مقامی حکومتوں کے نظام سے انحراف کی پالیسی
1973 کا آئین تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ ان مقامی جمہوری اداروں کی تشکیل ، انتخابات کو یقینی بنائیں۔
مقامی حکومتوں کی مضبوطی اور خودمختاری کے تناظر میں عمران خان کی حکومت بھی ماضی کی حکومتوں سے ہٹ کر کوئی اچھی مثال قائم نہیں کرسکی ۔
اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان حزب اختلاف کی سیاست میں مقامی حکومتوں کے نظام کی خود مختاری اور مضبوطی کو اپنی اہم سیاسی ترجیحات کے طور پر پیش کرتے تھے ۔ لیکن اقتدار کی سیاست کا بڑا المیہ یہ ہی ہوتا ہے کہ سیاست دان حزب اختلاف کی سیاست میں دو مختلف چہرے رکھتے ہیں۔یہ ہی طرز عمل ہمیں موجودہ عمران خان کی حکومت میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔
اگرچہ عمران خان کی حکومت مقامی حکومت کے نظام کی سیاسی چیمپیئن تو بنتی ہے مگر عملی طور پر وہ بھی حکمرانی کے نظام کی درستگی میں ایک روائتی اور فرسودہ طرز کی سیاست سے جڑی نظر آتی ہے ۔مسئلہ عمران خان کی حکومت کا ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے مقامی نظام حکومت کے حوالے سے جمہوری قوتوں کو مایوس کیا ہے ۔
ایک عمومی مسئلہ یہ ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں نچلی سطح پر اختیارات کی سیاسی ، انتظامی اور مالی تقسیم کے حامی نہیں اور عملی طور پر مرکزیت یعنی زیادہ سے زیادہ اختیارات کو ایک خاص دائرہ کار تک محدود کرکے حکمرانی کے نظام کو چلانا چاہتے ہیں ۔ 18ویں ترمیم جس میں مرکز سے صوبوں کو زیادہ بااختیار کیا گیا مگر اب صوبے کسی بھی شکل میں اپنے نیچے ضلعوں، تحصیل یا مقامی کونسلوں کو بااختیار بنانے کے لیے بالکل تیار نظر نہیں آتے ۔
صوبائی خود مختاری کی بحث اس وقت تک مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک نچلی سطح تک اختیارات منتقل نہیں ہوتے ۔یعنی ہمیں شفاف حکمرانی کے نظام کے لیے مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام کی ضرورت ہے۔سیاست اور جمہوریت میں ان مقامی حکومتوں کے نظام کو سیاسی جمہوری نرسریاں قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن سیاسی قیادت اور اقتدار میں شامل طبقہ ان جمہوری نرسریوں کو اپنے سیاسی مفادات میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ اول اس ملک کی حکمرانی میں مقامی حکومتوں کے نظام کو کئی کئی برسوں تک پابند سلاسل رکھ کر ان کے انتخابات اور تشکیل سے مکمل انحراف کیا گیا۔
دوئم جب کبھی سیاسی اور قانونی ضرورتوں یا عدالتی دباؤ کی صورت میں ہمیں مقامی نظام کی تشکیل کرنا پڑی تو ہم نے ان اداروں کو سیاسی طور پر مفلوج کرکے ان کو کسی بھی سطح پر اختیارات نہ دینے کی پالیسی پر عمل کر کے کمزور کیا۔ملک میں جو حکمرانی کا شدید ترین بحران ہے اس کی ایک بڑی وجہ مقامی نظام حکومت سے مسلسل انحراف کی پالیسی بھی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے مسلسل انحراف کی پالیسی پر عملاً یہ حکومتیں کسی بھی سیاسی یا قانونی پلیٹ فارم پر جوابدہ نہیں ۔
عدلیہ بھی اس معاملے پر خاموش نظر آتی ہے اور کوئی ایسا ٹھوس اقدام کے لیے تیار نہیں جو فوری طور پر چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی پر کوئی نوٹس لے یا حکومتوں کو جوابدہ بنائے۔ سیاسی محاذ پر سیاسی جماعتوں اور ارکان اسمبلی کی سطح پر بھی کوئی بڑی مزاحمت اس نظام کی عدم موجودگی پر نظر نہیں آتی ۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان اس مقامی نظام کو اپنی سیاسی اور مالی طاقت کی کمزوری کے طور پر دیکھتے ہیں ۔اس وقت ملک کا جمہوری نظام چاروں صوبوں میںمقامی حکومتوں کے نظام سے محروم ہے۔
لوگ مقامی حکومتوں کا نظام چاہتے ہیں لیکن اہل سیاست اس نظام کے خلاف نظر آتے ہیں۔ کیونکہ مقامی حکومتوں کا نظام صوبائی معاملہ ہے تو وفاقی حکومت کے پاس ایسے کوئی اختیارات نہیں کہ وہ صوبوں پر ان اداروں کی تشکیل کو یقینی بنانے کے لیے کچھ کرسکے ۔اب سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں پر کیسے دباؤ ڈالا جاسکے کہ وہ انتخابات کو فوری طور پر یقینی بنا سکے۔ مرکز میں کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے اور پنجاب ، خیبر پختونخوا میں ان کی صوبائی حکومتیں ہیں جب کہ بلوچستان میں وہ مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔
اسی طرح سندھ میں پیپلز پارٹی صوبائی حکومت کا حصہ ہے ۔ بنیادی ذمے داری تو بنتی ہے کہ سیاسی جماعت جو بھی اقتدار کی سیاست کا حصہ ہے وہ مقامی انتخابات کو ترجیحی بنا کر اپنی صوبائی حکومتوں کو پابند کرے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کو فوری طور پر یقینی بنائے۔خود وزیر اعظم کو تمام صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرے۔تاکہ مقامی لوگوں کو یہ جمہوری حق مل سکے کہ وہ مقامی سطح پر اپنے منتخب نمایندوں کو براہ راست انتخاب کی مدد سے چن کرمقامی مسائل کو بہتر طور پر حل کرسکیں ۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ معاشرے کے کمزور طبقات یا وہ لوگ جو زیادہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں ان کے لیے یہ مقامی ادارے زیادہ فعالیت اور شفاف انداز میں ان کی حکمرانی کا حق ادا کرتے ہیں۔کیونکہ ان مقامی اداروں پر مقامی لوگوں کی آسانی سے رسائی ہوتی ہے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی مدد سے لوگوں کی ترجیحات کو بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ مقامی نظام پر سیاسی نعرے تو بہت لگاتے ہیں مگر ان کو اس بات کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ ان کی اپنی دو صوبائی حکومتیں پنجاب اور خیبر پختونخوا اس نظام کے ساتھ پچھلے ڈھائی سال سے کیوں سوتیلا سلوک کررہی ہیں اور کیوں انتخابات کے انعقاد میں ٹال مٹول کی جارہی ہے ۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان یہ نظام چاہتے بھی ہیں تو اپنی صوبائی حکومتوں یا ارکان اسمبلی کے سامنے سیاسی بے بسی کا شکار ہیں۔مقامی حکومتوں کا نظام محض ایک سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک قانونی تقاضہ بھی ہے ۔ اس سیاسی اور قانونی تقاضہ کے بغیر ملک میں مکمل سطح کی جمہوریت کا دعویٰ بھی بے معنی ہوگا۔
1973 کا آئین تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ ان مقامی جمہوری اداروں کی تشکیل ، انتخابات کو یقینی بنائیں، ان کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دیے جائیں اور یہ اختیارات عوام کے منتخب نمایندوں کو دینے ہونگے۔ لیکن اس کے باوجود ہماری صوبائی حکومتیں جمہوریت اور آئین دونوں کے خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہیں ۔لیکن اس سیاسی ، جمہوری اور قانونی خلاف ورزی یا مقامی نظام سے انحراف کرنے کی پالیسی پر ہمیں سیاسی و قانونی محاذ پر مزاحمت کے پہلو بھی کمزور نظر آتے ہیں ۔