی رضا کو پانے کا ذریعہ اطاعت اور اتباع رسول ﷺ ہی ہے۔ جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی، پس تحقیق اس نے اﷲ کی اطاعت کی۔

رسول کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ آپؐ ایک مکمل نظام زندگی لے کر آئے ہیں جس میں زندگی کے ہر شعبے کی راہ نمائی موجود ہے بل کہ اس نظام کا عملی نمونہ آپؐ ہی کی ہمہ گیر زندگی سے بہ خوبی ملتا ہے اور اسی کی پیروی آپؐ نے امّت کے لیے بھی لازم قرار دی ہے۔ یہ ایسا جامع نظام زندگی ہے جو گھر سے بازار تک، دفتر سے پارلیمنٹ تک، کچہری سے عدالت عظمی تک، ملازم سے صدر مملکت تک ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ہی مضبوط اور قابل مردان کار تیار کرکے اپنے پیچھے اپنی سنّت کے بہترین وارث چھوڑ گئے، جنہوں نے آپؐ کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے آپؐ کے لائے ہوئے نظام زندگی کو چہار عالم میں پھیلا دیا اور یہی سبق رہتی دنیا کے مسلمانوں کو دیا کہ نظام مصطفی ﷺ کا قیام ہی ایک مسلمان کی اولین ذمّے داری ہے۔ یہی رسول اکرم ﷺ کا مشن تھا اور یہی ان کے سچے پیروکاروں کا مشن تھا اور قیامت تک کے عاشقان رسول ﷺ کا یہی مشن رہے گا۔
Load Next Story