فکر کے چراغ جو گل ہوئے

اہل علم وادب اور سیاسی شخصیت کا اس دار فانی سے کوچ کرجانا، قوم کے لیے کسی بھی سانحے سے کم نہیں ہے۔


Editorial December 01, 2020
اہل علم وادب اور سیاسی شخصیت کا اس دار فانی سے کوچ کرجانا، قوم کے لیے کسی بھی سانحے سے کم نہیں ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اہل علم وادب اور سیاسی شخصیت کا اس دار فانی سے کوچ کرجانا، قوم کے لیے کسی بھی سانحے سے کم نہیں ہے،کیونکہ ان کا نعم البدل ہمارے پاس موجود نہیں۔

پنجاب سے ممتاز پارلیمنٹیرین صاحبزادہ فاروق علی خان اورسندھ کے ممتازماہرتعلیم ڈاکٹرغلام علی الانہ کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کسی بھی طور پُر نہیں ہوسکتا۔ صاحبزادہ فاروق علی خان 1970کے انتخابات میں ملتان سے ذوالفقارعلی بھٹوکی خالی کردہ نشست سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ 1973کا آئین بھی انھی کی اسپیکرشپ کے دورمیں منظور ہوا تھا۔

5 ستمبر1931کوگکھڑ منڈی میں پیدا ہوئے، 9 اگست 1973 کو قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے اور 27 مارچ 1977 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ صاحبزادہ فاروق علی خان کی خود نوشت سوانح ''جمہوریت صبر طلب ''کے نام سے اشاعت پذیرہوکر قبولیت کی سند حاصل کرچکی ہے،انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر عرصہ ملتان میں گزارا، وہ سینئر قانون دان اور آئینی ماہر تھے۔ سندھ علم کی سربلندی اور فروغ کے لیے شہرت رکھتا ہے، سندھ دھرتی میں علم کے میدان میں نامی گرامی ہستیوں نے جنم لیا ہے ، ان میں ایک ممتاز نام ڈاکٹرغلام علی الانہ کا بھی ہے۔

مرحوم ممتاز ماہر تعلیم اور سندھ یونیورسٹی جامشورو کے سابق وائس چانسلر تھے۔ ڈاکٹر غلام علی الانہ 15مارچ 1930کو ضلع ٹھٹھہ کی تحصیل جاتی کے گائوں تارخواجہ میں پیدا ہوئے اور مختلف تعلیمی اور ادبی اداروں سے طویل عرصہ تک منسلک رہے، سندھی زبان کی اعلیٰ سطح پر ترویج کے لیے انھوں نے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔

وہ کئی علمی ادبی کتب کے مصنف تھے، ڈاکٹر غلام علی الانہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر، انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کے سربراہ اور سندھی لینگوئج اتھارٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ یقیناً قوم کو مرحومین کی قابل قدر خدمات پر فخر ہے اور ان شخصیات کے احسانات کو نہیں بھولے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں