اورنگی ٹاؤن بم دھماکوں میں جاں بحق4افراد سپرد خاک ورثا کا دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ

نمازجنازہ میں ایم پی اے سیف الدین خالد کے علاوہ کسی حکومتی نمائندے ، سیاسی اورمذہبی جماعت کے رہنما نے شرکت نہیں کی


Sajid Rauf December 26, 2013
اسپتالوں میں ہنگامی صورتحال میں زخمیوں اور جاں بحق افراد کی تفصیلات فراہم کرنے کیلیے فوری طورپر اطلاعاتی ڈیسک قائم کی جائیں،متا ثرین ۔ فوٹو : فائل

اورنگی ٹاؤن میں یکے بعد دیگر 2 بم دھماکوں میں جاں بحق ہونیوالے 3نوعمر لڑکوں سمیت 4 افراد کو سپرد خاک کردیا گیا ، نماز جنازہ میں متحدہ قومی موومنٹ کے ایم پی اے سیف الدین خالد کے علاوہ کسی حکومتی نمائندے ،سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت نہیں کی۔

تفصیلات کے مطابق اورنگی ٹاؤن پونے 10 نمبر میں واقعے امام بارگاہ عزا خانہ کوثر کے قریب کیے جانے والے یکے بعد دیگرے 2 بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والے اورنگی ٹاؤن سیکٹر5-D کے رہائشی15 سالہ ربیع اول ولد مظہر قادری اور16سالہ ظہیر ولد اقبال کی نماز جنازہ گھر کے قریب واقع سڑک پر بعد نماز ظہر ادا کی گئی، نماز جنازہ میں ایم پی اے سیف الدین خالد ،ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج اور کارکنان ،مقتولین کے اہلخانہ ، عزیز و رشتے دار ، دوست احباب اور علاقہ مکین بڑی تعداد میں شریک ہوئے، نماز جنازہ کے بعد مقتول ربیع اول ولد مظہر قادری کی میت پا پوش نگر میں واقع قبرستان جبکہ ظہیر ولد اقبال کی میت اورنگی ٹاؤن 10نمبر کے قریب واقع الفتح قبرستان لے جائی گئی جہاں ربیع اول اور ظہیر کوسیکڑوں سوگواران کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔



بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والے اورنگی ٹاؤن سیکٹر 5-E مکان نمبر 117 کے رہائشی 40 سالہ عرفان ولد رشید احمد کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر گھر کے قریب واقعے غوثیہ مسجد میں ادا کی گئی، نماز جنازہ میں مقتول کے اہلخانہ ، عزیز و اقارب ، دوست احباب اور علاقہ مکین شریک ہوئے، بعد ازاں مقتول کی میت اونگی ٹاؤن 10نمبر میں واقع قبرستان لے جائی گئی جہاں مقتول کو الفتح قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ، دھماکے میں جاں بحق ہونے والے اورنگی ٹاؤن سیکٹر 4-E مکان نمبر294کے رہائشی 15سالہ محمد سمیع عرف سنی ولد گل زعفران کی نماز جنازہ صبح 10 بجے گھر کے قریب واقع مسجد میں ادا کی گئی،نماز جنازہ کے بعد میت اورنگی ٹاؤن10نمبر میں واقع قبرستان لے جائی گئی جہاں مقتول کوالفتح قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔

اس سے قبل جب مقتولین کی رہائش گاہوں سے جنازے اٹھے توعلاقے میںکہرام مچ گیا ، مقتولین کے ورثا روتے رہے،اپنے پیاروں کو یاد کرتے رہے، بم دھماکوں کے دوسرے روز بھی علاقے میں فضا تا حال سوگوار ہے، بعد ازاں مقتول ربیع اول کے والد مظہر قادری نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مقتول ربیع اول 3 بھائیوں اور2 بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھا ، مقتول نویں جماعت کا طالب علم تھا ، نماز کا پابند اور انتہائی خوش اخلاق تھا جس وقت پہلا دھماکہ ہوا ۔

مقتول ربیع اول گھر میں پڑھائی کررہا تھا اورجیسے ہی پہلا دھماکہ ہوا تو ربیع اول نے والدہ کو کہا میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں کہاں دھماکہ ہوا تھا اور جسے ہی ربیع اول جائے وقوعہ پر وہاں پہنچا تودوسرا دھماکہ ہو گیا،بیٹا زخمی حالت میں اسپتال پہنچا تھا اور کئی گھنٹوں کے بعد دوران علاج جاں بحق ہوا۔

واقعے کے بعد وہ 3مرتبہ عباسی شہید اسپتال گئے لیکن ربیع اول کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملی،شام کے وقت پتہ چلا کہ ایک شخص کی شناخت اب تک نہیں ہوئی ہے اسے ایدھی سرد خانے منتقل کیا جا رہا ہے اور اسی دوران وہ ہاں پہنچے تو انھوں نے ربیع اول کو شناخت کر لیا ، واقعے کے بعد مقتول کی والدہ صدمے سے دوچار ہیں اور ان پر بیٹا کھونے کا گہرا اثر پڑا ہے تھوڑی تھوڑی دیر بعد انہیں غشی کے دورے پڑرہے ہیں انھوں نے اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر کہیں کوئی دہشت گردی یا بم دھماکے کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسپتالوں میں ایک معلوماتی ڈیسک قائم کی جانی چاہیے تاکہ متاثرہ افراد کو بر وقت درست معلومات کی فراہمی ممکن ہوسکے ، انھوں نے بتایا کہ اگر اسپتال میں انہیں بروقت معلومات مل جاتی تو ایک مرتبہ اپنے لخت جگر سے ضرور مل لیتے ، پر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔



مقتول ظہیر ولد اقبال اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور بڑھاپے کا واحد سہارا تھا مقتول کے سوگواران میں2 بہنیں اور والدین شامل ہیں ، مقتول کے والد اقبال نے بتایا کہ مقتول ظہیر اور ربیع اول دونوں گہرے دوست تھے اور مقتول ظہیر نے تاخیر سے پڑھائی شروع کی تھی اور مقتول پانچویں جماعت کا طالب علم تھا ، پہلے دھماکے کے بعد ظہیر اور ربیع اول دونوں ایک ساتھ وہاں گئے تھے اور دوسرا دھماکہ ہوا جس امام بار گاہ کے قریب دھماکے ہوئے وہاں 24 گھنٹے پولیس موبائل کھڑی ہوتی ہے اور ان کی موجودگی میں کسی شخص نے وہاں کیسے بم نصب کر دیے یہ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے انھوں نے بتایا کہ پولیس عام شہریوں کو تو بلا جواز تنگ کرتی رہتی ہے تاہم دہشت گرد ان کی نظر سے اوجھل ہو گئے اور اس کی تحقیقات کی جانی چاہیے، مقتول عرفان ولد رشید احمد شادی شدہ اور2 بیٹوں کا باپ تھا ۔

مقتول کے گھر کے قریب گاڑیوں کے شو پارٹس بنانے کا کار خانہ ہے، مقتول اپنے کار خانے کے لیے موٹر سائیکل پر سامان خریدنے کے لیے اورنگی ٹاؤن 10نمبر گیا تھا اور پہلا دھماکہ ہونے کے بعد وہ ایک منٹ کے لیے جائے وقوعہ پر رکا ہی تھا کہ اسی دوران دوسرا دھماکہ ہو گیا ، مقتول کے چھوٹے بھائی عمران ولد رشید احمد نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فل الفور دہشت گردی کو رکوانے کے لیے فوری اقدامات کریں، ورنہ روزانہ بے گناہ لوگ مارے جاتے رہیں گے، مقتول محمد سمیع عرف سنی کے والد گل زعفران اور بڑے بھائی لیاقت نے ایکسپریس کا بتایا کہ مقتول 10بہن بھائیوں میں نوے نمبر پر تھا اور مقتول گھر کے قریب واقع اسکول میں 8 ویں جماعت کا طالب علم تھا جس وقت پہلا دھماکہ ہوا مقتول سنی اپنے بھائیوں اور دوستوں کے ہمراہ گراؤنڈ میں کر کٹ کھیل رہا تھا اور بالنگ کرا رہا تھا پہلا دھماکہ سن کر سارے بچے ایک طرف بھاگے جبکہ سنی مخالف سمت کی جانب بھاگا اور امام بار گاہ کے مرکزی دروازے کے قریب پہنچ گیا اور سنی کھڑا ہو کر دیکھ ہی رہا تھا کہ سنی کے بڑے بھائی نے اسے آواز دی کہ وہاں سے واپس آجاؤ اسی دوران دھماکہ ہو گیا ۔

مقتول کے بھائی کا کہنا تھا کہ کب تک ان کے پیارے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے حکومت کب تک خاموش بیٹھی رہے گی، واقعے کے بعد ان کے اہلخانہ سے کسی بھی حکومتی نمائندے،سیاسی و مذہبی جماعت کے عہدیدار اور سماجی شخصیت نے گھر آکر تعزیت کی نہ واقعے پرافسوس کا اظہار کیا بلکہ حکومتی عہدیدار دعوے کررہے ہیں کہ چہلم پر امن طریقے سے گزر گیا کوئی ان کے گھر آکر بھی تودیکھے کہ ان پر گھر والوں پرکیا گزررہی ہے، ان کی والدہ کو ہر تھوڑی دیر بعد غشی کے دورے پڑ رہے ہیں اور وہ بے حوش ہو رہی ہیں ، انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کم از کم بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والے مقتولین کے ورثا کو معاوضہ یا فیملی کے کسی فرد کو سرکاری محکمے میں ملازمت دے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔