معاشی ثمرات اور جمہوری اسپرٹ

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں بجٹ خسارہ 198ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں بجٹ خسارہ 198ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو : فائل

ملکی معیشت کے مثبت اقتصادی اشاریے درست سمت میں گامزن بتائے جاتے ہیں جس کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ جولائی تا اکتوبر کے دوران پاکستان کی غیر ملکی ترسیلات زر میں 26.5 فیصد، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 9.1 فیصداضافہ اور ٹیکس ریونیو میں 4.5 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ ملکی برآمدات میں 10.3 فیصد اور نان ٹیکس ریونیو میں 15.2 فیصد کمی ہوئی، درآمدات بھی 4 فیصد کم ہوئی ہیں مگر ساتھ ہی رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں مالیاتی خسارے کا حجم 484 ارب روپے ہے جب کہ گزشتہ برس اس عرصے میں بجٹ خسارے کا حجم 286 ارب روپے تھا، چار ماہ کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 1.1 فیصد ہے جو کہ گزشتہ برس اس عرصے میں 0.7 فیصد تھا۔

بلاشبہ حکومت کی جانب سے معیشت میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں اور اس سے کسی حد تک سرمایہ کار کا اعتماد بھی بحال ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ملک میں تعمیراتی صنعت میں بہتری ہوتی نظر آ رہی ہے جس سے کم ازکم روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو روزگار ملنا شروع ہو گیا ہے لیکن ملکی مجموعی معاشی صورت حال کو اگر گراس روٹ لیول پر جا کر دیکھا جائے تو حکومت کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بہت بلند ہو رہی ہے۔ کورونا وباء کی وجہ سے جو پہلے روزگار پر تھے، ان کی بھاری اکثریت بے روزگار ہو چکی ہے۔

سچائی یہی ہے کہ اس اقتصادی عدم تسلسل اور رونما ہونے والے معاشی دھچکوں پر معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی ایک تسلسل مانگتی ہے، اور ہمارے ہاں معاشی وسعت پزیری کا عمل امید و بیم کے مابین گرم سفر ہے جب کہ ملک کو ایک مستقل اقتصادی و سماجی نظام کی ضرورت ہے جسے ارباب اختیار ایک واضح تبدیلی کے دل خوش کن منظرنامہ کے طور پر عوام کے سامنے پیش کریں۔

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں بجٹ خسارہ 198ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ گیا، مہنگائی کی اوسط شرح 8.9 فیصد رہی گزشتہ برس یہ 10.3 فیصد تھی، نومبر میں مہنگائی کی شرح 8.5 فیصد متوقع ہے۔ یہ شماریاتی جائزہ حکومت کا ہے لیکن زمینی معاشی حقائق ملک کی بڑی سبزی و فروٹ منڈیوں، مارکیٹس، بازاروں، ٹھیلوں، دکانوں اور گلی محلے کے پرچون فروشوں میں جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں مگر قوم کے معاشی مسیحا کب ملک کی اقتصادی نبض پر ہاتھ رکھتے نظر آتے ہیں، کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر ملبوسات کی قیمتوں تک کا جائزہ لیا جائے تو ان میں غیرمعمولی اضافہ نظر آ رہا ہے۔

آٹو انڈسٹری کی بھی یہی صورت حال ہے۔ مارکیٹوں میں کاروباری سست روی ابھی تک جاری ہے۔ درمیانے درجے کا کاروباری اور نجی شعبے کا ملازم، اس صورت حال میں بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بجلی کے نرخ ہوں یا گیس کے نرخ، سالانہ بجٹ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی ہمیشہ غیریقینی جاری رہتی ہے۔ ایسی صورت میں معیشت کو ایک مسلسل استحکام کی کیفیت میں رکھنا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہمارے اکنامک منیجرز کو اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

اسی جمود کی کیفیت میں ہی ایک ہلچل گزشتہ روز پاکستان اسٹیل ملز میں نظر آئی جہاںتقریباً ساڑھے چار ہزار کے قریب ملازمین کو فارغ کر دیا، اخباری اطلاعات کے مطابق فارغ کیے گئے تمام ملازمین کے لیٹرز ان کے رہائشی پتوں پر ارسال کیے جا رہے ہیں۔ ادارے سے فارغ کیے جانے کی اطلاع ملتے ہی تمام ملازمین اور ٹریڈ یونینز میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی، ملازمین میں اشتعال پھیل گیا۔

مزدور رہنماؤں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ سندھ اس مسئلے کی جانب توجہ دیں اور دونوں حکومتیں مل بیٹھ کر اسٹیل مل کی بحالی اور ملازمین کے روزگار کو بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ پاکستان اسٹیل ملز پاکستان کا ایک قومی ادارہ ہے، اس میں مالی بحران نے ایک افسانوی حیثیت اختیار کر لی، ایک طرف حکومت تعمیرات کے شعبے میں سرگرمیوں کی تیزی چاہتی ہے اور دوسری طرف فولاد کی فراہمی کے سب سے بڑے ادارے کو ''بیمار'' قرار دے کر ڈاؤن سائزنگ کی گئی، ایسے میں کون سے سرمایہ کار ملکی معیشت کے استحکام کی پیشکش پر تیار ہوں گے، گیس کا بحران بھی سر اٹھا رہا ہے، سردیاں آ گئی ہیں اور شہریوں کو گیس کی قلت اور لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے، ایل این جی ٹرمینل اور معاہدے بھی سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں، الزامات کا ایک شور ہے، ڈالر اور سونا پھر سے مہنگا ہوا ہے، دوائیں مہنگی ہیں، بیروزگاری اور غربت نے مزدور کی زندگی کے ایام سخت کر دیے ہیں.


محکمہ شماریات کے مطابق ایک ہفتے کے دوران مہنگائی میں 0.92 فیصد کمی ریکارڈ، 7.48 فیصد رہ گئی، 11 اشیا مہنگی 10 سستی، 30 کی قیمتوں میں استحکام دیکھا گیا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کی جاری اقتصادی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہے، رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں اہم اقتصادی اشاریے مضبوط گروتھ کی عکاسی کر رہے ہیں۔ مطلوبہ معلومات و اشاریوں کی بنیاد پر اشیا و خدمات کے توازن میں مخدوش صورتحال کا امکان موجود نہیں ہے، ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے بحالی کا سفر محفوظ ہو گا، حکومت مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ آیندہ مہینوں میں مہنگائی کے دباؤ میں کمی آئے گی اور نومبر ہی میں مہنگائی کی شرح 8.5 فیصد متوقع ہے۔

یاد رہے وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں دورہ فیصل آباد میں قوم کو یہ خوشخبری سنائی کہ برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، ٹیکسٹائل کی صنعت اپنے پیروں پر کھڑی ہو رہی ہے، اس میں سچائی ہو سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ بہرحال موجودہ حکومت کو مشکل مالی حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، حکومت کا یہ بیانیہ بھی درست ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی کرپشن کی وجہ سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچا لیکن حالیہ دو برسوں میں جس انداز میں معیشت زوال پذیر ہوئی ہے، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میںملنا مشکل ہے۔ ہمارے ملک میںڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر پروفیشنلز تعلیم کے حامل نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں۔ کسی ملک کی ترقی میں یہ نوجوان ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ اس تصویر کو دیکھا جائے تو پاکستان کی معیشت کی تصویر زیادہ خوش کن نظر نہیں آتی۔

ملک میں صنعتی ترقی اور امن کا ساتھ ساتھ چلنا ناگزیر ہے، معیشت کو کورونا کے عفریت نے گھیر رکھا ہے، معاشی جمود ٹوٹتا نظر نہیں آ رہا، یہی وہ مشکل وقت ہے جب حکمرانوں کی فہم وفراست کو جانچا جاتا ہے۔ہمارے ہاں سیاسی بے چینی بھی بڑھ رہی ہے۔

اپوزیشن مظاہروں پر تلی ہوئی ہے، حکومت کورونا کا شور مچا رہی ہے لیکن حکومت کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اصولی طور پر جلسے جلوسوں کی بندش کے علاوہ ماسک، سماجی فاصلہ اور بھیڑ سے بچاؤ کے لیے جس قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے اس کا عندیہ نہ سیاسی اپوزیشن سے ملتا ہے اور نہ ریاستی رٹ قائم رکھنے کے لیے حکومت اپوزیشن سے بالمشافہ اعلیٰ سطح کے جمہوری مکالمہ کے لیے رضامند ہے، یہ نکتہ گزشتہ دنوں ان ہی سطروں میں بیان ہوا تھا کہ عوام کسی طرز حکومت کو بنیادی تبدیلی کا نسخہ کیمیا نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک لیڈر شپ پر اعتماد اور بھروسہ ہی بریک تھرو کی کلید ہے، لہٰذا حکمراں ملکی حالات کی گھمبیرتا کا ادراک کریں، ذاتی انا سے بالا تر ہو کر سیاسی مصالحت اور خیر سگالی سے سیاسی تناؤ کا خاتمہ کریں، یہ نیک کام وزیر اعظم ہی کر سکتے ہیں، تدبر اور دور اندیشی سے سیاسی رہنما کسی بھی سماج کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔

پاکستان کوئی بنانا ریپبلک نہیں، ایک ایٹمی ریاست ہے، اس کی رٹ قائم ہونے میں دیر نہیں لگنی چاہیے، مفاہمانہ ماحول وقت کی ضرورت ہے، نیب کے کیسز قانونی عمل سے مشروط ہیں، عوام کو معاشی ثمرات دینے کے لیے ضد اور ہٹ دھرمی سے نہیں دوطرفہ پارلیمانی اور جمہوری اسپرٹ اور سیاسی فہم و فراست سے کام لینے کا وقت ہے۔ اس میں تاخیر کی گنجائش نہیں کیونکہ وزارت خزانہ نے انتباہ کیا ہے کہ دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بھی معاشی بحالی کے سفر میں کورونا وائرس کی وبا میں اضافہ ایک بڑا خطرہ ہے۔

پاکستان کی حکومت اپنے شہریوں کی صحت کو محفوظ رکھنے کے لیے معیشت کے بعض شعبوں میں پابندیاں لگا رہی ہے تاہم مخصوص اور بہترین پالیسیوں کی وجہ سے ان ضروری پابندیوں سے پیدا ہونے والے اقتصادی بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی، ویکسین کی فراہمی کی صورت میں مستقبل قریب میں اقتصادی منظرنامہ میں مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔

حقیقت یہ ہے کہ معیشت اور سیاسی کشیدگی کے درمیان کورونا وائرس ایک فیصلہ کن لکیر بن سکتی ہے، ہو سکتا ہے کہ تاریخ اہل وطن اور سیاسی قائدین سے اپنا فیصلہ دینے سے پہلے اسٹیک ہولڈرز کو مہلت دے رہی ہو کہ وہ قومی ایشوز اور سیاسی ڈیڈ لاک کے خاتمہ کے لیے پہل کریں، معیشت کا استحکام اقتصادی جدلیات سے جڑا ہوا ہے، امن ہو گا تو ترقی ہو گی، سیاسی تصادم موخر ہو گا تو قوم خیر اندیشی کی فضا کا خیر مقدم کریگی، کوئی پاکستانی سیاسی انتشار، خانہ جنگی اور انارکی کا خواہاں نہیں،22 کروڑ عوام جمہوریت، معاشی انصاف، آسودگی اور امن کے حق میں ہیں۔ لوگ مہنگائی اور غربت سے تنگ آ چکے، اب گیند سیاستدانوں کے کورٹ میں ہے، ضرورت فیئر پلے کی ہے۔
Load Next Story