اپوزیشن کی احتجاجی تحریک اور سینٹ الیکشن کی خاموش تیاری
پارٹی کے بعض ارکان اسمبلی بھی ایم پی اے شپ چھوڑ کر سینیٹر بننے کے خواہشمند ہیں۔
بلوچستان میں مارچ2021ء کے سینٹ کے الیکشن کی تیاریاں انڈر گراؤنڈ شروع ہو چکی ہیں۔
پی ڈی ایم کے جلسوں کے حوالے سے بعض سیاسی محفلوں میں سینٹ الیکشن اور حکومتوں کی تبدیلی پر بحث و مباحثہ تاحال چل رہا ہے اور کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد ان محفلوں میں یہ تاثر بڑا عام تھا کہ دسمبر اور جنوری2021ء تک ملک میں بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو جائیں گی جس کا اظہار پی ڈی ایم کے جلسوں میں بھی بڑے وثوق سے کیا جا رہا تھا لیکن پی ڈی ایم کے پشاور جلسے کیلئے ایک بڑے گیپ کے باعث اور پی ڈی ایم کی جماعتوں میں اختلافات کی خبروں نے تبدیلی کی باتوں کو کمزور کیا ہے اور سینٹ الیکشن کے حوالے سے یہ کہا جا رہا تھا کہ تبدیلی کی صورت میں شاید یہ الیکشن موخر ہو جائیں؟
پی ڈی ایم کی تحریک جس زور و شور سے چلی اور اب اس کے زور میں کمی نے سینٹ کے الیکشن کے مقررہ وقت پر منعقد ہونے کو تقویت بخشی ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے انڈر گراؤنڈ اس کی تیاریاں بھی شروع کردی ہیں خصوصاً بلوچستان کی سیاسی وقوم پرست جماعتوں نے ہوم ورک شروع کردیا ہے۔
بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں بلوچستان میں اس مرتبہ بھی کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے اور سیاسی و قوم پرست اور مذہبی جماعتیں جو کہ بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی رکھتی ہیں غیر بلوچستانی سینٹ کے اُمیدواروں کا راستہ روکنے کیلئے حکمت عملی مرتب کر رہی ہیں اور اُن کی کوشش ہے کہ جماعتوں سے وابستہ سیاسی لوگوں کو آگے لایا جائے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق گو کہ بلوچستان سے آزاد حیثیت سے باہر سے آکر حصہ لینے والوں کو روکنے کیلئے سیاسی جماعتیں اپنے تئیں کوششیں تو کر رہی ہیں لیکن انہیں روکنا ایک مشکل کام ہوگا کیونکہ یہ آزاد پنچھی''چمک'' کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے کر نہ صرف سیاسی ماحول کو ''پراگندا'' کرتے ہیں بلکہ اس عمل سے بلوچستان کی بدنامی ہوتی ہے جسے سیاسی حلقوں میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں اس مرتبہ سینٹ کا الیکشن انتہائی''ٹف'' ہوگا کیونکہ اپوزیشن اور حکومت اس الیکشن کو اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس حکمت عملی کے باعث غیر بلوچستانی یا آزاد اُمیدوار کیلئے کافی مشکلات ہوں گی۔
اپوزیشن اور حکومتی اتحاد مشترکہ اُمیدوار میدان میں اُتاریں گے، اپوزیشن جماعتیں بی این پی، جمعیت علماء اسلام، پشتونخواملی عوامی پارٹی اس وقت پی ڈی ایم کا حصہ ہیں اور وہ آپس میں مشاورت کے بعد ہی اپنے اُمیدوار سامنے لائیں گی جبکہ حکومتی اتحاد کی سائیڈ پر ابھی مشترکہ اُمیدواروں کیلئے معاملات طے ہونا باقی ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک بار پھر وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی باتیں کی جا رہی ہیں جس پر وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنا یہ شوق پورا کر لیں ان کی حکومت مضبوط ہے۔اس بات سے وزیراعلیٰ جام کمال کے پُر اعتماد ہونے کے ساتھ اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ صورتحال ان کے کنٹرول میں ہے۔
تاہم بعض سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیرا علیٰ بلوچستان جام کمال نے سینٹ الیکشن2021ء سے قبل ضمنی انتخابات میں اتحادی جماعتوں اے این پی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور تحریک انصاف سے جو وعدے کرکے سینٹ کے ضمنی انتخابات میں اپنے پارٹی اُمیدواروں کو کامیاب کرایا تھا اب انہیں ان وعدوں کو بھی پورا کرنا ہوگا جس کیلئے انہیں کافی سوچ و بچار کرنا ہوگی ۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق سینٹ الیکشن 2021ء وزیراعلیٰ جام کمال کیلئے ایک کڑا امتحان ہوگا۔
اُنہیں متحدہ اپوزیشن کے مقابلے میں حکومتی اتحاد کو اس الیکشن میں برتری بھی دلوانا ہوگی اور سیاسی حکمت عملی سے اپنے اتحادیوں کو بھی مطمئن کرنا ہوگا ورنہ اُن کیلئے آگے چل کر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ بعض سیاسی حلقوں کے مطابق جام کمال کی ایک اتحادی جماعت بی این پی (عوامی) بھی سینٹ میں اپنے اُمیدوار کو میدان میں لانے کیلئے انتہائی سنجیدہ ہے اس وقت بلوچستان اسمبلی میں بی این پی عوامی کی دو نشستیں ہیں۔
اس کے تیسرے رکن اسمبلی سید احسان شاہ نے بی این پی عوامی سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی نئی جماعت تشکیل دی ہے ان سیاسی مبصرین کے مطابق بی این پی (عوامی) نے اپوزیشن جماعت بی این پی کی قیادت سے بھی رابطہ کیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ 2015ء کے سینٹ الیکشن میں بی این پی عوامی نے بی این پی کے اُمیدوار جہانزیب جمالدینی کو کامیاب کرانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
اُس وقت بی این پی کے پاس صرف دو ووٹ تھے لہٰذابی این پی اُس کی مقروض ہے اور وہ اس مرتبہ اُس کے نامزد اُمیدوار کو کامیاب کرانے میں اپنا کردار ادا کرے جس کیلئے اُن کی جماعت کے مرکزی صدر و سابق وفاقی وزیر و سینیٹر میر اسرار اﷲ زہری مضبوط اُمیدوار ہیں۔
گذشتہ دنوں اُنہوں نے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل سے بھی ملاقات کی تھی۔دوسری طرف بی این پی (عوامی) اپنے اُمیدوار کیلئے وزیراعلیٰ جام کمال سے بھی رابطہ کرے گی کیونکہ سینٹ کے ضمنی انتخابات میں بی این پی عوامی نے حکومتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے اُمیدواروں کوووٹ دیا تھا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر وزیراعلیٰ جام کمال نے اتحادی جماعتوں کو وعدے کے مطابق سینٹ الیکشن میں''اکاموڈیٹ'' کیا تو انہیں اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے کافی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے اپنے اُمیدواروں کی تعداد ''گھٹ'' سکتی ہے کیونکہ اس وقت2021ء کے سینٹ الیکشن کیلئے پارٹی کے بہت سے اُمیدوار ہیں۔
پارٹی کے بعض ارکان اسمبلی بھی ایم پی اے شپ چھوڑ کر سینیٹر بننے کے خواہشمند ہیں جس کا اظہار وہ نجی محفلوں میں کر چکے ہیں یقیناً یہ جام کمال کیلئے کڑا امتحان ہوگااور اس کڑے امتحان سے گزرنے کیلئے وزیراعلیٰ جام کمال خان کو سیاسی بالغ نظری اور تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔
پی ڈی ایم کے جلسوں کے حوالے سے بعض سیاسی محفلوں میں سینٹ الیکشن اور حکومتوں کی تبدیلی پر بحث و مباحثہ تاحال چل رہا ہے اور کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد ان محفلوں میں یہ تاثر بڑا عام تھا کہ دسمبر اور جنوری2021ء تک ملک میں بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو جائیں گی جس کا اظہار پی ڈی ایم کے جلسوں میں بھی بڑے وثوق سے کیا جا رہا تھا لیکن پی ڈی ایم کے پشاور جلسے کیلئے ایک بڑے گیپ کے باعث اور پی ڈی ایم کی جماعتوں میں اختلافات کی خبروں نے تبدیلی کی باتوں کو کمزور کیا ہے اور سینٹ الیکشن کے حوالے سے یہ کہا جا رہا تھا کہ تبدیلی کی صورت میں شاید یہ الیکشن موخر ہو جائیں؟
پی ڈی ایم کی تحریک جس زور و شور سے چلی اور اب اس کے زور میں کمی نے سینٹ کے الیکشن کے مقررہ وقت پر منعقد ہونے کو تقویت بخشی ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے انڈر گراؤنڈ اس کی تیاریاں بھی شروع کردی ہیں خصوصاً بلوچستان کی سیاسی وقوم پرست جماعتوں نے ہوم ورک شروع کردیا ہے۔
بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں بلوچستان میں اس مرتبہ بھی کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے اور سیاسی و قوم پرست اور مذہبی جماعتیں جو کہ بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی رکھتی ہیں غیر بلوچستانی سینٹ کے اُمیدواروں کا راستہ روکنے کیلئے حکمت عملی مرتب کر رہی ہیں اور اُن کی کوشش ہے کہ جماعتوں سے وابستہ سیاسی لوگوں کو آگے لایا جائے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق گو کہ بلوچستان سے آزاد حیثیت سے باہر سے آکر حصہ لینے والوں کو روکنے کیلئے سیاسی جماعتیں اپنے تئیں کوششیں تو کر رہی ہیں لیکن انہیں روکنا ایک مشکل کام ہوگا کیونکہ یہ آزاد پنچھی''چمک'' کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے کر نہ صرف سیاسی ماحول کو ''پراگندا'' کرتے ہیں بلکہ اس عمل سے بلوچستان کی بدنامی ہوتی ہے جسے سیاسی حلقوں میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں اس مرتبہ سینٹ کا الیکشن انتہائی''ٹف'' ہوگا کیونکہ اپوزیشن اور حکومت اس الیکشن کو اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس حکمت عملی کے باعث غیر بلوچستانی یا آزاد اُمیدوار کیلئے کافی مشکلات ہوں گی۔
اپوزیشن اور حکومتی اتحاد مشترکہ اُمیدوار میدان میں اُتاریں گے، اپوزیشن جماعتیں بی این پی، جمعیت علماء اسلام، پشتونخواملی عوامی پارٹی اس وقت پی ڈی ایم کا حصہ ہیں اور وہ آپس میں مشاورت کے بعد ہی اپنے اُمیدوار سامنے لائیں گی جبکہ حکومتی اتحاد کی سائیڈ پر ابھی مشترکہ اُمیدواروں کیلئے معاملات طے ہونا باقی ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک بار پھر وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی باتیں کی جا رہی ہیں جس پر وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنا یہ شوق پورا کر لیں ان کی حکومت مضبوط ہے۔اس بات سے وزیراعلیٰ جام کمال کے پُر اعتماد ہونے کے ساتھ اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ صورتحال ان کے کنٹرول میں ہے۔
تاہم بعض سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیرا علیٰ بلوچستان جام کمال نے سینٹ الیکشن2021ء سے قبل ضمنی انتخابات میں اتحادی جماعتوں اے این پی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور تحریک انصاف سے جو وعدے کرکے سینٹ کے ضمنی انتخابات میں اپنے پارٹی اُمیدواروں کو کامیاب کرایا تھا اب انہیں ان وعدوں کو بھی پورا کرنا ہوگا جس کیلئے انہیں کافی سوچ و بچار کرنا ہوگی ۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق سینٹ الیکشن 2021ء وزیراعلیٰ جام کمال کیلئے ایک کڑا امتحان ہوگا۔
اُنہیں متحدہ اپوزیشن کے مقابلے میں حکومتی اتحاد کو اس الیکشن میں برتری بھی دلوانا ہوگی اور سیاسی حکمت عملی سے اپنے اتحادیوں کو بھی مطمئن کرنا ہوگا ورنہ اُن کیلئے آگے چل کر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ بعض سیاسی حلقوں کے مطابق جام کمال کی ایک اتحادی جماعت بی این پی (عوامی) بھی سینٹ میں اپنے اُمیدوار کو میدان میں لانے کیلئے انتہائی سنجیدہ ہے اس وقت بلوچستان اسمبلی میں بی این پی عوامی کی دو نشستیں ہیں۔
اس کے تیسرے رکن اسمبلی سید احسان شاہ نے بی این پی عوامی سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی نئی جماعت تشکیل دی ہے ان سیاسی مبصرین کے مطابق بی این پی (عوامی) نے اپوزیشن جماعت بی این پی کی قیادت سے بھی رابطہ کیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ 2015ء کے سینٹ الیکشن میں بی این پی عوامی نے بی این پی کے اُمیدوار جہانزیب جمالدینی کو کامیاب کرانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
اُس وقت بی این پی کے پاس صرف دو ووٹ تھے لہٰذابی این پی اُس کی مقروض ہے اور وہ اس مرتبہ اُس کے نامزد اُمیدوار کو کامیاب کرانے میں اپنا کردار ادا کرے جس کیلئے اُن کی جماعت کے مرکزی صدر و سابق وفاقی وزیر و سینیٹر میر اسرار اﷲ زہری مضبوط اُمیدوار ہیں۔
گذشتہ دنوں اُنہوں نے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل سے بھی ملاقات کی تھی۔دوسری طرف بی این پی (عوامی) اپنے اُمیدوار کیلئے وزیراعلیٰ جام کمال سے بھی رابطہ کرے گی کیونکہ سینٹ کے ضمنی انتخابات میں بی این پی عوامی نے حکومتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے اُمیدواروں کوووٹ دیا تھا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر وزیراعلیٰ جام کمال نے اتحادی جماعتوں کو وعدے کے مطابق سینٹ الیکشن میں''اکاموڈیٹ'' کیا تو انہیں اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے کافی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے اپنے اُمیدواروں کی تعداد ''گھٹ'' سکتی ہے کیونکہ اس وقت2021ء کے سینٹ الیکشن کیلئے پارٹی کے بہت سے اُمیدوار ہیں۔
پارٹی کے بعض ارکان اسمبلی بھی ایم پی اے شپ چھوڑ کر سینیٹر بننے کے خواہشمند ہیں جس کا اظہار وہ نجی محفلوں میں کر چکے ہیں یقیناً یہ جام کمال کیلئے کڑا امتحان ہوگااور اس کڑے امتحان سے گزرنے کیلئے وزیراعلیٰ جام کمال خان کو سیاسی بالغ نظری اور تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔