پی ڈی ایم قیادت پر مقدمات کا اندراج سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ
حکومت جس ٹریک پر چل رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ حکومت،اپوزیشن کے ساتھ رابطہ کرے گی۔
ISLAMABAD:
پی ڈی ایم کے پشاور جلسہ سے صوبہ کے سیاسی درجہ حرارت میں جو اضافہ ہوا تھا اس کے حوالے سے لگ یہ رہا تھا کہ شاید جلسہ ہو جانے کے بعد اس میں کمی واقع ہوگی لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم جلسہ کے حوالے سے ایف آئی آرکے اندراج نے یہ درجہ حرارت مزید بڑھا دیا ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے وزراء نے پہلے ہی اعلان کر رکھا تھا کہ اگر جلسہ کی وجہ سے کورونا کی وباء میں اضافہ ہوا تو اس صورت میں پی ڈی ایم کے خلاف پرچہ کٹے گا اور اسی اعلان کے تسلسل میں پرچہ کٹا بھی جس کے لیے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور اے این پی کی صوبائی سیکرٹری اطلاعات ثمر بلور کے کورونا وباء میں مبتلا ہونے کو بنیاد بنایا گیا ہے لیکن یہ پرچہ نہایت کمزور انداز میں کاٹا گیا ہے۔
کیونکہ اصولی طور پر تو یہ پرچہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن، بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، امیر حیدرہوتی اور آفتاب احمدشیر پاؤ سمیت پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین پر کٹنا چاہیے تھا لیکن یہ پرچہ کاٹا گیا ہے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ضلعی صدور کے نام ، جس سے یہ کمزور انداز کی کاروائی ثابت ہوتی ہے۔
پشاورجلسہ کے لیے اجازت نامہ اور مرکزی قائدین کی سیکورٹی کے حصول کے لیے ڈپٹی کمشنر اور سی سی پی او پشاور کودرخواست جن کی جانب سے دی گئی تھی وہ پانچ سیاسی جماعتوں کے صوبائی جنرل سیکرٹریز تھے تاہم یہ پرچہ ان کے نام پر بھی نہیں کاٹا گیا جس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایاجا رہا ہے کہ حکومت نے ممکنہ طور پر اپنا کہا پورا کرنے کے لیے یہ پرچہ درج کیا ہے اور شاید ہی اس ایف آئی آر کے تحت کوئی کاروائی ہو جس کی وجہ سے یہ ایف آئی آر نمائشی حیثیت لیے ہوئے ہے جس کے خلاف پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مشتعل ہو چکی ہیں اور اے این پی کے انفرادی حیثیت میں احتجاج کے علاوہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں 4 اور6 دسمبر کو پورے خیبرپختونخوا میں احتجاج کریں گی۔
جس کے لیے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا گیا ہے کہ اگر یہ ایف آئی آر واپس نہ ہوئی تو اس صورت میں گورنر، وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء، مشیروں اور دیگر حکومتی عہدیداروں کا گھیراؤ شروع کردیا جائے گا اور ہر سرکاری تقریب میں گوعمران گوکے نعرے لگیں گے۔
اس موقع پرجبکہ پشاور کے بعد ملتان کا میدان بھی گرم ہوا اور اب اگلا مرحلہ لاہور کا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت آیا پی ڈی ایم رہنماؤں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہوئی تو اس صورت میں جن کے خلاف ایف آئی آر کٹی ہے ان کے خلاف کاروائی بھی ہوگی اور ان کی گرفتاریاں بھی کی جائیں گی تاہم قرائن بتا رہے ہیں کہ شاید یہ ایف آئی آر سیل کردی جائے۔
دوسری جانب یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر حکومت کو پی ڈی ایم کے جلسوں سے کورونا پھیلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے تو اس صورت میں جماعت اسلامی کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟ گوکہ جماعت اسلامی نے اگلے دو ہفتوں کے لیے حکومت مخالف تحریک ملتوی کردی ہے تاہم اب تک ملاکنڈ ڈویژن میں جو چار جلسے کیے گئے ہیں ان کے حوالے سے نہ تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے خلاف کوئی پرچہ کٹا ہے اور نہ ہی صوبائی امیر مشتاق احمد خان کے خلاف جو جنوبی اضلاع میں بھی جلسے کرتے آئے ہیں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے جلسے الگ سے ہیں۔
مذکورہ صورت حال یہ داستان سنارہی ہے کہ حکومت،پی ڈی ایم کے ان جلسوں کی وجہ سے دباؤکا شکارہے اور اس دباؤکو کم کرنے کے لیے صرف پی ڈی ایم کی راہ ہی میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
تاہم یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس سے اب پیچھے ہٹنا اتحاد میں شامل جماعتوں کے لیے ممکن نہیں رہا اور اپوزیشن اتحاد کو اب لاہور جلسے کے بعد کے اگلے شیڈول کا اعلان کرنا ہوگا جس میں مزید جلسے بھی ہو سکتے ہیں اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے علاوہ بلوچستان سے تحاریک عدم اعتماد اور استعفے دینے کا سلسلہ بھی، جس کے لیے ماہ دسمبر کی 8 تاریخ کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس منعقد ہونے جا رہاہے جس میں تحریک کی اب تک کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اگلے شیڈول کا اعلان کیا جائے گا۔
تاہم دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ حکومت ،اپوزیشن کی اس تحریک کے حوالے سے بے لچک موقف اپنائے ہوئے ہے حالانکہ حکومتی صفوں میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو جوڑ، توڑ اور بات چیت کے ماہر ہیں اور یہ کھلاڑی اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالتے ہوئے کوئی درمیانی راہ نکال سکتے ہیں۔
لیکن حکومت جس ٹریک پر چل رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ حکومت،اپوزیشن کے ساتھ رابطہ کرے گی یا اسے مذاکرات کی راہ پر لانے کی کوئی کوشش کرے گی جسے دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ یہ معاملہ بند گلی کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں حکومت یا اپوزیشن میں سے کوئی نہ کوئی ضرور پھنسے گا جس سے نکلنے کی راہ کیسے ملے گی؟
یہ حالات پر منحصر ہوگا۔ایسے حالات میں خیبرپختونخوا کی حکومت نہ تو اسمبلی اجلاس بلا رہی ہے اور نہ ہی کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال انھیں اس بات کی اجازت دیتی ہے اور ویسے بھی اگر موجودہ حالات میں خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس بلا بھی لیا گیا تو نتیجہ ایوان کے اندر بھی گرما گرمی اور ہنگامہ آرائی کی صورت ہی میں برآمد ہونا ہے کیونکہ اپوزیشن پارلیمانی جماعتیں اس موقع پر شاید ہی آرام سے بیٹھ سکیں اور وہ ایسے ماحول میں کہ جو حکومت کے خلاف گرم ہے،اس میں اپنا حصہ بھی ڈالنے کی کوشش کریں گی اس لیے حکومت اس موقع پر صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی کوشش نہیں کرے گی۔
پی ڈی ایم کے پشاور جلسہ سے صوبہ کے سیاسی درجہ حرارت میں جو اضافہ ہوا تھا اس کے حوالے سے لگ یہ رہا تھا کہ شاید جلسہ ہو جانے کے بعد اس میں کمی واقع ہوگی لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم جلسہ کے حوالے سے ایف آئی آرکے اندراج نے یہ درجہ حرارت مزید بڑھا دیا ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے وزراء نے پہلے ہی اعلان کر رکھا تھا کہ اگر جلسہ کی وجہ سے کورونا کی وباء میں اضافہ ہوا تو اس صورت میں پی ڈی ایم کے خلاف پرچہ کٹے گا اور اسی اعلان کے تسلسل میں پرچہ کٹا بھی جس کے لیے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور اے این پی کی صوبائی سیکرٹری اطلاعات ثمر بلور کے کورونا وباء میں مبتلا ہونے کو بنیاد بنایا گیا ہے لیکن یہ پرچہ نہایت کمزور انداز میں کاٹا گیا ہے۔
کیونکہ اصولی طور پر تو یہ پرچہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن، بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، امیر حیدرہوتی اور آفتاب احمدشیر پاؤ سمیت پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین پر کٹنا چاہیے تھا لیکن یہ پرچہ کاٹا گیا ہے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ضلعی صدور کے نام ، جس سے یہ کمزور انداز کی کاروائی ثابت ہوتی ہے۔
پشاورجلسہ کے لیے اجازت نامہ اور مرکزی قائدین کی سیکورٹی کے حصول کے لیے ڈپٹی کمشنر اور سی سی پی او پشاور کودرخواست جن کی جانب سے دی گئی تھی وہ پانچ سیاسی جماعتوں کے صوبائی جنرل سیکرٹریز تھے تاہم یہ پرچہ ان کے نام پر بھی نہیں کاٹا گیا جس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایاجا رہا ہے کہ حکومت نے ممکنہ طور پر اپنا کہا پورا کرنے کے لیے یہ پرچہ درج کیا ہے اور شاید ہی اس ایف آئی آر کے تحت کوئی کاروائی ہو جس کی وجہ سے یہ ایف آئی آر نمائشی حیثیت لیے ہوئے ہے جس کے خلاف پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مشتعل ہو چکی ہیں اور اے این پی کے انفرادی حیثیت میں احتجاج کے علاوہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں 4 اور6 دسمبر کو پورے خیبرپختونخوا میں احتجاج کریں گی۔
جس کے لیے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا گیا ہے کہ اگر یہ ایف آئی آر واپس نہ ہوئی تو اس صورت میں گورنر، وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء، مشیروں اور دیگر حکومتی عہدیداروں کا گھیراؤ شروع کردیا جائے گا اور ہر سرکاری تقریب میں گوعمران گوکے نعرے لگیں گے۔
اس موقع پرجبکہ پشاور کے بعد ملتان کا میدان بھی گرم ہوا اور اب اگلا مرحلہ لاہور کا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت آیا پی ڈی ایم رہنماؤں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہوئی تو اس صورت میں جن کے خلاف ایف آئی آر کٹی ہے ان کے خلاف کاروائی بھی ہوگی اور ان کی گرفتاریاں بھی کی جائیں گی تاہم قرائن بتا رہے ہیں کہ شاید یہ ایف آئی آر سیل کردی جائے۔
دوسری جانب یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر حکومت کو پی ڈی ایم کے جلسوں سے کورونا پھیلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے تو اس صورت میں جماعت اسلامی کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟ گوکہ جماعت اسلامی نے اگلے دو ہفتوں کے لیے حکومت مخالف تحریک ملتوی کردی ہے تاہم اب تک ملاکنڈ ڈویژن میں جو چار جلسے کیے گئے ہیں ان کے حوالے سے نہ تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے خلاف کوئی پرچہ کٹا ہے اور نہ ہی صوبائی امیر مشتاق احمد خان کے خلاف جو جنوبی اضلاع میں بھی جلسے کرتے آئے ہیں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے جلسے الگ سے ہیں۔
مذکورہ صورت حال یہ داستان سنارہی ہے کہ حکومت،پی ڈی ایم کے ان جلسوں کی وجہ سے دباؤکا شکارہے اور اس دباؤکو کم کرنے کے لیے صرف پی ڈی ایم کی راہ ہی میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
تاہم یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس سے اب پیچھے ہٹنا اتحاد میں شامل جماعتوں کے لیے ممکن نہیں رہا اور اپوزیشن اتحاد کو اب لاہور جلسے کے بعد کے اگلے شیڈول کا اعلان کرنا ہوگا جس میں مزید جلسے بھی ہو سکتے ہیں اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے علاوہ بلوچستان سے تحاریک عدم اعتماد اور استعفے دینے کا سلسلہ بھی، جس کے لیے ماہ دسمبر کی 8 تاریخ کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس منعقد ہونے جا رہاہے جس میں تحریک کی اب تک کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اگلے شیڈول کا اعلان کیا جائے گا۔
تاہم دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ حکومت ،اپوزیشن کی اس تحریک کے حوالے سے بے لچک موقف اپنائے ہوئے ہے حالانکہ حکومتی صفوں میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو جوڑ، توڑ اور بات چیت کے ماہر ہیں اور یہ کھلاڑی اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالتے ہوئے کوئی درمیانی راہ نکال سکتے ہیں۔
لیکن حکومت جس ٹریک پر چل رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ حکومت،اپوزیشن کے ساتھ رابطہ کرے گی یا اسے مذاکرات کی راہ پر لانے کی کوئی کوشش کرے گی جسے دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ یہ معاملہ بند گلی کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں حکومت یا اپوزیشن میں سے کوئی نہ کوئی ضرور پھنسے گا جس سے نکلنے کی راہ کیسے ملے گی؟
یہ حالات پر منحصر ہوگا۔ایسے حالات میں خیبرپختونخوا کی حکومت نہ تو اسمبلی اجلاس بلا رہی ہے اور نہ ہی کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال انھیں اس بات کی اجازت دیتی ہے اور ویسے بھی اگر موجودہ حالات میں خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس بلا بھی لیا گیا تو نتیجہ ایوان کے اندر بھی گرما گرمی اور ہنگامہ آرائی کی صورت ہی میں برآمد ہونا ہے کیونکہ اپوزیشن پارلیمانی جماعتیں اس موقع پر شاید ہی آرام سے بیٹھ سکیں اور وہ ایسے ماحول میں کہ جو حکومت کے خلاف گرم ہے،اس میں اپنا حصہ بھی ڈالنے کی کوشش کریں گی اس لیے حکومت اس موقع پر صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی کوشش نہیں کرے گی۔