میری رانی میری کہانی
ایک دن جنگل میں رانی اور صہبائی کی تنہائی میں طویل ملاقات ہوگئی اس دن دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے۔
NEW DELHI:
قدوس صہبائی اشتراکی نظریے کے حامل ایک بلند پایہ صحافی تھے، آپ1910 میں ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے، تعلیم کی ابتدا قرآنی تعلیم سے ہوئی، بچپن ہی میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا۔ جوانی کے ایام میں اشتراکی لہر کے ہمنوا بن گئے۔
24-25 برس کی عمر میں اخباروں اور جریدوں کی ایڈیٹری سنبھالی۔ انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی کی تحریک میں حصہ لیا انگریزوں کے خلاف اپنی شعلہ بار تقریروں کی وجہ سے کئی بار جیل گئے۔ جیل میں ہی کئی افسانوں کی کتابیں تصنیف کیں۔ اشتراکی نظریے کی ترویج اور تحریک آزادی کے سلسلے میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں گھومتے پھرتے رہے اس دوران کئی شہروں میں اخبارات اور جریدوں کی ایڈیٹری کے فرائض انجام دیے۔ ان اخباروں میں کلکتہ، دہلی، بجنور وغیرہ کے اخبارات شامل ہیں۔
ہفت روزہ نظام میں اس دورکے کئی ابھرتے ہوئے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات کو عوام الناس میں متعارف کرایا۔ ان میں احمد ندیم قاسمی، سجاد ظہیر، کیفی اعظمی، سردار جعفری اور مجروح سلطان پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ پاکستان آکر بھی کئی اخباروں اور جریدوں کے مدیر رہے۔ رنگین جوانی گزاری۔ دوست احباب کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ سعادت حسن منٹو بھی آپ کے دوستوں میں شامل تھے۔
آپ نے جوانی میں عشق تو بہت کیے۔ ایک ایسا عشق بھی کیا جس نے ان کی زندگی کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس عشق کی ابتدا 1930 میں ہوئی جب آپ 27-26 برس کے تھے۔ ویسے تو یہ ایک رومانوی داستان ہے مگر اس میں کئی ایسے موڑ آئے جو بڑے خوف ناک ہوسکتے تھے۔ ایک موقع پر اگر لوگ عقل سے کام نہ لیتے تو ہندو مسلم فسادات بھڑک سکتے تھے۔
یہ عشق کی داستان اگرچہ بہت پیچیدہ ہے مگر دلچسپ بھی ہے کہ عام سے مسلمان نوجوان کا ایک ہندو ریاست کی ہندو رانی کے درمیان کیسے عشق شروع ہوا اور پھر پروان چڑھنے کے بعد بے نتیجہ ثابت ہوا۔ جب اس عشق کا واقعہ آپ نے اپنے دوست سعادت حسن منٹو کو سنایا تو وہ اسے سن کر دنگ رہ گئے اور فوراً فرمائش کی کہ اسے پوری تفصیل کے ساتھ کتابی شکل میں منتقل کیا جانا ضروری ہے۔ آپ نے اس عشق کی داستان رقم کی اور ''میری رانی میری کہانی'' کے نام سے اب منظر عام پر آچکی ہے، اس کتاب کو آپ کے انتقال کے بعد آپ کے فرزند نامور صحافی شاہین صہبائی نے شایع کرایا ہے۔
یہ عشق کی داستان اس طرح شروع ہوئی کہ آپ کے ایک بھوپالی رشتے دار جو صاحب ثروت اور زمیندار تھے نے اپنی چھوٹی بیٹی سے آپ کا رشتہ استوارکرنا چاہا، اس سلسلے میں انھیں بھوپال طلب کرلیا۔ آپ بھوپال تو آگئے مگر شادی سے پہلے ٹائیفائیڈ کا شکار ہوگئے۔ جب کچھ طبیعت سنبھلی تو انھیں آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے چھتیس گڑھ ریاست بھیج دیا گیا۔ اس وقت چھتیس گڑھ میں ایک ہندو راجہ کی حکومت تھی۔ اس کی دو بیویاں تھیں، بدقسمتی سے اس نوجوان راجہ کا ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا، اس کی دوسری بیوی مہارانی وجے روپ حسین ترین خاتون تھی۔
ریاست کے لوگ اسے آسمانی حور کہتے تھے۔ اس کی شادی سے پہلے اردگرد کی ریاستوں کے کئی راج کمار اس سے شادی کرنے کے خواہاں تھے مگر وجے روپ کو چھتیس گڑھ کے راجہ پسند آئے اور ان سے اس کی شادی ہوگئی تھی۔ راجہ کی وفات کے بعد کئی ریاستوں کے راجاؤں نے اسے شادی کے پیغامات بھیجے مگر اس نے صاف انکار کردیا۔ مہارانی تعلیم یافتہ تھی وہ تین سال انگلستان میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کرکے ہندوستان لوٹی تھی۔ قدوس صہبائی ایک دفعہ اپنے رشتے دار جو اس ریاست کے دیوان تھے کے بنگلے میں بیٹھے تھے وہاں پہلی دفعہ انھیں مہارانی کی پہلی جھلک نظر آئی اور وہ اسے دل دے بیٹھے۔ آپ جنگلی جانوروں کے شکارکے شوقین تھے اور اتفاق سے مہارانی کو جنگلوں کی سیرکرنے کا شوق تھا۔
وہ اپنی گاڑی میں اکثر جنگلوں کی سیرکے لیے نکلتی اور قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوتی ایسے میں ایک دن قدوس صہبائی سے اس کی ملاقات ہوگئی۔ وہ ان کی شخصیت اور شکار کے شوق سے بہت متاثر ہوئی پھر وہ رانی جوکسی راجہ کو اپنے قریب نہیں آنے دیتی تھی وہ قدوس صہبائی کے قریب آنے لگی۔ رانی کے چاہنے والوں کی فہرست بہت طویل تھی حتیٰ کہ اس کے ریاستی افسر بھی اس سے شادی کے خواہاں تھے۔ قدوس صہبائی کے ایک مسلمان ہوکر رانی کے قریب ہونے کو وہ برداشت نہیں کر پا رہے تھے چنانچہ صہبائی کے شکارکرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ وہ دل برداشتہ ہوکر ریاست چھوڑ کر چلے گئے مگر رانی کا پیار ایسا دل میں سمایا تھا کہ واپس چھتیس گڑھ آگئے۔ جب رانی کو آپ پر شکار کھیلنے پر پابندی کا پتا چلا اس نے انھیں بطور خاص شکار کی اجازت دلوادی۔
ایک دن جنگل میں رانی اور صہبائی کی تنہائی میں طویل ملاقات ہوگئی اس دن دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ شادی کرنے کے راستے تلاش کرنے لگے ایسے میں صہبائی کی ریاست کے پولیس سربراہ سے سخت تکرار ہوگئی اور نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ اس کے بعد صہبائی کو ریاست چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا، صہبائی کلکتہ چلے آئے۔ ادھر رانی کی صہبائی کی جدائی میں حالت غیر ہوگئی اور وہ خودکشی کرنے کا سوچنے لگی۔ جب اس کے والد کو اپنی بیٹی کے عشق اور خودکشی کرنے کی کوشش کا پتا چلا وہ تڑپ اٹھا۔ وہ اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت محبت کرتا تھا مگر اپنے راجپوتی رسم و رواج اور خاندانی وقار سے سودا کرنے کو تیار نہیں تھا۔
اس نے بڑی چالاکی سے صہبائی کو خود سے رانی کو بدظن کرنے کے لیے تیار کرلیا۔ صہبائی نے اپنی صحافت کی کسمپرسی کی زندگی کو رانی کے سامنے رکھ کر اسے بدظن کرنا چاہا۔ رانی پھر بھی اس کے ساتھ رہنے پر بضد تھی مگر صہبائی نے اس کے باپ کے وقار اور ایک مسلمان سے اس کی بیٹی کی شادی ہونے پر اس کے ساتھ اس کے خاندان سے ہونے والے بائیکاٹ، ساتھ ہی رانی کے شاہی وقار کو بچانے اور اس کے ایک ریاست کی مہارانی بنے رہنے کو اپنے عشق پر قربان کردیا۔ یہ ایک ایثار و قربانی کی عجب داستان ہے۔ اس داستان کے کئی خوبصورت اور کئی خوف ناک موڑ ہیں جنھیں پڑھ کر قارئین بہت محظوظ ہوں گے۔