درمیانی راستہ

اگر کورونا بڑھا تو مکمل لاک ڈاؤن ہوگا ذمے دار پی ڈی ایم ہوگی اور کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔


MJ Gohar November 29, 2020

WASHINGTON: یہ بات طے ہے کہ بہتر حکمت عملی کے بغیر کوئی بھی حکومت چھوٹے یا بڑے کسی بھی مسئلے پر قابو نہیں پاسکتی۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو حکومت اور عوام دونوں کے باہمی تعاون ہی سے درست کی جاسکتی ہیں۔

کورونا وائرس بھی ایک ایسی ہی خطرناک عالمی وبا ہے جس پر عوام اور حکومت ہر دو فریق کے باہمی تعاون کے بغیر قابو پانا ممکن نہیں۔ کورونا کی دوسری لہر نے پوری دنیا کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی دراز ہوکر اگلے سال کے اوائل تک جائے گا۔ ماہرین طب نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو متاثرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ کورونا کی دوسری لہر پہلے سے زیادہ شدید تر ہوگی اور اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں تیز رفتاری سے اضافہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں کورونا صورتحال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے تقریباً دو سو کے قریب ملکوں میں کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباً چودہ لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔

امریکا جیسے جدید ترقی یافتہ ملک میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کورونا کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اسی طرح بھارت جیسے ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک میں بھی کورونا سے مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی اور دیگر یورپی ملکوں میں بھی کورونا کی دوسری لہر کے باعث ہلاکتوں کی تعداد کئی ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

پاکستان میں بھی کورونا کی دوسری لہر میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔ سرکاری پورٹل کے مطابق دو روز پیشتر 24 گھنٹوں کے دوران سامنے آنے والے کیسز تقریباً ساڑھے چار ماہ کے بعد ایک روز میں سب سے زیادہ تھے۔ یعنی 3009 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ اس سے قبل 9 جولائی کو ملک میں ایک روز کے دوران 3359 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کورونا سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 7,803 ہو چکی ہے جب کہ مجموعی کیسز 3 لاکھ 8 ہزار سے زائد ہو چکے ہیں۔ حکومت نے کورونا کی دوسری لہر میں امکانی شدت کے پیش نظر حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہوئے جلسے جلوس پر پابندی اور تمام مارکیٹیں، بازار اور تجارتی مراکز شام 6 بجے تک بند کرنے اور شادی بیاہ کی تقریبات کھلے ایریاز میں کرنے اور مہمانوں کی تعداد کو محدود کرنے سمیت اسکول، کالج، یونیورسٹیوں اور مدارس کو 26 نومبر سے 10 جنوری 2020 تک بند کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔

تمام امتحانات ملتوی اور تعلیمی سال کو اگست تک لے جانے کا فیصلہ کیا ہے، اگرچہ طلبا کی اکثریت تعلیمی اداروں کی بندش پر شاداں ہیں تاہم سنجیدہ والدین نے تعلیمی اداروں کو بند کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ جب صبح سے شام 6 بجے دیگر کاروبار زندگی معمول کے مطابق چل رہا ہے تو انھی اوقات میں تعلیمی اداروں کی بندش کا کیا جواز ہے۔ پہلے ہی طلبا کی پڑھائی کا کافی نقصان ہو چکا ہے۔ لہٰذا حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ من حیث القوم ہم لاپرواہ واقع ہوئے ہیں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بار بار یاددہانی کے باوجود عوام کی اکثریت احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا نہیں ہے۔ سماجی فاصلہ رکھنے اور ماسک پہننے پر آمادہ نہیں۔ ایک ہجوم بے کراں کی طرح صبح سے شام تک گلیوں، بازاروں اور سڑکوں میں عوام کا جمگھٹا لگا رہتا ہے، اگر عوام احتیاطی تدابیر پر اخلاص نیت سے عمل پیرا ہو جائیں تو کورونا کیسز کی تعداد میں اضافے کے بجائے بتدریج کمی آنے لگے گی۔

وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ کاروبار اور فیکٹریاں بند نہیں کریں گے کیونکہ کورونا سے بچاتے بچاتے وہ لوگوں کو بھوک سے نہیں مار سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا سے مقابلہ نہ کیا تو معاشی حالات بگڑ جائیں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کورونا کی پہلی لہر کے بعد ملک بھر میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے قومی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ مہنگائی، گرانی، بے روزگاری اور افلاس میں اضافہ ہوا۔ اگر دوبارہ سخت لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑا تو پھر معیشت کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔

خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بھی بڑھ جائے گی۔ کورونا کے پھیلاؤ سے بچنے کا واحد راستہ احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ کورونا جلسے جلوسوں سے زیادہ پھیل رہا ہے، اپوزیشن این آر او کے لیے جلسے کرکے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہی ہے۔

اگر کورونا بڑھا تو مکمل لاک ڈاؤن ہوگا ذمے دار پی ڈی ایم ہوگی اور کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔ ادھر اپوزیشن یہ الزام لگا رہی ہے کہ حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے اور پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے کورونا کا سہارا لے رہی ہے۔ اپوزیشن حکومتی دباؤ میں نہیں آئے گی۔

بغیر اجازت پشاور میں پی ڈی ایم کا جلسہ اور اب ملتان و لاہور میں جلسے کرنے کا اعلان اس امر کا عکاس ہے کہ حکومت اپوزیشن کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ صورت کی نزاکت اور کورونا لہر میں امکانی شدت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن بات چیت کے ذریعے درمیانی راستہ نکالیں پی ڈی ایم بڑے جلسوں سے اور حکومت اپوزیشن رہنماؤں و کارکنوں کی گرفتاری سے گریز کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں