بحری جانداروں کے خول اورلکڑی کے چورے سے دوا اور امائنو ایسڈ کی تیاری
سمندری جانوروں کے خول اور درختوں کے ڈنٹھل سے پارکنسن کے خلاف دوا اور ایک قسم کا امائنوایسڈ بنایا گیا ہے۔
سائنسدانوں نے درختوں کے سوکھے ڈنٹھل اور کیکڑوں اور جھینگوں وغیرہ کے خول سے پارکنسن کے خلاف دوا ایل ڈوپا اور پرولائن نامی امائنو ایسڈ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
عموماً درختوں کے خشک پتوں، سوکھی شاخوں اور سمندری جاندار کے خول کو بے مصرف سمجھا جاتا ہے لیکن نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے سائنسدانوں نے انہی فالتو باقیات سے پارکنسن کی مشہور دوا ایل ڈوپا اور پرولائن نامی امائنوایسڈ کی تیاری میں مدد لی ہے۔
پروفیسر یان ننگ اور پروفیسر زاؤ کینگ نے جھینگوں اور کیکڑوں کے خول سے ایل ڈوپا بنانے کا طریقہ معلوم کیا ہے۔ ایل ڈوپا پارکنسن کے مرض کی عام دوا ہے۔ عین اسی عمل سے درختوں کے فالتو مواد کو پرولائن نامی امائنو ایسڈ میں بدلا گیا جو مضبوط ہڈیوں اور کرکری ہڈیوں کی ضمانت ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں صرف جھینگوں اور کیکڑوں کا کچرا 88 لاکھ ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ لکڑی کے ٹکڑے اور برادے کی مقدار بھی ہزاروں لاکھوں ٹن پیدا ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اس کچرے کو کیمائی طور پر بدل کر خردنامیوں کے لیے 'قابلِ ہضم' بنایا گیا۔
پھر دوسرے مرحلہ حیاتیاتی ہے جو انگوروں کے خمار سے شراب سازی جیسا ہی ہے۔ اس میں خاص ای کولائی بیکٹیریا کو بدل کر پہلے مرحلے کی شے کو امائنو ایسڈ میں بدلا گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ایل ڈوپا دوا ایل ٹائروسائن نامی ایک کیمیکل سے بنتی ہے جو شکروں کے خمیر سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لیے سمندری جانداروں کے چھلکوں اور خول کو پہلے سادہ کیمیائی عمل سے گزارا گیا جو خردنامیوں سے ایل ڈوپا بنانے جیسا تھا ۔ اس میں روایتی شکر سے مدد لی گئی جو بہت سستی ہے۔ اس طرح کم خرچ انداز میں ایک دوا اور ایک امائنوایسڈ بنانے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔
عموماً درختوں کے خشک پتوں، سوکھی شاخوں اور سمندری جاندار کے خول کو بے مصرف سمجھا جاتا ہے لیکن نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے سائنسدانوں نے انہی فالتو باقیات سے پارکنسن کی مشہور دوا ایل ڈوپا اور پرولائن نامی امائنوایسڈ کی تیاری میں مدد لی ہے۔
پروفیسر یان ننگ اور پروفیسر زاؤ کینگ نے جھینگوں اور کیکڑوں کے خول سے ایل ڈوپا بنانے کا طریقہ معلوم کیا ہے۔ ایل ڈوپا پارکنسن کے مرض کی عام دوا ہے۔ عین اسی عمل سے درختوں کے فالتو مواد کو پرولائن نامی امائنو ایسڈ میں بدلا گیا جو مضبوط ہڈیوں اور کرکری ہڈیوں کی ضمانت ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں صرف جھینگوں اور کیکڑوں کا کچرا 88 لاکھ ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ لکڑی کے ٹکڑے اور برادے کی مقدار بھی ہزاروں لاکھوں ٹن پیدا ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اس کچرے کو کیمائی طور پر بدل کر خردنامیوں کے لیے 'قابلِ ہضم' بنایا گیا۔
پھر دوسرے مرحلہ حیاتیاتی ہے جو انگوروں کے خمار سے شراب سازی جیسا ہی ہے۔ اس میں خاص ای کولائی بیکٹیریا کو بدل کر پہلے مرحلے کی شے کو امائنو ایسڈ میں بدلا گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ایل ڈوپا دوا ایل ٹائروسائن نامی ایک کیمیکل سے بنتی ہے جو شکروں کے خمیر سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لیے سمندری جانداروں کے چھلکوں اور خول کو پہلے سادہ کیمیائی عمل سے گزارا گیا جو خردنامیوں سے ایل ڈوپا بنانے جیسا تھا ۔ اس میں روایتی شکر سے مدد لی گئی جو بہت سستی ہے۔ اس طرح کم خرچ انداز میں ایک دوا اور ایک امائنوایسڈ بنانے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔