خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال

بھارت سی پیک اورون بیلٹ ون روڈمنصوبے کی مخالفت بھی کررہاہے، جب کہ بیلٹ اینڈروڈ منصوبے میں چین کے ساتھ شراکت داربھی ہے۔


Zuber Rehman December 01, 2020
[email protected]

مشرقی وسطیٰ، امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال بدلنے کی جانب گامزن ہے۔ حال ہی میں بیشتر خلیجی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ امریکا، عراق اور افغانستان سے کچھ فوجیوں کے سوا باقی فوج کو وہاں سے نکال رہا ہے۔ بھارت پاکستان کی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔

ان تمام بدلتے حالات کے پیچھے معاشی مفادات پنہاں ہیں۔ وسائل پر قبضے اور عالمی سرمایہ داری کی منافع خوری ہی تمام صورتحال کی جڑ ہے۔ خلیج میں تیل کے مفادات اور چین بھارت کے وسط میں تبت، لداخ پر قبضے کی کشمکش بھی وسائل پر اجارہ داری کی کوششیں ہیں۔ چین اور بھارت کے مابین 2520 میل لمبی سرحد میں سے 2100 میل سرحد غیر متعین ہے۔

1962کی چین بھارت جنگ میں چین نے لداخ کے علاقے اقصائے چن پر 1952 میں کیے گئے قبضے کو مستقل کرلیا تھا۔ اس سال جون کے وسط میں چینی فوج کی پیش قدمی اور 20 سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ چین کے کتنے فوجی ہلاک ہوئے اس کی کوئی اطلاع یا تصدیق نہیں ہوئی۔

اس لیے بھی کہ چین کی سرکاری اطلاعات کے علاوہ کوئی اور ذرایع موجود نہیں۔ تاہم اب دونوں اطراف برف پگھلنے کی خبریں آ رہی ہیں، مگر ابھی بھی فوجیں بھاری ہتھیاروں کے ساتھ سرحدوں پر موجود ہیں۔ 3 سال قبل اس تنازعے کی ابتدا چین کی فوج کی جانب سے متنازعہ علاقے میں تعمیراتی کام رکوانے کی بھارتی کوشش سے ہوئی تھی۔ دونوں اطراف سے جھڑپوں کے باوجود چین نے وسیع پیمانے پر سڑکوں اور دیگر نوعیت کی تعمیراتی کام جاری رکھا ہوا ہے، جس کے بعد بھارت کی جانب سے بھی وادی گلوان میں دریائے گلوان کے قریب سڑک کا تعمیراتی کام شروع کردیا گیا ہے۔

چین نے تقریباً 1000 مربع میل علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس کے ردعمل میں بھارت نے کوئی سخت ردعمل دینے کے بجائے موبائل فون ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کرنے اور چینی مصنوعات کے بائیکاٹ جیسی بیان بازی سے زیادہ نہیں کیا۔ لداخ 37000 مربع میل پر مشتمل یہ علاقہ قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے۔

14000 مربع میل پر مشتمل لداخ کے علاقے اقسائے چن پر چین کا قبضہ ہے جب کہ باقی ماندہ لداخ کو گزشتہ سال اگست میں بھارت نے ایک یکطرفہ فیصلے کے بعد بھارتی یونین کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کردیا تھا۔ لداخ کی آبادی تقریباً 3 لاکھ کی ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کی وجہ سے اس دونوں اطراف کے حکمرانوں کی نگاہیں گڑی ہوئی ہیں۔

ماضی میں وسطی ایشیا سے بھارت تک کے تجارتی راستوں کے حوالے سے اس خطے کی اہمیت رہی ہے۔ جب کہ تبت پر چینی قبضے کو مستقل رکھنے اور سابقہ ملک روٹ اور چین پاکستان اقتصادی راہ داری کے تحفظ کے حوالے سے بھی اس خطے کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سونے اور دیگر بیش قیمت قدرتی وسائل سے مالا مال تبت پر قبضے کو مستحکم کرنے اور سی پیک کے داخلی چینی صوبے سنکیانگ کے ساتھ تبت کے قریب ترین رابطے کے لیے لداخ کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ دوسری جانب باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

بھارت سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی مخالفت بھی کر رہا ہے، جب کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں چین کے ساتھ شراکت دار بھی ہے۔ واضح رہے کہ اس منصوبے میں چین، میانمار، بنگلہ دیش اور بھارت شامل ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے مابین تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ جس کو روکنے سے متعلق مودی حکومت نے کوئی بات نہیں کی۔ چین نے صرف گزشتہ مالی سال کے دوران بھارت میں 8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور مجموعی طور پر 800 چینی کمپنیوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اسمارٹ فون کی مینوفیکچرنگ سے لے کر آٹو موبائل اور انڈسٹری تک اور دیگر شعبہ جات میں چینی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

بھارت کے نیم فسطائی حکمران نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے نفاذ اور سامراجی لوٹ مار کی راہ ہموار کرنے کے لیے مذہبی بنیاد پرستی قومی ٹاؤنزم اور ہر طرح کے غیر انسانی استبداد کو روا رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف چین کی ریاست انسانی جمہوری آزادیوں پر قدغن لگا کر انسانوں کو مشینیں بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور خصوصی جیل خانوں کا سلسلہ سنکیانگ سے تبت تک پھیلا چکی ہے۔ جہاں انسانوں کو جیلوں میں مقید کرکے انھیں سامراجی مقاصد کی تکمیل کی مشینیں بنانے کے جبری عمل سے گزارا جا رہا ہے۔

بھارت سے پاکستان، چین اور امریکا تک کے حکمران طبقات سامراجی کھلواڑ اور سفارت کاری کے منافقت کے لیے شہری جمہوری اور مذہبی آزادیوں پر پابندیوں پر بیان بازی کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن عملی بنیادوں پر ہر خطے میں ہر طرح کی آزادیوں پر قدغن لگانے کا سلسلہ بھی بام عروج پر ہے۔ دو سال قبل ٹرمپ انتظامیہ نے چین کی مصنوعات پر 550 ارب ڈالر کے ٹیرف عائد کرتے ہوئے جس تجارتی جنگ کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام رواں سال اگست میں فیز ون ٹریڈ ڈریل کی صورت میں ہوتا دکھائی دیا۔

اس دوران ہانگ کانگ میں چینی عزائم اور بنیادی شہری اور جمہوری آزادیوں پر قدغن کے خلاف امریکا کی بیان بازی عروج پر تھی۔ لیکن تجارتی مفاہمت کے بعد امریکی سامراج کی نہ صرف ہانگ کانگ سے متعلق بیان بازی تبدیل ہوئی بلکہ یہ فیصلہ بھی ہو گیا کہ ہانگ کانگ سے امریکا برآمد کی جانے والی اشیا پر اگر میڈ ان چائنا کی مہر نہ لگی ہوئی ہو تو ان پر اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔اس طرح تجارتی راستے بھی سرمائے کے بہاؤ اور سامراجی مفادات اور منافعوں کے تحفظ کے لیے ہی نہ صرف ترتیب دیے جاتے ہیں بلکہ ان سودے بازیاں اور سرحد کی تبدیلیاں تک کردی جاتی ہیں۔

وسطی ایشیا سے تاریخی سلک روڈ کو جوڑنے والا خطہ لداخ آج میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ لیکن بلتستان، اقصائے چن، لیہ اور کارگل پر مشتمل خطہ لداخ نہ صرف تبت، سنکیانگ، ہماچل، جموں، کشمیر اور موجودہ پاکستان کو آپس میں ملاتا ہے بلکہ سلک روٹ کے ساتھ جڑے ہونے کی وجہ سے وسطی ایشیا سے ہونے والی تجارت کا اہم مرکز بھی رہا ہے۔

سامراجی مقاصد کے ہی تحت 60 کی دہائی میں یہ تجارتی راستہ بند کردیا گیا تھا۔ قبل ازیں برصغیر کی تقسیم چین بھارت جنگ اور بعدازاں 1999پاک بھارت جنگ کے دوران نہ صرف اس خطے کے ٹکڑے کیے گئے بلکہ متعدد خاندانوں کو تقسیم کردیا گیا۔ چند منٹوں کی دوری پر بسنے والے انسانوں کو اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے ہزاروں میل کی مسافت اور حکمرانوں کی مصنوعی دشمنی کی شکار ویزہ پالیسی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔

سماجی ڈھانچہ، صحت، تعلیم اور روزگار کی ناپید صورتحال سے دوچار بلند و بالا پہاڑوں اور شدید ترین موسموں کے حامل اس خطے کے باسی جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کے باسیوں کو تبدیل ہوتے ہوئے عالمی حالات اور سامراجی مفادات و مقاصد کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔

ہر دو صورتوں میں وسائل کی سامراجی لوٹ مار اور منافعوں کی ہوس کی تکمیل کی جائے گی۔ عام انسانوں کی زندگیوں کو مزید اجیرن اور تاراج کیا جائے گا۔ ماضی قریب کی تاریخ گواہ ہے کہ بحران زدہ سرمایہ دارانہ عہد میں لکیروں کے مصنوعی اور سامراجی تعین و تبدیلی سے مسائل حل نہیں ہوں گے، سوائے اس خطے کو ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں تبدیل کرنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں