یو اے ای میں ہونے والی تبدیلیوں کے محرکات
یو اے ای کی ترقی میں پاکستانی شہریوں سمیت دیگر ایشیائی ممالک کے کارکنوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔
ISLAMABAD:
متحدہ عرب امارات میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ متحدہ عرب امارات چھ عرب ریاستوں کا وفاق ہے، جس میں ابوظہبی، دبئی، شارجہ اورعجمان، راس الخیمہ شامل ہیں۔ ابوظہبی سب سے بڑی ریاست ہے۔ یو اے ای کی آبادی 2018 کی مردم شماری کے مطابق 9.5 ملین تھی۔
یو اے ای کی ترقی میں مختلف ممالک کے شہریوں کا بنیادی حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت آبادی کی 11.5 فیصد مقامی افراد پر مشتمل ہے جب کہ 88.5 فیصد غیر ملکی ہیں جن میں 50فیصد کا تعلق جنوبی ایشیائی ممالک سے ہے۔ ان ممالک میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، فلسطین اور فلپائن کے باشندے ہیں۔
یو اے ای میں بنیادی طور پر چھ بڑے قبائل ہیں۔ 50 کی دہائی تک یو اے ای اور اس سے ملحقہ ریاستوں کا شمار پسماندہ ریاستوں میں ہوتا تھا۔ پھر تیل کی دولت نے اس علاقہ کو مالا مال کر دیا۔ یو اے ای کی سب سے بڑی ریاست ابوظہبی ہے جس کی معیشت کا دارومدار تیل پر تھا۔ یو اے ای کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہونے لگا۔ متحدہ عرب امارات ہمیشہ سعودی عرب کا اتحادی رہا۔
گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں ابوظہبی، دبئی اور دیگر ریاستوں نے شاندار ترقی کی۔ یو اے ای کی مختلف ریاستوں میں مختلف قوانین نافذ رہے۔ ابوظہبی اور دبئی میں نائٹ کلب وغیرہ قائم تھے مگر شارجہ اور راس الخیمہ وغیرہ میں ایسا نہیں تھا۔ یو اے ای اور اس کی ملحقہ ریاستوں میں بادشاہت کا نظام ہے، یوں ایک زمانہ میں ان ممالک میں کسی قسم کی آزادی کا تصور نہیں تھا مگرگزشتہ صدی میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجہ میں خواتین کو مردوں کے برابر آزادی ملنے لگی۔ کئی میڈیا ہاؤس قائم ہوئے، میڈیا سٹی قائم ہونے سے اطلاعات کی فراہمی کا عمل شروع ہوا۔ یو اے ای میں گزشتہ چالیس برسوں میں زبردست ترقی ہوئی ہے۔ ہر شہر میں بلند و بالا عمارتیں نظر آتی ہیں۔ امریکا اور یورپ کے معیارکی طرح تفریح گاہیں قائم ہیں۔
اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والی امریکی اور یورپی کمپنیوں کی چین کے ساتھ زندگی کی ضروریات کی دیگر اشیاء تیار کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں کے آؤٹ لیٹ موجود ہیں۔ جدید بینکاری نظام قائم ہے، جہاں پوری دنیا سے کاروبارچند منٹ میں ہوتا ہے۔
یو اے ای کی ترقی میں پاکستانی شہریوں سمیت دیگر ایشیائی ممالک کے کارکنوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ پاکستان سے جانے والے کارکنوں نے سخت گرمی کے موسم میں سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کی بین الاقوامی معیارکے مطابق تعمیر ہونے والی سڑکوں کا سہرا خیبر پختون خوا سے جانے والے محنت کشوں کے سر ہے۔
ادھر بھارتی شہری ہمیشہ سے یو اے ای میں متحرک رہے ہیں۔ بھارتی شہریوں نے بھی بعض اداروںکے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے، یوں بھارتی لابی خاصی بااثر سمجھی جاتی ہے۔ پاکستانی باشندے صرف تعمیراتی کاموں سے وابستہ نہیں رہے بلکہ ہمارے پروفیشنل ماہرین نے سروس سیکٹرکو بھی منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ تیل کی آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب یو اے ای کی ریاستوں نے شعبہ سیاحت کو ترقی دینے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ یو اے ای میں جدید سہولتوں سے لیس اسپتال قائم ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب Medical Tourism پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ باہر سے علاج کرانے کے لیے آنے والے افراد کی تعداد کے اعتبار سے یو اے ای دنیا کے 10 بڑے ممالک میں شامل ہے۔ یو اے ای کو جی سی سی نے Medical Tourism Capital of the World قرار دیا ہے۔ دنیا کے بڑے اسپتالوں کی شاخیں یو اے ای میں قائم ہیں۔ اسی طرح دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں کے کیمپس بھی یہاں قائم ہو چکے ہیں۔ یوں 2017ء میں اس ریاست کو 15.5 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق 2024 تک یہ آمدنی 28 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ یو اے ای کے شہر دبئی کو دنیا کا امیر ترین شہر قرار دیا گیا ہے، مگر اب یو اے ای کی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یواے ای نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور مختلف شعبوں میں تعاون کا آغاز ہو رہا ہے۔ ان شعبوں میں سائنس و ٹیکنالوجی زیادہ اہم ہے۔ اسرائیلی سرمایہ کاروں کے لیے یو اے ای کے مختلف شہروں میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کے درآمد اور سرمایہ کاری کے لیے یو اے ای اور بھارت کی مودی حکومت کے درمیان گزشتہ سال نئے معاہدے ہوئے تھے۔
اس کے ساتھ یو اے ای نے نئی ویزہ پالیسی نافذ کی ہے۔ اس پالیسی کے تحت پاکستانی شہریوں کے لیے ورکنگ ویزے پر پابندی لگانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہے۔تاہم وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسرکہتے ہیں کہ یو اے ای نے 10 ممالک کے باشندوں پر پابندی لگائی ہے اور شاید اس پابندی کی وجہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ ہے مگر لگتا یہی ہے کہ معاملات الجھن کا شکار ہیں۔ یو اے ای حکومت نے تفریح اور سیاحت کے حوالے سے کئی پرانے قوانین میں تبدیلی کی ہے ۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب اسرائیل اور بھارت کے سرمایہ کار اپنی ضروریات کے تحت افرادی قوت اپنے ملکوں سے لائیں گے۔ دبئی کے انگریزی اخبار میں کام کرنے والے صحافی یوں تجزیہ کرتے ہیں کہ یو اے ای کی تیل کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ زرعی شعبہ نہ ہونے کے برابر ہے اور بہت سے کارخانے مختلف وجوہات کی بناء پر بند ہیں۔
اب یو اے ای کو جدید ٹیکنالوجی اور بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بناء پر تعمیراتی کاموں میں مزدروں کا کردار ختم ہو چلا ہے اور پروفیشنل افراد، بینکوں، دکانوں، بڑے بڑے مال میں گیس اسٹیشن اور کھانے کے آئٹم فراہم کرنے والے آؤٹ لیٹ وغیرہ میں آٹومیشن کی بناء پر وائٹ کالرزکا کردار ختم ہو رہا ہے۔یو اے ای میں کسی فرد کو اپنے بینک میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہر طرف انفارمیشن ٹیکنالوجی نے آٹومیشن کے ذریعہ انسانوں کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔ اب جدید ٹیکنالوجی پر دسترس رکھنے والے ماہرین کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بڑے بڑے سرمایہ کار اداروں کے لیے گنجائش ہے۔
یو اے ای میں نافذ ہونے والے نئے قوانین کا نفاذ اسرائیل، بھارت اور یورپی ممالک کے باشندوں کو پسندیدہ ماحول فراہم کرتا ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی بھی پاکستانی کارکنوں کے مستقبل کو مخدوش کر رہی ہے۔ عجب المیہ یہ ہے کہ حکومت حقیقت کا ادراک کرنے کو تیار نہیں ہے اور یہ حقیقت عوام کو بتانی چاہیے کہ اقتصادی ضروریات کی بناء پر دوست اسلامی ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان تعلیم، صحت اور جدید ٹیکنالوجی کے معاملہ میں خاصا پیچھے ہے، اگر پاکستان کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہوتی اور بڑے سرمایہ کار ہوتے تو پاکستانی باشندے بھارت اور اسرائیل کو ان ممالک میں قدم جمانے کا موقع نہیں دیتے۔ اس حقیقت کا اقرار کرنا ضروری ہے کہ ہماری ترجیحات میں تعلیم، صحت اور جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے اور ہمارا زور سیکیورٹی اسٹیٹ کو مضبوط کرنے میں ہے، اگر اب بھی پڑوسی ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور نہیں ہوا تو اگلی صدی میں بھی پاکستان دنیا کے پسماندہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔
متحدہ عرب امارات میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ متحدہ عرب امارات چھ عرب ریاستوں کا وفاق ہے، جس میں ابوظہبی، دبئی، شارجہ اورعجمان، راس الخیمہ شامل ہیں۔ ابوظہبی سب سے بڑی ریاست ہے۔ یو اے ای کی آبادی 2018 کی مردم شماری کے مطابق 9.5 ملین تھی۔
یو اے ای کی ترقی میں مختلف ممالک کے شہریوں کا بنیادی حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت آبادی کی 11.5 فیصد مقامی افراد پر مشتمل ہے جب کہ 88.5 فیصد غیر ملکی ہیں جن میں 50فیصد کا تعلق جنوبی ایشیائی ممالک سے ہے۔ ان ممالک میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، فلسطین اور فلپائن کے باشندے ہیں۔
یو اے ای میں بنیادی طور پر چھ بڑے قبائل ہیں۔ 50 کی دہائی تک یو اے ای اور اس سے ملحقہ ریاستوں کا شمار پسماندہ ریاستوں میں ہوتا تھا۔ پھر تیل کی دولت نے اس علاقہ کو مالا مال کر دیا۔ یو اے ای کی سب سے بڑی ریاست ابوظہبی ہے جس کی معیشت کا دارومدار تیل پر تھا۔ یو اے ای کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہونے لگا۔ متحدہ عرب امارات ہمیشہ سعودی عرب کا اتحادی رہا۔
گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں ابوظہبی، دبئی اور دیگر ریاستوں نے شاندار ترقی کی۔ یو اے ای کی مختلف ریاستوں میں مختلف قوانین نافذ رہے۔ ابوظہبی اور دبئی میں نائٹ کلب وغیرہ قائم تھے مگر شارجہ اور راس الخیمہ وغیرہ میں ایسا نہیں تھا۔ یو اے ای اور اس کی ملحقہ ریاستوں میں بادشاہت کا نظام ہے، یوں ایک زمانہ میں ان ممالک میں کسی قسم کی آزادی کا تصور نہیں تھا مگرگزشتہ صدی میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجہ میں خواتین کو مردوں کے برابر آزادی ملنے لگی۔ کئی میڈیا ہاؤس قائم ہوئے، میڈیا سٹی قائم ہونے سے اطلاعات کی فراہمی کا عمل شروع ہوا۔ یو اے ای میں گزشتہ چالیس برسوں میں زبردست ترقی ہوئی ہے۔ ہر شہر میں بلند و بالا عمارتیں نظر آتی ہیں۔ امریکا اور یورپ کے معیارکی طرح تفریح گاہیں قائم ہیں۔
اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والی امریکی اور یورپی کمپنیوں کی چین کے ساتھ زندگی کی ضروریات کی دیگر اشیاء تیار کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں کے آؤٹ لیٹ موجود ہیں۔ جدید بینکاری نظام قائم ہے، جہاں پوری دنیا سے کاروبارچند منٹ میں ہوتا ہے۔
یو اے ای کی ترقی میں پاکستانی شہریوں سمیت دیگر ایشیائی ممالک کے کارکنوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ پاکستان سے جانے والے کارکنوں نے سخت گرمی کے موسم میں سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کی بین الاقوامی معیارکے مطابق تعمیر ہونے والی سڑکوں کا سہرا خیبر پختون خوا سے جانے والے محنت کشوں کے سر ہے۔
ادھر بھارتی شہری ہمیشہ سے یو اے ای میں متحرک رہے ہیں۔ بھارتی شہریوں نے بھی بعض اداروںکے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے، یوں بھارتی لابی خاصی بااثر سمجھی جاتی ہے۔ پاکستانی باشندے صرف تعمیراتی کاموں سے وابستہ نہیں رہے بلکہ ہمارے پروفیشنل ماہرین نے سروس سیکٹرکو بھی منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ تیل کی آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب یو اے ای کی ریاستوں نے شعبہ سیاحت کو ترقی دینے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ یو اے ای میں جدید سہولتوں سے لیس اسپتال قائم ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب Medical Tourism پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ باہر سے علاج کرانے کے لیے آنے والے افراد کی تعداد کے اعتبار سے یو اے ای دنیا کے 10 بڑے ممالک میں شامل ہے۔ یو اے ای کو جی سی سی نے Medical Tourism Capital of the World قرار دیا ہے۔ دنیا کے بڑے اسپتالوں کی شاخیں یو اے ای میں قائم ہیں۔ اسی طرح دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں کے کیمپس بھی یہاں قائم ہو چکے ہیں۔ یوں 2017ء میں اس ریاست کو 15.5 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق 2024 تک یہ آمدنی 28 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ یو اے ای کے شہر دبئی کو دنیا کا امیر ترین شہر قرار دیا گیا ہے، مگر اب یو اے ای کی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یواے ای نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور مختلف شعبوں میں تعاون کا آغاز ہو رہا ہے۔ ان شعبوں میں سائنس و ٹیکنالوجی زیادہ اہم ہے۔ اسرائیلی سرمایہ کاروں کے لیے یو اے ای کے مختلف شہروں میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کے درآمد اور سرمایہ کاری کے لیے یو اے ای اور بھارت کی مودی حکومت کے درمیان گزشتہ سال نئے معاہدے ہوئے تھے۔
اس کے ساتھ یو اے ای نے نئی ویزہ پالیسی نافذ کی ہے۔ اس پالیسی کے تحت پاکستانی شہریوں کے لیے ورکنگ ویزے پر پابندی لگانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہے۔تاہم وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسرکہتے ہیں کہ یو اے ای نے 10 ممالک کے باشندوں پر پابندی لگائی ہے اور شاید اس پابندی کی وجہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ ہے مگر لگتا یہی ہے کہ معاملات الجھن کا شکار ہیں۔ یو اے ای حکومت نے تفریح اور سیاحت کے حوالے سے کئی پرانے قوانین میں تبدیلی کی ہے ۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب اسرائیل اور بھارت کے سرمایہ کار اپنی ضروریات کے تحت افرادی قوت اپنے ملکوں سے لائیں گے۔ دبئی کے انگریزی اخبار میں کام کرنے والے صحافی یوں تجزیہ کرتے ہیں کہ یو اے ای کی تیل کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ زرعی شعبہ نہ ہونے کے برابر ہے اور بہت سے کارخانے مختلف وجوہات کی بناء پر بند ہیں۔
اب یو اے ای کو جدید ٹیکنالوجی اور بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بناء پر تعمیراتی کاموں میں مزدروں کا کردار ختم ہو چلا ہے اور پروفیشنل افراد، بینکوں، دکانوں، بڑے بڑے مال میں گیس اسٹیشن اور کھانے کے آئٹم فراہم کرنے والے آؤٹ لیٹ وغیرہ میں آٹومیشن کی بناء پر وائٹ کالرزکا کردار ختم ہو رہا ہے۔یو اے ای میں کسی فرد کو اپنے بینک میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہر طرف انفارمیشن ٹیکنالوجی نے آٹومیشن کے ذریعہ انسانوں کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔ اب جدید ٹیکنالوجی پر دسترس رکھنے والے ماہرین کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بڑے بڑے سرمایہ کار اداروں کے لیے گنجائش ہے۔
یو اے ای میں نافذ ہونے والے نئے قوانین کا نفاذ اسرائیل، بھارت اور یورپی ممالک کے باشندوں کو پسندیدہ ماحول فراہم کرتا ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی بھی پاکستانی کارکنوں کے مستقبل کو مخدوش کر رہی ہے۔ عجب المیہ یہ ہے کہ حکومت حقیقت کا ادراک کرنے کو تیار نہیں ہے اور یہ حقیقت عوام کو بتانی چاہیے کہ اقتصادی ضروریات کی بناء پر دوست اسلامی ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان تعلیم، صحت اور جدید ٹیکنالوجی کے معاملہ میں خاصا پیچھے ہے، اگر پاکستان کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہوتی اور بڑے سرمایہ کار ہوتے تو پاکستانی باشندے بھارت اور اسرائیل کو ان ممالک میں قدم جمانے کا موقع نہیں دیتے۔ اس حقیقت کا اقرار کرنا ضروری ہے کہ ہماری ترجیحات میں تعلیم، صحت اور جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے اور ہمارا زور سیکیورٹی اسٹیٹ کو مضبوط کرنے میں ہے، اگر اب بھی پڑوسی ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور نہیں ہوا تو اگلی صدی میں بھی پاکستان دنیا کے پسماندہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔