خواتین پرتشدد خاتمے کیلئے قوانین کوبہتربنانا ہوگا

حکومت، سول سوسائٹی، علماء، اساتذہ اور قانون ساز اداروں سمیت سب کو مل کر کام کرنا ہوگا


’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن ‘‘کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال

خواتین پرتشدد ایک عالمی مسئلہ ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔

اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے 25 نومبر کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا جس کے آغاز سے ہی ہر سال 16 روزہ آگاہی مہم بھی چلائی جاتی ہے تاکہ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے دنیا کو آگاہی دی جاسکے۔ پاکستان میں خواتین کے مسائل کیا ہیں اور حکومت و سول سوسائٹی اس حوالے سے کیا کر رہی ہے ؟ اس بارے میں جاننے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

کنیز فاطمہ چدھڑ
(چیئرپرسن پنجاب وویمن پروٹیکشن اتھارٹی )
خواتین پر تشدد اور ہراسمنٹ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کیلئے سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ بطور مسلمان ہمیں تو ساڑھے چودہ سو برس پہلے ہی اپنے حقوق مل گئے تھے مگر چونکہ اس خطے میں ہم نے ہندوئوں کے ساتھ بہت وقت گزارا ہے جس کی وجہ سے ہمارا معاشرتی نظام تبدیل ہوگیا۔

ہمیں وراثت کا حق دین اسلام نے دیا مگر آج صورتحال یہ ہے کہ 4 بیٹوں کو تو وراثت میں حق دے دیا جاتا ہے مگر ایک بیٹی کو نہیں دیا جاتا ، بھائی بھی بہن کو حصہ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے جو افسوسناک ہے۔ تعلیمی اداروں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں، سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں، جہاں خواتین کے ساتھ مرد کام کرتے ہیں، انہیں ہراسگی کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے گھر سے نکلنے والی خاتون کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ ملازمت کرنے والی خاتون کی کیا مجبوریاں ہیں، اس کا بھی خاندان ہے اور یہ ہماری ماں، بہن بیوی کی طرح ہے۔

 

افسوس ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، ملازمت سے نکالے جانے کا خوف دلا کر انہیں ہراساں کیا جاتا ہے اور مختلف ڈیمانڈز کی جاتی ہیں۔ جب میں نے عہدہ سنبھالا تو میرے پاس چند کیسز ایسے آئے جن میں بااثر شخصیات اور بڑے خاندان ملوث تھے، انہوں نے مجھے بطور چیئرپرسن ہراساں کرنے اور دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ اگر ایک بااختیار خاتون کے ساتھ یہ ہوسکتا ہے تو عام عورت کا حال کیا ہوگا۔ وہ کس طرح سے ان طاقتور لوگوں کے خلاف کھڑی ہوسکتی ہے۔

70 برس پرانے قوانین یہاں لاگو ہیں جبکہ جو نئے قوانین بنائے گئے ہیں ان میں بھی سقم موجود ہیں۔ 2016ء کے خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے سے اچھی قانون سازی ہوئی مگر اس میں بھی بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے لہٰذا خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے ہمیں قوانین میں موجود سقم کو دور کرنا ہوگا۔ 2017ء میں پنجاب وویمن پروٹیکشن اتھارٹی بنائی گئی اور حیران کن بات یہ تھی کہ خواتین کے لیے بننے والی اتھارٹی کا سربراہ مرد تھا۔

اس قانون کے تحت صرف ملتان میں وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹر بنایا گیا جبکہ پنجاب کے تمام اضلاع میں ابھی تک کوئی سینٹر نہیں بنایا جاسکتا۔ہم خواتین کے مسائل کو دیکھتے ہوئے لاہور اور روالپنڈی میں دو نئے سینٹرز بنا رہے ہیں، لاہور میں سینٹر کا افتتاح جلد کر دیا جائے گا جبکہ 2021ء میں روالپنڈی میں بھی سینٹر کام کا آغاز کر دے گا۔ گزشتہ حکومت نے ملتان میں مہنگا ترین وویمن سینٹر بنایا جو یہ ایشیامیں اپنی نوعیت کا واحد سینٹر ہے ۔ میرے نزدیک اگرکم بجٹ سے خواتین کو تمام اضلاع میں یہ سہولت دی جاتی تو بہتر ہوتا۔

پنجاب کے 36 اضلاع میں پہلے سے موجود دارالامان کو ہی اس طرز پر اپ گریڈ کر دیا جاتا تو زیادہ فائدہ ہوتا،ہم اس حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وویمن ہیلپ لائن بھی قائم کی جارہی ہے جس کے ذریعے خواتین کی مدد اور رہنمائی کی جائے گی۔ خواتین کے حوالے سے ہماری سوچ اور رویوں میں مسائل ہیں۔ اس کی بہتری کیلئے ہمیں تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں لانا ہوںگی۔

خواتین کے بارے میں موجود قوانین کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ مدارس سے بھی خواتین کی عزت، مقام اور حقوق کی بات کرنا ہوگی۔ یہ حقوق کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ یہ وہ حقوق ہیں جو دین اسلام نے ساڑھے چودہ سو برس پہلے دے دیے لہٰذا مساجد سے ان کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دی جائے۔ خواتین کے حوالے سے مسائل سنگین ہیں جنہیں حل کرنا کسی ایک نہیں بلکہ سب کی ذمہ داری ہے لہٰذا حکومت، سول سوسائٹی، اساتذہ، علماء، تعلیمی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروںسمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس کیلئے ہم نے ایک ایڈوائزری بورڈ بنایا ہے جس میں مختلف مکاتب فکر اور شعبوں کے افراد کو شامل کر رہے ہیں۔

تاکہ مل بیٹھ کر ایک لائحہ عمل طے کیا جائے اور اس پر موثر انداز میں کام کیا جائے۔ ہمارے ہاں سزا و جزا کا نظام درست نہیں جس کے باعث مجرمان سزا سے بچ جاتے ہیں، خواتین پر تشدد کے حوالے سے ہم ریاست کو مدعی بنانے کا قانون لارہے ہیں جس کے بعد کوئی بھی مجرم کسی پر دبائو ڈال کر سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ قوانین پر عملدرآمد اور تفتیش کے نظام میں مسائل ہیں، انہیں حل کرنا ہوگا، اس حوالے سے نظام عدل اور پولیس میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے ہم بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانے جارہے ہیں، تعلیمی اداروں میں بھی لڑکے، لڑکیوں کو آگاہی دی جارہی ہے تاکہ معاملات کو بہتر بنایا جاسکے۔

پروفیسر ڈاکٹر راعنا ملک
(سربراہ جینڈر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ، پنجاب یونیورسٹی )
ہمارے ملک میں تعلیمی نصاب کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غربت اور وسائل کی کمی کے باعث طلبہ نصاب کے علاوہ دیگر کتب کا مطالعہ نہیں کر پاتے لہٰذا ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کو بہتر اور جامع بنانا ہوگا۔ خواتین کے حوالے سے تعلیمی نصاب میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ ہم نے حال ہی میں تعلیمی نصاب پر تحقیق کی جس میں ملک بھر کی ٹیکسٹ بکس کا جائزہ لیا اور بورڈز کے چیئرمین و دیگرعملے سے بات چیت بھی کی۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ جنسی حساسیت نہیں ہے۔

ہمارے مصنفین کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کس طرح صنفی برابری قائم کی جاسکتی ہے۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ اس اہم بنیادی معاملے پر توجہ نہیں دی گئی لہٰذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ ٹیکسٹ بک بورڈز کے عملے اور مصنفین کو اس بارے میں تربیت و آگاہی دینی چاہیے۔ خواتین پر تشدد ایک دن کا معاملہ نہیں اور نہ ہی یہ ایک دن میں ختم ہوسکتا ہے۔

اس کے لیے جامع حکمت عملی بنا کر کام کرنا ہوگا۔ یونیورسٹی کے طلبہ کا دماغ پختہ ہوتا ہے، ان کے ساتھ مکالمہ کرنا پڑتا ہے جبکہ سکول کے طلباء کا ذہن صاف ہوتا ہے، اس کی جس طرح سے نشونما کریں گے وہ ویسا ہی بن جائے گا لہٰذا میرے نزدیک تعلیمی نصاب میں خواتین کی عزت، حقوق اور قوانین کے بارے میں مضامین شامل کرکے سکول کی سطح سے ہی بچوں کی ذہن سازی اور کردار سازی کی جائے۔ ہم نے حال ہی میں ایک اور تحقیق کی ہے کہ خواتین کو بسوں، پارک و دیگر مقامات پر کس طرح ہراساں کیا جاتا ہے۔

ہم نے یہ تحقیق ملک کے مختلف شہروں میں تین مختلف اوقات صبح، دوپہر اور شام میں کی جس سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں 90 فیصد سے زائد خواتین کسی نہ کسی شکل میں ہراسمنٹ کا شکار ہیں اور اس میں عمر یا وقت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ادھیڑ عمر کی خاتون سے لے کر چھوٹی بچی تک، سب ہی ہراساں ہورہی ہیں۔ یہاں تک کہ گروہ کی صورت میں اور خاندان کے ساتھ سفر کرنے والی خواتین کو بھی ہراسمنٹ کا سامنا ہے جبکہ کام کی جگہ کے مسائل الگ ہیں۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور کوئٹہ جیسے بڑے شہروں میں بھی خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے جبکہ چھوٹے شہروں کی صورتحال ان سے بھی خطرناک ہے۔ ہراسمنٹ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے خواتین کی نقل و حرکت متاثر ہوتی ہے اور خواتین اس کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکلتی یا والدین عزت کے ڈر کی وجہ سے لڑکیوں کو گھر بٹھا لیتے ہیں۔

یہ مسئلہ جتنا سنگین ہوچکا ہے اس سے دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ صرف خواتین پر کام کرنے سے اس پر قابو نہیں پایا جاسکے گا بلکہ اس کے لیے مردوں کو بھی شامل کرنا ہوگا اور ان کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔ میرے نزدیک اب ہمیں men engagement movement چلانا ہوگی جس میں ہمیں ہر سطح پر اور ہر کردار میں مردوں سے بات کرنا ہوگی۔

یونیورسٹی میں ہمارے شعبہ میں طلباء و طالبات دونوں زیر تعلیم ہیں۔ ہم اپنے شعبے میں لڑکوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں کیونکہ ہمیں ان کی سوچ بدلنی ہے اور میرے نزدیک یہ ''ایجنٹس آف چینج'' ہیں جو معاشرے میں تبدیلی لائیں گے۔ ہمارے یہ طالب علم ہمیں فیڈ بیک دیتے ہیں کہ انہیں سمجھانے اور آگاہی دینے سے ان کے گھر میں کافی بہتری آئی ہے اور ایسی باتیں جو وہ معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے تھے یا ان کے بارے میں نہیں سوچتے تھے، اب انہوں نے ان پر نہ صرف توجہ دینی شروع کی ہے بلکہ اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لا رہے ہیں۔ ماں کی گود پہلی درسگاہ ہوتی ہے لہٰذا مائوں کو اپنے بچوں کو خواتین کے حوالے سے تربیت دینا ہوگی۔ انہیں لڑکے، لڑکی میں تفریق کو ختم کرنا ہوگا اور دونوں کی برابر تربیت کرنا ہوگی۔

اس کے علاوہ میڈیا، ڈرامہ و دیگر ذرائع ابلاغ سے بھی برابری اور خواتین کی عزت کا پیغام جانا چاہیے۔ بے شمار مرد خواتین کی عزت کرتے ہیں اور ان کے حقوق و تحفظ کیلئے کام بھی کر رہے ہیں، ہمیں ان رول ماڈل مردوں کو ہائی لائٹ کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے حکومت نے خواتین کیلئے جو ہیلپ لائن و دیگر اقدامات کیے ہیں،ا ن کے بارے میں عوام میں آگاہی نہیں ہے۔ خواتین کے لیے بنائے گئے قوانین و دیگر اقدامات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے اعتماد میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ ہراسمنٹ و دیگر مسائل کو رپورٹ کر سکیں اور انہیں بروقت انصاف مل سکے۔

احمر مجید ایڈووکیٹ
(ماہر قانون )
یہ عمومی رائے کہ یہاں بہت زیادہ قانون سازی ہوچکی ہے مگر جب اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے۔ بچوں اور خواتین کے حوالے سے قانون سازی کی بات کریں تو ان کے بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کے لیے کوئی قانون موجود نہیں اورجو قوانین ہیں ان پر بھی صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہوتا۔بچوں کے حوالے سے جسمانی سزا کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ کیسوں کی رجسٹریشن اور مجرمان کو سزا ملنے کی شرح انتہائی کم ہے۔زیادتی کے واقعات کی بات کریں تو اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ مجرموں کو سزا ملنے کی شرح ساڑھے تین سے 4 فیصد ہے۔ 100 میں سے تقریباََ10 کیس میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں جن میں سے 4 سے 5 کیسز کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور صرف 4 کے قریب مجرموں کو سزا ملتی ہے جو انتہائی کم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور مجرم یہ سمجھتا ہے کہ وہ سزا سے با آسانی بچ جائے گا۔ اگر صحیح معنوں میں ان مسائل کا خاتمہ کرنا ہے تو قوانین پرسختی سے عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ لڑکی کے ساتھ زیادتی کی سزا، عمر قید اور سزائے موت ہے جبکہ بچوں کے ساتھ زیادتی کا قانون ہی نہیں ہے۔اگر بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو اسے سوڈومی تصور کیا جاتا ہے اور اسی کے حساب سے ہی سزا ملتی ہے۔ زیادتی کے حوالے سے نیاقانون ایک اچھی کوشش ہے مگر اس میں وکلاء کمیونٹی اورسول سوسائٹی سے مشاورت نہیں کی گئی لہٰذا جب تک یہ قانون سامنے نہیں آتا تب تک کچھ بھی کہنا ممکن نہیں ہوگا۔خواتین کے ساتھ تشدد کی مختلف اشکال ہیں جن کے لیے قانون بھی الگ الگ ہے۔

کام کی جگہ پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے قانون موجود ہ ہے۔ ہراسمنٹ کی صورت میں خاتون محتسب سے رجوع کیا جاسکتا ہے یا پھر اپنے ہی ادارے میں شکایت کی جاسکتی ہے۔ ادارے میں دادرسی مشکل ہے کیونکہ ہر ادارہ اپنی ساکھ کو دیکھے گا اور معاملے کو دبانے کی کوشش کرے گا، ایسی صورت میں انصاف ملنے کی توقع انتہائی کم ہے۔

2012ء کے قانون کے تحت ہر سرکاری و نجی ادارے میں ہراسمنٹ کمیٹی ہونی چاہیے جس میں کم از کم ایک خاتون رکن لازمی ہے مگر اداروں میں نہ تو ہراسمنٹ کمیٹیاں موجود ہیں اور نہ ہی انہیں اس حوالے سے آگاہی ہے۔ لہذا اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ خاتون محتسب لاہور میں ہیں، اگر کسی دوسرے شہر یا علاقے میں کوئی خاتون ہراساں ہوتی ہے تو اس کے لیے لاہور آکر شکایت درج کرانا انتہائی مشکل ہوگا اور اگر وہ کوئی وکیل کرتی ہے تواس کا خرچ برداشت کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ پنجاب میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے بنایا جانے والا قانون اچھا ہے اور اس کے تحت ملتان میں ایک سینٹر بھی قائم کیا گیا۔

تاہم اس قانون میں بھی کچھ مسائل ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔ اگر لاہور میں کسی خاتون پرتشدد ہوتا ہے تو وہ اس قانون کے تحت تحفظ نہیں لے سکتی کیونکہ یہ قانون صرف ملتان کی حد تک ہے اور یہ نوٹفکیشن میں درج ہے کہ جس ضلع میں وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹر ہوگا، وہاں ہی اس قانون کے تحت مدد لی جاسکے گی۔

2016ء میں جب یہ قانون بنا تو بہت واویلا مچا کہ مردوں کو کڑے پہنا دیے جائیں گے مگرحقیقت یہ ہے کہ گھریلو تشدد کی صورت میں بھی ملتان کے علاوہ کسی دوسرے ضلع کی خاتون عدالت جاکر اس قانون سے مستفید نہیں ہوسکتی۔ صرف ملتان کا ہی جائزہ لیں تو اگر وہاں کے کسی دور دراز علاقے میں خاتون پر تشدد ہوتا ہے تو وہ کس طرح ملتان جاکر رپورٹ کرے گی لہٰذا خواتین کے تحفظ کیلئے تمام اضلاع میں پروٹیکشن یونٹس بنائے جائیں۔کم عمری کی شادی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

پنجاب میں اب بھی شادی کیلئے لڑکے کی کم از کم عمر 18 اور لڑکی کی16 برس ہے۔ یہ امتیاز ہے اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب میں اس کی سزا50 ہزار روپے جرمانہ اور 6 ماہ قید ہے جو بہت کم ہے اور ابھی تک یہ سزا کسی کو بھی نہیں ہوئی۔ اس کی رپورٹنگ کا میکانزم بہت پرانا ہے جس کی وجہ سے مسائل ویسے ہی ہیں۔ سندھ نے اس قانون کو بہتر کیا ہے، سزا بھی بڑھائی ہے اور اب پولیس موقع پر جاکر شادی بھی رکوا سکتی ہے جبکہ پنجاب میں ایسا نہیں ہے۔ خواتین پر گھریلو تشدد کا قانون سول ہے، اسے کریمنل بنایا جائے اور مجرم کو سزا دی جائے۔ میرے نزدیک موجودہ نظام میں سٹرکچرل ریفارمز لائی جائیں، نظام انصاف کو تیز کیا جائے اور تفتیش کا نظام بھی بہتر بنایا جائے۔

حمائل انجم
(نمائندہ سول سوسائٹی)
سول سوسائٹی کا بنیادی مطالبہ قوانین پر عملدرآمد ہے۔ ہمارے ہاں قوانین تو بن جاتے ہیں مگر نہ تو لوگوں کو آگاہی ہوتی ہے اور نہ ہی ان پر عملدرآمد کیا جاتا ہے جس سے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔جب تک خواتین کو ان قوانین کے بارے میں معلوم نہیں ہوگا تو وہ کیس کس طرح کریں گی؟ وہ کس طرح اس سے استفادہ کریں گی؟کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے حوالے سے 2010ء میں قانون بنا مگر آج بھی خواتین کو اس کا علم نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ایسا میکانزم بنائے کہ ملازمت پیشہ ہر خاتون کو اس کے بارے میں آگای دی جائے اور ساتھ ساتھ مردوں کو بھی بتایا جائے کہ ہراساں کرنے پر ان کے خلاف کارروائی ہوگی اور سزا دی جائے گی۔ جب عورت کو تحفظ کا احساس ہوگا تو اس کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

گزشتہ دو برسوں سے پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی کوئی چیئرپرسن نہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں کس طرح کام ہوسکتا ہے۔ وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹرز کا ماڈل بہترین ہے، ملتان میں یہ سینٹر موجود ہے مگر اس کے بعد کسی ضلع میں یہ نہیں بنایا جاسکا، ایک ہی چھت تلے خواتین کو انصاف دینے سے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی لہٰذا ان کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ خواتین سے متعلق قوانین کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ اس کے ساتھ اساتذہ کو بھی تربیت دی جائے تاکہ وہ طلبہ و طالبات کو ان قوانین کے بارے میں درست آگاہی دے سکیں۔

تعلیمی اداروں میں خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے حقوق کے حوالے سے آگہی سیمینار منعقد کیے جائیں۔ سوشل میڈیا انتہائی اہم ٹول ہے، اس کے ذریعے وسیع پیمانے پر لوگوں کو آگاہی دینے سے خواتین کے مسائل میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خواتین پر تشدد کا خاتمہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں اور قانون ساز اداروں سمیت سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |