چہرے سے کون چور ہے پہچان جائیے
کہتے ہیں ملک میں امن نہیں، چین نہیں، روزگار نہیں، جرائم ہیں، کرپشن سے چھینا جھپٹی ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔
WASHINGTON:
سب سے بڑا زوج تو انس وجن ،آدم وابلیس اورخیروشر کا تھا جو مکمل طورپر ٹوٹ چکاہے کیوں کہ آدم کے بیٹوں نے تنگ آکر جب اپنی ماں کی آغوش میں پناہ لے کر زراعت شروع کی تو جن اورابلیس بھی اس کے پیچھے پیچھے آکر صحرائی خانہ بدوش بنے، پھر اس نے جہاں جہاں آدم کے خاکی بیٹوں کو ماں کی آغوش میں خوشحال دیکھا تو لٹیرے کے روپ میں آکراسے لوٹنے لگا، پھر اس کے ابلیسی دماغ میں خیال آیا کہ اس طرح لوٹ کرچلے جانا زیادہ فائدہ مند نہیں ہے اس لیے کیوں نہ اس کے سر پر مستقل بیٹھا جائے اورگائے کو ذبح کرکے کھانے کے بجائے دوہ کر فائدہ اٹھایا جائے۔
آگ تو اس کے پاس تھی ،آگ کے ذریعے بنائے گئے ہتھیار بھی تھے، ظالمانہ اورابلیسانہ مزاج بھی تھا اوربے پناہ تیزذہن بھی چنانچہ اس نے لٹیرے سے حکم ران اورمحافظ کا لباس پہن لیا،اورمادی ہتھیاروںکے ساتھ ساتھ کچھ اور ہتھیاربھی ایجاد کرلیے۔
قوم ،ملک، وطن ،نسل، قانون،آئین اوردستور وغیرہ اورآرام سے گائے کو دوہ دوہ کر فائدہ اٹھانے لگا۔ پھر ایک مرحلے پر اسے لگا کہ گائے کچھ ہشیارہوگئی ہے، دودھ دینے میں بخل سے کام لے رہی ہے یا سینگ لات بھی مارتی ہے اورصرف ڈنڈے یا لاٹھی سے رام نہیں ہوتی تو اس نے اپنا ایک اورساجھے دار تلاش کر لیا،جھاڑ پھونک اوردم منتر سے گائے کو رام کرنے والا... اور پھر یہ ساجھے داری جم گئی ،یوں اس نے حکمران کو دیوتا،دیوتا زادہ ،خدا کاسایہ اور آسمان کانمایندہ بنایا۔
جواب میں حکم ران نے اسے دین وایمان کے نام پر لوٹنے کافری ہینڈ دے دیا۔ اس طرح وہ ''عجوبہ'' ظہور میں آیا جسے اگر صحیح نام سے پکاراجائے توابلیسہ،مفت خور اور ارذالیہ بنتاہے لیکن اس نے اپنا نام اشرافیہ، حکمرانیہ اورمحافظ رکھ لیا جو حساب کی روسے تو پندرہ فی صد ہوتاہے لیکن کھانے کے حساب سے پچاسی فی صد کھاتاہے اوروہ جو پچاسی فی صد زمین کے بیٹے یاخاک زادے ہیں اورسب کچھ کماتے ہیں ان کو صرف پندرہ فی صد پر ٹرخانا شروع کیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو کچھ نہیں کرتے ان کے ہاں ڈیر لگے ہوئے ہیں ان کے پیٹ ان کے گھر اور ان کی جیبیں بھری ہوئی ہیں اورجویہ سب کچھ کماتے ہیں، پیدا کرتے، اگاتے ہیں، بناتے ہیں ان کے گھراورجیبیں تو کیاپیٹ بھی خالی ہیں اوروجہ وہی زوج کا ٹوٹنا اورمنفی مثبت کاتوازن بگڑناہی ہے۔
بنیاد جو کچھ بھی رہی ہو ابتدا اور پیدائش کیسے بھی ہوئی ہو لیکن اب بہرحال حکومت اوررعایا یا اشرافیہ اورعوامیہ کا ایک زوج بن چکاہے اور اصولوں کے مطابق اس زوج کی بگاڑ بھی تباہی وبربادی لائے گی اور یہ ہم جو معاشرے اورنظام میں بگاڑہی بگاڑ ،تباہی ہی تباہی اورظلم ہی ظلم دیکھ رہے ہیں یہ اسی بنیادی اورہمہ گیر زوج کی بگاڑ کا نتیجہ ہے۔
یہ تشدد جنگ وجدل ،استحصال جرائم، بے راہ رویاں، بے انصافیاں اورانسانیت کاماتم اسی زوج کے ٹوٹنے یا ایک رکن کا دوسرے رکن پر غلبہ پانا ہے ،سیدھی سی دواوردو چاروالی بات ہے کہ ہرزوج میں ہررکن کااپنا اپنا کردار اورحصہ ہوتاہے اوراگر دونوں ہی اپنا کردار صحیح ادا کریں گے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔
دونوں جوتے صحیح صحیح پیروں میں ہوں، گاڑی اورگھوڑا اپنی اپنی جگہ اپنا کام کررہے ہوں ،دونوں ٹائر یا پہیے یکساں ہوں،ریل کی پٹڑیاں صحیح اوردرست ہوں تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا لیکن اگر توازن بگڑجائے تو ٹیڑھا پن لازمی ہے ،ترازو کے پلڑوں کا اوپر نیچے ہونا یقینی ہے۔
اب اس تناظر میں اس زوج کے اراکین یامنفی مثبت پر نظر ڈالیے،حکومت اوررعایا کے درمیان باقاعدہ ایک معاہدہ ہوچکاہے کہ حکومت اور رعایا دونوں کے برابر حقوق بھی ہیں اورفرائض بھی اوردونوں کو اپنے اپنے فرائض بھی ادا کرنا ہیں اورحقوق حاصل کرنا بھی ،سادہ سی لین اوردین والی بات تم دوگے تودوسرا بھی دے تم لوگے تو دوسرے کو بھی دوگے۔
یوں کہیے کہ ایک ''حق''دوسرے کا ''فرض'' ہوجاتاہے ۔
ٹیکس لینا حکومت کاحق ہے اوررعایا کا فرض۔اس کے بدلے عوام کی ضروریات پوری کرناحکومت کافرض ہے اوررعایا کاحق اوراگر دونوں اس پر کاربند رہیں گے تو کوئی بگاڑ پیدا نہ ہوگا اورایک بہترین معاشرہ اورنظام وجود میں آئے گا اورمسلسل چلتا رہے گا اوردونوں فریق آرام سے رہیں گے نہ صرف یہ بلکہ اس نظام کے اندر جوباقی بے شمار ازواج یاجوڑے ہیں وہ بھی عدم توازن کاشکارنہیںہوںگے جیسے جرم اور قانون کازوج،ڈاکٹر اورمریض کاجوڑ، افسرو ماتحت کا جوڑ، شاگرد اوراستاد کاجوڑ،حکومتی اداروں اور عوام کا جوڑ اورسب سے اہم ترین جوڑ ''نرومادہ''کا جس پر روشنی ڈالی جاچکی ہے ۔
جن ممالک میں حکومت اورعوام کا جوڑ صحیح اندازمیں چل رہاہے وہاں انسان ہرطرح سے عافیت اورچین میں ہے لیکن جن ممالک میں حکمران اشرافیہ اورمحکوم عوامیہ کا جوڑ بگڑ چکاہے وہاں جرائم، تشدد، منشیات ، بے راہ روں اور بدعنوانیوں کا حشر برپا ہے اوران میں سے ایک ہمارا ملک بھی ہے۔
یہاں حکومت اپنے ''حقوق''تو بڑھ چڑھ کر بلکہ حد سے متجاوزہوکر لیتی ہے یاچھینتی ہے لیکن بدلے میں عوامیہ کا حق اوراپنا فرض ایک بھی ادا نہیں کرتی ہے اوربے شمار ٹیکسوں جائزوناجائز وصولیوں کے بدلے عوام کے جو حقوق اورحکمرانیہ کے فرائض ہیں وہ بہت ہی مختصرہیں، جو ایک لفظ ''حفاظت''کی مختلف صورتیں ہیں کہ حکمرانیہ کی ابتداہی اس منصب محافظ سے ہوئی تھی ان میں جان ومال کی حفاظت،صحت کی حفاظت ،ذہن کی حفاظت یعنی تعلیم اورنان ونفقہ کی حفاظت یعنی روزگار شامل ہیں لیکن چاروں اطراف چپے چپے، کونے کونے اورقدم قدم پر نظر ڈالیے، حکومت ان میں سے کوئی بھی فرض اداکررہی ہے؟
ادا کرنے کا دکھاؤا ہورہاہے، وہ مزید ان حقوق کو لوٹنے کا ذریعہ ہیں، بظاہر ان اغراض کے لیے بہت سارے محکمے اورادارے قائم نظر آتے ہیں لیکن وہاں ہوتاکیاہے، عوامیہ کو مزید نوچنے اور کھسوٹنے کاکام۔
کہتے ہیں ملک میں امن نہیں، چین نہیں، روزگار نہیں، جرائم ہیں، کرپشن سے چھینا جھپٹی ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔
تو ایسے لنگڑے نظام میں کچھ ہوبھی کیسے سکتاہے؟ اورسب کچھ کاذمے دار وہ ''مہاچور'' ہے جسے سب جانتے ہیں کیوں کہ پبلک سب جانتی ہے۔
سب سے بڑا زوج تو انس وجن ،آدم وابلیس اورخیروشر کا تھا جو مکمل طورپر ٹوٹ چکاہے کیوں کہ آدم کے بیٹوں نے تنگ آکر جب اپنی ماں کی آغوش میں پناہ لے کر زراعت شروع کی تو جن اورابلیس بھی اس کے پیچھے پیچھے آکر صحرائی خانہ بدوش بنے، پھر اس نے جہاں جہاں آدم کے خاکی بیٹوں کو ماں کی آغوش میں خوشحال دیکھا تو لٹیرے کے روپ میں آکراسے لوٹنے لگا، پھر اس کے ابلیسی دماغ میں خیال آیا کہ اس طرح لوٹ کرچلے جانا زیادہ فائدہ مند نہیں ہے اس لیے کیوں نہ اس کے سر پر مستقل بیٹھا جائے اورگائے کو ذبح کرکے کھانے کے بجائے دوہ کر فائدہ اٹھایا جائے۔
آگ تو اس کے پاس تھی ،آگ کے ذریعے بنائے گئے ہتھیار بھی تھے، ظالمانہ اورابلیسانہ مزاج بھی تھا اوربے پناہ تیزذہن بھی چنانچہ اس نے لٹیرے سے حکم ران اورمحافظ کا لباس پہن لیا،اورمادی ہتھیاروںکے ساتھ ساتھ کچھ اور ہتھیاربھی ایجاد کرلیے۔
قوم ،ملک، وطن ،نسل، قانون،آئین اوردستور وغیرہ اورآرام سے گائے کو دوہ دوہ کر فائدہ اٹھانے لگا۔ پھر ایک مرحلے پر اسے لگا کہ گائے کچھ ہشیارہوگئی ہے، دودھ دینے میں بخل سے کام لے رہی ہے یا سینگ لات بھی مارتی ہے اورصرف ڈنڈے یا لاٹھی سے رام نہیں ہوتی تو اس نے اپنا ایک اورساجھے دار تلاش کر لیا،جھاڑ پھونک اوردم منتر سے گائے کو رام کرنے والا... اور پھر یہ ساجھے داری جم گئی ،یوں اس نے حکمران کو دیوتا،دیوتا زادہ ،خدا کاسایہ اور آسمان کانمایندہ بنایا۔
جواب میں حکم ران نے اسے دین وایمان کے نام پر لوٹنے کافری ہینڈ دے دیا۔ اس طرح وہ ''عجوبہ'' ظہور میں آیا جسے اگر صحیح نام سے پکاراجائے توابلیسہ،مفت خور اور ارذالیہ بنتاہے لیکن اس نے اپنا نام اشرافیہ، حکمرانیہ اورمحافظ رکھ لیا جو حساب کی روسے تو پندرہ فی صد ہوتاہے لیکن کھانے کے حساب سے پچاسی فی صد کھاتاہے اوروہ جو پچاسی فی صد زمین کے بیٹے یاخاک زادے ہیں اورسب کچھ کماتے ہیں ان کو صرف پندرہ فی صد پر ٹرخانا شروع کیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو کچھ نہیں کرتے ان کے ہاں ڈیر لگے ہوئے ہیں ان کے پیٹ ان کے گھر اور ان کی جیبیں بھری ہوئی ہیں اورجویہ سب کچھ کماتے ہیں، پیدا کرتے، اگاتے ہیں، بناتے ہیں ان کے گھراورجیبیں تو کیاپیٹ بھی خالی ہیں اوروجہ وہی زوج کا ٹوٹنا اورمنفی مثبت کاتوازن بگڑناہی ہے۔
بنیاد جو کچھ بھی رہی ہو ابتدا اور پیدائش کیسے بھی ہوئی ہو لیکن اب بہرحال حکومت اوررعایا یا اشرافیہ اورعوامیہ کا ایک زوج بن چکاہے اور اصولوں کے مطابق اس زوج کی بگاڑ بھی تباہی وبربادی لائے گی اور یہ ہم جو معاشرے اورنظام میں بگاڑہی بگاڑ ،تباہی ہی تباہی اورظلم ہی ظلم دیکھ رہے ہیں یہ اسی بنیادی اورہمہ گیر زوج کی بگاڑ کا نتیجہ ہے۔
یہ تشدد جنگ وجدل ،استحصال جرائم، بے راہ رویاں، بے انصافیاں اورانسانیت کاماتم اسی زوج کے ٹوٹنے یا ایک رکن کا دوسرے رکن پر غلبہ پانا ہے ،سیدھی سی دواوردو چاروالی بات ہے کہ ہرزوج میں ہررکن کااپنا اپنا کردار اورحصہ ہوتاہے اوراگر دونوں ہی اپنا کردار صحیح ادا کریں گے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔
دونوں جوتے صحیح صحیح پیروں میں ہوں، گاڑی اورگھوڑا اپنی اپنی جگہ اپنا کام کررہے ہوں ،دونوں ٹائر یا پہیے یکساں ہوں،ریل کی پٹڑیاں صحیح اوردرست ہوں تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا لیکن اگر توازن بگڑجائے تو ٹیڑھا پن لازمی ہے ،ترازو کے پلڑوں کا اوپر نیچے ہونا یقینی ہے۔
اب اس تناظر میں اس زوج کے اراکین یامنفی مثبت پر نظر ڈالیے،حکومت اوررعایا کے درمیان باقاعدہ ایک معاہدہ ہوچکاہے کہ حکومت اور رعایا دونوں کے برابر حقوق بھی ہیں اورفرائض بھی اوردونوں کو اپنے اپنے فرائض بھی ادا کرنا ہیں اورحقوق حاصل کرنا بھی ،سادہ سی لین اوردین والی بات تم دوگے تودوسرا بھی دے تم لوگے تو دوسرے کو بھی دوگے۔
یوں کہیے کہ ایک ''حق''دوسرے کا ''فرض'' ہوجاتاہے ۔
ٹیکس لینا حکومت کاحق ہے اوررعایا کا فرض۔اس کے بدلے عوام کی ضروریات پوری کرناحکومت کافرض ہے اوررعایا کاحق اوراگر دونوں اس پر کاربند رہیں گے تو کوئی بگاڑ پیدا نہ ہوگا اورایک بہترین معاشرہ اورنظام وجود میں آئے گا اورمسلسل چلتا رہے گا اوردونوں فریق آرام سے رہیں گے نہ صرف یہ بلکہ اس نظام کے اندر جوباقی بے شمار ازواج یاجوڑے ہیں وہ بھی عدم توازن کاشکارنہیںہوںگے جیسے جرم اور قانون کازوج،ڈاکٹر اورمریض کاجوڑ، افسرو ماتحت کا جوڑ، شاگرد اوراستاد کاجوڑ،حکومتی اداروں اور عوام کا جوڑ اورسب سے اہم ترین جوڑ ''نرومادہ''کا جس پر روشنی ڈالی جاچکی ہے ۔
جن ممالک میں حکومت اورعوام کا جوڑ صحیح اندازمیں چل رہاہے وہاں انسان ہرطرح سے عافیت اورچین میں ہے لیکن جن ممالک میں حکمران اشرافیہ اورمحکوم عوامیہ کا جوڑ بگڑ چکاہے وہاں جرائم، تشدد، منشیات ، بے راہ روں اور بدعنوانیوں کا حشر برپا ہے اوران میں سے ایک ہمارا ملک بھی ہے۔
یہاں حکومت اپنے ''حقوق''تو بڑھ چڑھ کر بلکہ حد سے متجاوزہوکر لیتی ہے یاچھینتی ہے لیکن بدلے میں عوامیہ کا حق اوراپنا فرض ایک بھی ادا نہیں کرتی ہے اوربے شمار ٹیکسوں جائزوناجائز وصولیوں کے بدلے عوام کے جو حقوق اورحکمرانیہ کے فرائض ہیں وہ بہت ہی مختصرہیں، جو ایک لفظ ''حفاظت''کی مختلف صورتیں ہیں کہ حکمرانیہ کی ابتداہی اس منصب محافظ سے ہوئی تھی ان میں جان ومال کی حفاظت،صحت کی حفاظت ،ذہن کی حفاظت یعنی تعلیم اورنان ونفقہ کی حفاظت یعنی روزگار شامل ہیں لیکن چاروں اطراف چپے چپے، کونے کونے اورقدم قدم پر نظر ڈالیے، حکومت ان میں سے کوئی بھی فرض اداکررہی ہے؟
ادا کرنے کا دکھاؤا ہورہاہے، وہ مزید ان حقوق کو لوٹنے کا ذریعہ ہیں، بظاہر ان اغراض کے لیے بہت سارے محکمے اورادارے قائم نظر آتے ہیں لیکن وہاں ہوتاکیاہے، عوامیہ کو مزید نوچنے اور کھسوٹنے کاکام۔
کہتے ہیں ملک میں امن نہیں، چین نہیں، روزگار نہیں، جرائم ہیں، کرپشن سے چھینا جھپٹی ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔
تو ایسے لنگڑے نظام میں کچھ ہوبھی کیسے سکتاہے؟ اورسب کچھ کاذمے دار وہ ''مہاچور'' ہے جسے سب جانتے ہیں کیوں کہ پبلک سب جانتی ہے۔