گوگل کا معروف ادیبہ اورافسانہ نگاربانو قدسیہ کے نام بڑا اعزاز
حکومت پاکستان کی جانب سے ادبی خدمات کے اعتراف میں 2003 میں ’’ستارہ امتیاز‘‘ اور 2010 میں ’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا گیا
گوگل نے ڈوڈل کے ذریعے معروف ادیبہ اورافسانہ نگار بانوقدسیہ کوان کی سالگرہ کے موقع پربہترین انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
مرحوم ادیب اشفاق احمد کی اہلیہ اورمعروف مصنفہ بانوقدسیہ کوگوگل ڈوڈل کی جانب سے آج سالگرہ کے موقع پران کی خدمات کے پیش نظرٹریبیوٹ پیش کیا گیا ہے۔
معروف ادیبہ اورافسانہ نگاربانوقدسیہ 28 نومبر 1928 کو بھارت کے مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں، انہوں نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہوراور بی اے کنیئرڈ کالج سے کیا جب کہ 1949 میں گریجویشن کا امتحان پاس کیا اور وہ اس وقت پاکستان ہجرت کرچکی تھیں۔ بانو قدسیہ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور یہیں اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے اور دونوں نے دسمبر 1956 میں شادی کرلی۔
مصنفہ بانو قدسیہ نے 27 ناول اور کہانیاں تحریر کی ہیں جس میں ''راجہ گدھ''، ''امربیل''، ''بازگشت''، ''آدھی بات''، ''دوسرا دروازہ''، ''تمثیل''،'' حاصل گھاٹ'' اور ''توجہ کی طالب '' قابل ذکر ہیں جب کہ ان کے ناول ''راجہ گدھ''اور ''آدھی بات'' کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی بہت سے ڈرامے لکھے ہیں۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 2003 میں ''ستارہ امتیاز'' اور 2010 میں ''ہلال امتیاز'' سے نوازا گیا جب کہ اس کے علاوہ انہیں کئی قومی اوربین الااقوامی ایورڈ بھی دیئے گئے ہیں لیکن یہ اردو ادب کا چمکتا ستارہ طویل علالت کے بعد 88 سال کی عمرمیں بجھ گیا تھا۔
مرحوم ادیب اشفاق احمد کی اہلیہ اورمعروف مصنفہ بانوقدسیہ کوگوگل ڈوڈل کی جانب سے آج سالگرہ کے موقع پران کی خدمات کے پیش نظرٹریبیوٹ پیش کیا گیا ہے۔
معروف ادیبہ اورافسانہ نگاربانوقدسیہ 28 نومبر 1928 کو بھارت کے مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں، انہوں نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہوراور بی اے کنیئرڈ کالج سے کیا جب کہ 1949 میں گریجویشن کا امتحان پاس کیا اور وہ اس وقت پاکستان ہجرت کرچکی تھیں۔ بانو قدسیہ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور یہیں اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے اور دونوں نے دسمبر 1956 میں شادی کرلی۔
مصنفہ بانو قدسیہ نے 27 ناول اور کہانیاں تحریر کی ہیں جس میں ''راجہ گدھ''، ''امربیل''، ''بازگشت''، ''آدھی بات''، ''دوسرا دروازہ''، ''تمثیل''،'' حاصل گھاٹ'' اور ''توجہ کی طالب '' قابل ذکر ہیں جب کہ ان کے ناول ''راجہ گدھ''اور ''آدھی بات'' کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی بہت سے ڈرامے لکھے ہیں۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 2003 میں ''ستارہ امتیاز'' اور 2010 میں ''ہلال امتیاز'' سے نوازا گیا جب کہ اس کے علاوہ انہیں کئی قومی اوربین الااقوامی ایورڈ بھی دیئے گئے ہیں لیکن یہ اردو ادب کا چمکتا ستارہ طویل علالت کے بعد 88 سال کی عمرمیں بجھ گیا تھا۔